محمد وقاص سلیم لوک ورثہ کی نئی جہتوں کے معمار ہیں۔ تحریر: سیف علی عدیل
پاکستان کی سرزمین ہمیشہ سے تہذیبوں، رنگوں اور فنون کی گہوارہ رہی ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے لوک میلے، موسیقی کی محفلیں، علاقائی ثقافتی دن، دستکاریوں کی نمائشیں اور مقامی فنکاروں کے پروگرام ہمارے سماجی رنگوں کو نہ صرف نمایاں کرتے ہیں بلکہ قوم کی وحدت اور مشترکہ ورثے کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔ انہی روایات کو ایک مرکز میں یکجا کر کے پاکستان کی پہچان کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والا ادارہ لوک ورثہ ہے، جس نے برسوں سے ہماری قومی شناخت کو ایک روشن باب کی صورت محفوظ رکھا۔
گزشتہ برسوں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں سینکڑوں ثقافتی پروگرام منعقد ہوئے جن میں صوفی موسیقی کی محفلیں، علاقائی رقص اور سازوں کے خصوصی مقابلے، دستکاری کے میلوں کا انعقاد، پہاڑی اور صحرائی ثقافت کے نمائشی دن اور روایتی کھانوں کے تہوار شامل تھے۔ صوبہ پنجاب میں لوک گیتوں کی محفلوں نے صدیوں پرانا ورثہ جاگ اٹھایا، سندھ میں اجرک سے سندھی لوک موسیقی تک کے رنگ نمایاں ہوئے، بلوچستان کے روایتی دستکاروں نے قدیم مہارتوں کو زندہ رکھا جبکہ خیبر پختونخوا کی اتنڑ اور رباب نے پاکستان کے ثقافتی منظرنامے میں نئی روح پھونکی۔ یہ پروگرام محض تفریح نہیں بلکہ پاکستان کی کثیر الثقافتی پہچان کو ایک لڑی میں پروتے ہیں۔
لوک ورثہ پاکستان کے وجود، تاریخ اور معاشرتی تسلسل کی وہ بنیاد ہے جس کے بغیر ہماری قومی شناخت ادھوری رہتی ہے۔ دنیا کی ہر قوم اپنی پہچان کو محفوظ رکھنے کے لیے ثقافتی اداروں پر انحصار کرتی ہے اور پاکستان کے لیے یہ کردار لوک ورثہ نہایت مؤثر اور جامع انداز میں ادا کر رہا ہے۔
جب ہم لوک ورثہ کی ترقی اور موجودہ حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک نام پوری آب و تاب سے سامنے آتا ہے: محمد وقاص سلیم۔ وہ شخصیت جنہوں نے لوک ورثہ کی سرگرمیوں کو نہ صرف وسعت دی بلکہ انہیں عالمی معیار تک پہنچایا۔ ملک بھر کے فنکاروں کو یکجا کرنا، علاقائی ثقافتوں کے درمیان روابط کو مضبوط کرنا اور پاکستان کے لوک ورثہ کو نئی جہتوں سے روشناس کرانا ان کی قابل ذکر خدمات میں شامل ہیں۔
ان کے دور میں لوک ورثہ محض ایک ادارہ نہیں رہا بلکہ ایک ایسا مرکز بن گیا جہاں پاکستان کی ہر تہذیب، ہر رنگ اور ہر فن ایک ساتھ سانس لیتا ہے۔ وقاص سلیم کی کوششوں نے پاکستان کی ثقافتی دنیا میں نئی روشنی ڈالی۔ انہوں نے ملک بھر کے لوک فنکاروں کو نہ صرف پلیٹ فارم فراہم کیا بلکہ انہیں عزت، مقام اور شناخت بھی دی۔ ان کے دور میں مختلف قومی اور بین الاقوامی ثقافتی پروگراموں کا جال بچھا، جس نے پاکستان کی مثبت اور روشن تصویر عالمی سطح پر اجاگر کی۔
