خوشحال اور ترقی یافتہ یوروپ
اورامریکہ جیسے ملکوں میں منہ کی کھانے کے بعد2009سے17میں سے8 رےسو ںکا مزہ
یوروپ سے باہر چکھتے ہوئے گریٹر نوئیڈا کی بیش قیمت زرخیز زمین پر بے شمار
غذائی نقصان کا ذریعہ بننے والی دنیا کی مہنگی ترین اور ہندوستانی تاریخ کی
پہلی فارمولہ1 ریس کا افتتاح بھلے ہی’ شاندار انداز‘ سے نہ ہو سکا ہو لیکن
کثیر تعداد میں ’شائقین‘ کے مجمع کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کی اسکارٹ
ایجنسیاں ضرورسرگرم عمل ہو گئی ہیں۔ فی الحال دنیا کے گوشہ گوشہ سے تقریبا
5 ہزار جسم فروش لڑکیاں دہلی اور اطراف کے علاقے میں پہنچ گئی ہیں۔ ان کے
ساتھ قریب 450 دلال بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ ،
اسپین ، ترکی ، روس ، اسرائیل ، افغانستان کے علاوہ بڑی تعداد میں
ہندوستانی لڑکیاں بھی اس ریس کے دوران اپنا جسم فروخت کرنے کیلئے تیار ہیں۔
ان لڑکیوں کے باقاعدہ ریٹ کارڈ بھی بن چکے ہیں۔ طویل عرصے سے جسم فروشی کے
دھندے میں مصروف ممبئی کے ایک دلال پریقین کریں تو360 سے 220کلو میٹر فی
گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے والی ریس کے مقابلے کے دوران تقریبا ایک لاکھ سے
زیادہ ناظرین دہلی پہنچ رہے ہیں۔ اس میں سے تقریبا 20ہزار غیر ملکی ناظرین
ہوں گے۔ دولت مشترکہ کھیلوں اورانا ہزارے کی رام لیلا بھوک ہرتال کی طرح اس
بار بھی جسم فروش لڑکیوں کی اچھی خاصی مانگ ہے۔ پردیس سے آنے والے مہمانوں
کو جہاں ’انڈین ماڈل‘ چاہئیں وہیں انڈیا کے ناظرین غیر ملکی حسیناؤں کے جسم
سے اپنی ہوس کی آگ بجھانا چاہتے ہیں۔ 15 ہزار سے 1.50 لاکھ قیمت کے ساتھ
جسم کاروبار کا بازار پوری طرح سج چکا ہے۔ نہ صرف ہوٹلوں کی بکنگ ہو گئی ہے
بلکہ ان کا ل گرلوں کو خفیہ نام بھی دے دیا گیا ہے۔ کسی کو مرسڈیز کا نام
دیا گیا ہے تو کسی کو ایف1۔ ان سب کے درمیان دہلی پولیس کے علاوہ پڑوسی
ریاستوں کی بھی پولیس کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔
1920 اور 1930 کی دہائی سے شروع ہونے والی یوروپین گرینڈ پرکس موٹر دوڑ
فارمولہ -1 ریس سے مرکزی حکومت بھی دو طرفہ کمائی کر رہی ہے۔ ایک طرف جہاں
وہ ایکسائز کسٹم ڈیوٹی کے تحت اس اہتمام سے تقریبا 5 سو کروڑ روپے سے زیادہ
کی رقم حاصل کرے گی وہیں دوسری جانب اس نے اسے کھیل کے طور پرمنظوری دیتے
ہوئے اگلے دس سال کیلئے اس کے منتظمین سے 100 کروڑ روپے کی رقم وصول کی
جبکہ فارمولا ون ایک وسیع ٹیلی ویژن پروگرام ہے جس کے کل عالمی ناظرین کی
تعداد 6000 لاکھ فی ریس ہے۔ فارمولا ون گروپ ، تجارتی حقوق کا قانونی ہولڈر
ہے۔ دنیا کے سب سے مہنگے کھیل کے طور پر اس کے اقتصادی اثرات اہم سمجھے
جاتے ہیں۔سینئر افسران کے مطابق اولین وزارت کھیل فارمولہ 1 ریس کے منتظمین
کو اپنی منظوری‘ ایکسائز مد میں کروڑوں روپے کی چھوٹ دینے پر غور کر رہا
تھاجبکہ نوجوان معاملات اور کھیل کے وزیر اجے ماکن نے اسے ایک مخصوص اور
اعلی طبقہ یا الٹ کلاس اسپوٹرس کا کھیل سمجھتے ہوئے یہ چھوٹ دینے سے انکار
کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اسے کھیل کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ’نو
آبجیکشن ‘ یا’ اعتراض سے پاک ہونے کی سند‘لینے کیلئے بھی کہا۔ اس کے بعد
منتظمین سے 10 کروڑ روپے سالانہ کے حساب سے اگلے دس سال کے لئے سو کروڑ
