کھیل، سیاست اور کرنسی کا کھیل: خیبرپختونخوا کی سپورٹس ایسوسی ایشنز کا مزاحیہ تماشا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کے انتخابات جنوری 2026 میں ہونے جا رہے ہیں، اور صوبے بھر کی مختلف کھیلوں کی ایسوسی ایشنز اپنے اپنے گھروں، آفسز، اور شاید اپنے خوابوں میں بھی انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خبر ہے کہ اس بار انتخابات خاصے دلچسپ اور غیر معمولی ہوں گے، کیونکہ کئی نامور شخصیات، جو کبھی سیاست میں مشہور نہ ہوئیں، اب کھیلوں کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تیاری صرف نام کی ہے۔ اصل کھیل تو مالی وسائل کے بغیر شروع ہی نہیں ہوتا۔ 2020 کے بعد سے کورونا نے صرف عوام کے جینے کے طریقے بدلے ہی نہیں بلکہ کھیلوں کی دنیا میں بھی زلزلہ برپا کیا۔ صوبائی حکومت سے نہ کوئی گرانٹ ملی، نہ کوئی ایڈ، نہ ہی کوئی ایسا پروگرام جو ایسوسی ایشنز کے فعال رہنے کی ضمانت دے۔ یعنی کھیلوں کے عاشق کھلاڑی اور ایسوسی ایشنز تقریباً “خود کفیل” بن گئے۔
ذرا سوچیں، 38 کے قریب کھیلوں کی ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا میں کام کر رہی ہیں، جن میں سے کچھ تو صرف نام کے لیے فعال ہیں، باقی تو شاید صرف پتے کی لمبائی کے لیے “وجود میں” ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ایسوسی ایشن واقعی کھیلوں کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں یا صرف اپنے عہدوں کی سجاوٹ اور بجٹ کے خواب دیکھ رہی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب ایک مزاحیہ سچائی کے ساتھ سامنے آتا ہے: ایسوسی ایشن کے لوگ زیادہ تر خوش ہیں کہ وہ عہدوں پر ہیں، لیکن کھیلوں کے لیے وقت دینے کا مسئلہ ہمیشہ موجود ہے۔
یہاں سید عاقل شاہ کا ذکر ناگزیر ہے، جنہیں سیاستدان ہونے کے باوجود کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے سب سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے دور میں انہوں نے نیشنل گیمز کروائے، اور ان کے والد بھی کھیلوں سے وابستہ رہے۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ ایسوسی ایشن کو فعال رکھنا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ نیا نسل، نئے ارادے، لیکن پرانے مسائل — یہ مثل ہے کہ آپ نے گیس کا بل ادا کیا، لیکن گیس آج بھی نہیں آئی، اور بجلی تو ابھی بھی اوپر آ رہی ہے۔
کھیلوں سے وابستہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک نئی متحرک قیادت سامنے آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ قیادت کب آئے گی؟ اور کیا یہ قیادت واقعی فعال ہوگی یا صرف بل کے انتظار میں عوام کی طرح “انتظار کرتی رہے گی”؟ گزشتہ چند برسوں میں اگرچہ مختلف سطحوں پر کھیلوں کے مقابلے ہوئے، لیکن اس کے باوجود صوبے میں کھیلوں کا ڈھانچہ کئی حوالوں سے متاثر ہوا۔ کوئی بل ادا نہ ہو تو بل آتا ہے، اور کوئی منصوبہ فعال نہ ہو تو انتخابات آ جاتے ہیں۔ یہ ایک مزاحیہ حقیقت ہے۔
سب سے زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس بار زیادہ تر ایسوسی ایشنز بیلٹ بکس کے ذریعے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک جمہوری اقدام ہے، لیکن حقیقت میں یہ بھی ایک طرح کا “شو آف ہینڈ” ہے، کیونکہ جو عہدے پر بیٹھا ہے وہ اپنے اثر و رسوخ سے سب کچھ کنٹرول کر لے گا۔ اور اگر کوئی نیا شخص آیا تو وہ یا تو سیاستدان ہوگا، یا کھیلوں میں وقت دینے کے لیے مصروف نہیں ہوگا۔ یعنی کھیل، سیاست اور وقت کا یہ کھیل خود ایک مزاحیہ ڈرامہ بن چکا ہے۔
اب مالی بحران پر نظر ڈالیں۔ کورونا کے بعد سے نہ کوئی گرانٹ ملی، نہ کوئی امدادی رقم، نہ کوئی ایسا فنڈ جو ایسوسی ایشنز کی سرگرمیوں کو فعال رکھے۔ کھلاڑی اور ایسوسی ایشنز سب خود کفیل بن گئے ہیں۔ ہر سال، جیسے ہی بجٹ آتا ہے، ایسوسی ایشن کے لوگ اپنے ہی “خواب کے بجٹ” کے ساتھ آتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کے پاس صرف کاغذ پر فعال منصوبے ہوتے ہیں۔ یعنی کھیلوں کا منصوبہ، بجٹ، اور حکمت عملی سب “تصوری کھیل” بن چکے ہیں۔
یہاں ایک مزاحیہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسوسی ایشنز کی مالی حالت خراب۔ کھلاڑیوں کے لیے تو یہ سب کچھ ایک طرح کا “توانائی اور سیاست کا کھیل” ہے۔ وہ کھیلنے کے لیے تیار ہیں، لیکن بجٹ اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے صرف ورزش کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ اور ایسوسی ایشن کے لوگ بھی عہدوں پر بیٹھے ہیں، لیکن فعال نہیں، کیونکہ وقت نہیں ہے۔نیشنل گیمز کراچی میں ہونے جا رہے ہیں، دسمبر میں۔ رابطے بنانے کا کام اہم ہے، لیکن مالی وسائل کے بغیر یہ رابطے بھی زیادہ نہیں چل پاتے۔ ایسوسی ایشن کے لوگ تو فعال ہیں، لیکن عہدوں کے لیے زیادہ خوش ہیں، اور کھیل کے لیے وقت دینے کا مسئلہ ہمیشہ موجود ہے۔ یعنی کھیل، انتخابات، اور وسائل کا یہ مجموعہ ایک مزاحیہ پہیلی بن چکا ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صوبائی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز چاہتے ہیں کہ انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شفافیت کیسے ہوگی جب وسائل، وقت، اور فعال قیادت موجود ہی نہیں؟ انتخابات میں بیلٹ بکس ہوں، لیکن بیلٹ ڈالنے والے اکثر لوگ یا تو مصروف ہوں گے یا سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے فیصلہ پہلے سے کر چکے ہوں گے۔ یہ ایک مزاحیہ لیکن حقیقت پر مبنی طنز ہے۔
یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ انتخابات کی شفافیت کے باوجود، حقیقی چیلنج یہ ہے کہ کھیلوں کے ڈھانچے کو فعال رکھا جائے۔ نہ گرانٹ، نہ ایڈ، نہ وسائل، لیکن ہر سال انتخابات ضرور۔ یہ صورتحال عوام کو ایسے محسوس کراتی ہے جیسے سردی میں گیس نہ ہو، گرمی میں بجلی نہ ہو، اور ہر ماہ بل آتا رہے۔ ایسوسی ایشن کے لوگ خوش ہیں کہ وہ عہدوں پر ہیں، کھلاڑی خوش ہیں کہ کھیلنے کا خواب دیکھ سکتے ہیں، اور عوام خوش ہیں کہ وہ ہنس سکتے ہیں۔
یہ مزاحیہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں کھیلوں کی ترقی، مالی وسائل کی کمی، اور سیاسی وابستگی ایک ایسا تماشہ ہے جسے ہر شہری دیکھ کر یا تو ہنسے یا سر پکڑے۔ انتخابات آئیں گے، نئے لوگ آئیں گے، اور شاید کچھ فعال قیادت سامنے آئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بجٹ، وسائل، اور حقیقی فعال منصوبہ بندی کے بغیر یہ سب کچھ ایک مزاحیہ ڈرامہ ہی رہے گا۔آخر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خیبرپختونخوا کی کھیلوں کی دنیا ایک مزاحیہ، طنزیہ اور حقیقت پر مبنی کہانی ہے: انتخابات آئیں گے، بل آتے رہیں گے، وسائل کم ہوں گے، اور عوام ہنستے رہیں گے۔ کھیل، سیاست، اور مالی بحران کا یہ مجموعہ ایک ایسا تماشہ ہے جو صرف یہاں ممکن ہے، اور جسے دیکھ کر ہر کوئی اپنے حال پر ہنسنے پر مجبور ہے۔ #kpoa #election #pakistan #sportsnews #mojo #Mojosports #Musarratullahjan
|