روپے کی رقم قومی کھیل فنڈ کی مدد رقم کے طور پر وصول کی گئی جس میں سے 5
کروڑ روپے کیرالہ میں اڑن پری پی ٹی اوشا کی طرف سے قائم کئے جا رہے
ایتھلیٹ اسکول کو دیے جائیں گے جبکہ تقریبا 25 کروڑ روپے کی رقم نیشنل
اسٹیڈیم میں مجوزہ ہاکی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کیلئے دیے جانے پر غور کیا جا
رہا ہے۔ کھیل وزیر اجے ماکن کیرل میں پی ٹی اوشا کے اس ا سکول کی بنیاد
رکھیں گے اور 5 کروڑ روپے کی رقم انہیں دیں گے۔ ماکن کے مطابق اسپورٹس فنڈ
سے دیگر کھیلوں کو فروغ دیا جائے گا۔ وزارت کے ذرائع کے مطابق نیشنل
اسپوٹرس فنڈ کو بی سی سی آئی کی جانب سے تقریبا 20‘25 کروڑ روپے حاصل ہوئے
ہیں۔ آنے والے دنوں میں وزارت آئی پی ایل میچ کے منتظمین سے بھی رقم وسول
کرنے پر غور کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ بی سی سی آئی کو نیشنل اسپورٹس بل میں
لانے کی کوششوں کی وجہ سے ماکن مسلسل ان کے نشانے پر رہے ہیں۔ پارٹی لائن
سے اوپر اٹھ کر کرکٹ سے متعلق تقریبا تمام رہنماؤں نے ان پر حملہ بول رکھا
ہے۔ حالانکہ اس بل کو وزیر داخلہ پی چدمبرم سمیت کئی وزراءنے اپنی حمایت
بھی دی ہے۔ حالانکہ وہ اس میں کچھ بہتری کے حامی بھی ہیں۔
دوسری جانب منتظمین کی جانب سے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود 2008
اور 2009 میں اقتصادی بحران سے مقبولیت کھونے والی متنازع فارمولا ون ریس
ملک بھر میں پذیرائی حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ہندوستانی جریدے ’بزنس ویک‘ کی حالیہ رپورٹ پر یقین کریں توبدھ سرکٹ میں
منعقدانڈین ایف ون ریس کیلئے نئی دہلی میں محض 20 فیصد ٹکٹ ہی فروخت ہو سکے
جبکہ ریس منتظمین ہندوستان میں صرف2 اسپورٹس چینلوں سے معاہدہ کرنے میں
کامیاب ہوئے جس کے سبب اس ریس کو اشتہاری مد میں بھی شدید نقصان کا سامنا
کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق بدھ ایف ون ریس کے ترجمان ہارش سمٹانی کا کہنا ہے
کہ سیول اور شنگھائی میں ہونے والی ایف ون ریسنگ گزشتہ 2 برس سے مالی خسارے
کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جاپان اور چین میں فارمولا ون ریس میں
تماشائیوں کی آمد میں بڑے پیمانے میں کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی
شہر نئی دہلی میں ٹریک بنانے سے قبل ہندوستانی کنسٹرکشن کمپنی JAYPEE جے پی
نے ٹریک کی تعمیرات کے لئے اطالوی کمپنی سے رابطہ کیا تھا۔ ریس ٹریک کیساتھ
ساتھ منافع کا پروجیکٹ بھی تیار کیا گیا۔اگر اسپانسروں اور تماشائیوں کی
توجہ ملتی تو دہلی کو ایف ون ریس کے ابتدائی سیزن میں 650 ملین ڈالر کی
آمدنی حاصل ہوتی تاہم اس ریس کیلئے چند اقدامات ایسے کئے گئے جس کے
سببJAYPEE جے پی انفرا ٹیک کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق
ہندوستانی سرمایہ کار جے پرکاش گور نے اس ٹریک کی تعمیرات کیلئے 450 ملین
ڈالرخرچ کئے ہیں۔ یہی نہیں کروڑ پتی سرمایہ کار جے پرکاش نے اس ریس کو
کامیاب بنانے کیلئے دنیا بھر سے صف اول کے فراری ڈرائیوروں سے بھی معقول
معاوضے کے عوض معاہدہ کر رکھا ہے جن میں میک کلارین، لیوس ہیملٹن، گراں پری
چیمپئن سبسٹائن ویٹل اور ریڈ بلز کے ٹیم میٹ مارک وائبر شامل ہیں۔ دوسری
جانب ہندوستانی جریدے ’دکن ہیرالڈ‘ نے انکشاف کیا ہے کہ خلیجی ریاستوں میں
گراں پری ریس میں سب سے زیادہ آمدنی سٹے کاذریعہ ہوتی ہے اور خلیجی ریاستوں
کی نامور فارمولا ون بیٹنگ شخصیات کی توجہ دلانے کیلئے Jaypee انفرا ٹیک نے
یہ ٹریک متعارف کرایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر ایف ون ریس کے2010سیزن میں600
ملین ڈالر کا سٹہ ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم اس سٹے کو فارمولا ون ریس میں
قانونی درجہ حاصل تھا۔ ہندوستانی دار الحکومت نئی دہلی کے نواح میں فارمولا
ون کار ریسنگ کا 5.14 کلو میٹر طویل سرکٹ تیار ہو ا،فارمولا ون کار ریسنگ
ٹریک کو وقت پر مکمل کرنے کی ہندوستانی حکام کی طویل عرصے کی منصوبہ بندی
اور لاکھوں ڈالر کے اخراجات اس وقت دھرے رہ گئے جب ٹریک پر پہلی مرتبہ کی
جانے والی پریکٹس کے دوران ایک کتا آگیا۔ سیاہ رنگ کے اس کتے کی ٹریک پر
آوارگی کی وجہ سے پریکٹس کو پانچ منٹ کیلئے موخر کرنا پڑ گیا۔ بہرحال حکام
کی جانب سے اسے فوراً ہی پکڑ لیا گیا جس کے بعد پریکٹس دوبارہ شروع کی
گئی۔کتے کے ٹریک پر آنے سے نامور فراری ڈرائیور ہیملٹن بڑے حادثے سے بال
بال بچے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ فارمولان ون ریس کے حوالے سے ہندوستانی
انتظامیہ پہلے ہی دباﺅ کا شکار ہے اور اس طرح کے واقعات کی وجہ سے ان کی
پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تمام تر حفاظتی انتظامات
کے باوجود کس طرح ایک کتا ٹریک تک آنے میں کامیاب ہوا؟ اور اگر ریس کے
دوران ایسا ہوا تو یہ عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بننے کے علاوہ کسی بڑے
حادثے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس دوران ایک جانب تو ٹریک پر جھاڑو دیتے
ہوئے لوگ دکھائی دیئے جبکہ میڈیا سینٹر میں ایک چھوٹی چمگادڑ نے صفائی کے
عملے کو پریشان کئے رکھا۔ کئی گھنٹوں تک یہ چمگادڑ میڈیا سینٹرمیں ادھر سے
ادھر اڑتی رہی اور عملے کا ایک شخص اس کے پیچھے صفائی کا ڈنڈا اٹھا کر
بھاگتا رہا۔ برطانیہ کے جینسن بٹن نے کہا ہے کہ ہندوستان فارمولا ڈرائیوروں
کیلئے مشکل ترین ثابت ہو گاکیونکہ لگژری ہوٹل تک تو سب کچھ ٹھیک ہے مگر
ہوٹل سے باہر کا معیار زندگی دیکھ انہیں دھچکا لگا ہے۔ آپ ہندوستان میں
غربت کی صورت حال کو نظر انداز نہیں کر سکتے جہاں امیروں اور غریبوں کے
درمیان بہت بڑا فرق موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ منتظمین نے ٹریک ریسنگ کے فی
ٹکٹ 200 ڈالر رکھ کر غریب ہندوستانی شائقین کی ہتک کی ہے۔ جرمن ڈرائیور
سبسٹائن ویٹل نے کہا کہ یہ تجربہ بہت سے حوالوں سے آپ کو حقیقت کی دنیا میں
لے جائے گا۔ یقیناً اس طرح بہت ساری چیزیں سمجھنے کا موقع بھی ملے گا۔
اولمپکس مقابلوں میں رکاوٹوں والی ریس کے سابق چیمپئن پی ٹی اوشا نے
’اکنامکس ٹائمز‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ
یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ فارمولا ون ریس کے عظیم الشان کھیل کا 99 فیصد
ہندوستانیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ پیسے کا ضیاع ہے‘پہلے ٹونٹی
ٹونٹی کرکٹ نے ہندوستان میں کھیل کی صنعت کو نقصان پہنچایا اور اب فارمولا
ون سے بھی محض صنعت کار ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ یہ لوگ ہندوستان کے
روایتی کھیلوں کے فروغ میں سرمایہ کاری کم ہی کرتے ہیں۔ |