محمد وقاص سلیم کی قیادت میں لوک ورثہ نے محض ایک ادارے کے طور پر نہیں بلکہ ایک زندہ تہذیبی دھڑکن کے طور پر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستان کے ثقافتی ورثے کی بنیادیں اگرچہ قیام پاکستان کے بعد ہی مضبوط ہونا شروع ہو گئی تھیں، مگر وقاص سلیم وہ شخصیت ہیں جنہوں نے انہی بنیادوں کو عملی قوت دی۔ انہوں نے پرانے ریکارڈ شدہ لوک گیتوں، داستانوں، علاقائی رسومات، دستکاریوں اور خطوں کے روایتی ورثے کو ازسرنو منظم کیا اور انہیں ایسے انداز میں پیش کیا کہ لوک ورثہ ایک جدید مگر روایتی مرکز کی صورت سامنے آیا۔
ان کے دور میں صوبائی ورثے کی درجہ بندی محض نظری نہیں رہی بلکہ ہر ثقافت کو اس کے پورے تناظر کے ساتھ سامنے لایا گیا۔ پنجاب کی دھمال اور جھومر کے ساتھ وارث شاہ اور بلھے شاہ کی روایات کو عملی نمائشوں کا حصہ بنایا گیا۔ سندھ کے اجرک، رلی اور شاہ لطیف کی سُرّی روایات کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا گیا۔ بلوچستان کی صحرائی موسیقی، دستکاری اور لیوا کی دھمک کو پہلی مرتبہ تسلسل کے ساتھ قومی تقریبات میں جگہ ملی۔ خیبر پختونخوا کے رباب، اتنڑ اور کہانی گوئی کو ثقافتی میلوں میں وہ مقام دیا گیا جس سے وہ قومی شناخت کا حصہ بن گئے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کی پہاڑی ثقافت کو ملکی سطح پر باقاعدہ شناخت ملی، جس کا سہرا بھی انہی کی سرپرستی کو جاتا ہے۔
ایگزیکٹو آفیسر نے ادارے کے ڈھانچے کو اس طرح استوار کیا کہ لوک میوزیم، لائبریری، تحقیقاتی مرکز اور دستکاری تربیتی پروگرام سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے تمام خطوں کا ورثہ الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی تسلسل میں ابھرے۔ ان کی نگرانی میں لوک میوزیم نہ صرف دیدہ زیب ماڈلز بلکہ زندہ ثقافتی مناظر کا آئینہ بن گیا۔ لائبریری کے شعبے میں نایاب مواد کو ڈیجیٹل ریکارڈنگ کے ساتھ محفوظ کیا گیا۔
ریسرچ مراکز نے پاکستان کے ثقافتی نقشے کی نئی تفہیم پیدا کی۔ وقاص سلیم نے ملک گیر ثقافتی میلوں کو ایک مربوط شکل دی، جس کے نتیجے میں کالاش فیسٹیول سے لے کر سندھی کلچر ڈے، صوفی موسیقی سے دستکاری کی نمائشوں تک ہر تقریب قومی یکجہتی کی علامت بن گئی۔
ان کے دور میں فنکاروں کو وہ مقام اور سہولتیں ملیں جن کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے پاکستان کے دوردراز علاقوں کے فنکاروں تک رسائی حاصل کی، ان کے فن کو قومی اسٹیج دیا، اور عالمی دنیا میں پاکستان کی مثبت شناخت کو مضبوط کیا۔ یوں ان کے دور میں لوک ورثہ پاکستان کی تہذیبی شناخت کا نہ صرف امین بنا بلکہ عملی طور پر اسے نئی شکل دینے والا ادارہ بھی بن گیا۔
لوک ورثہ پاکستان کی بصری اور سماعتی تاریخ کو محفوظ بنا رہا ہے۔ ہر ہنر مند، ہر فنکار اور ہر علاقائی ثقافت اپنے وجود کے ساتھ اس قومی ورثے میں جگہ پاتی ہے۔ یہ ادارہ صرف میوزیم کی چار دیواری تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی ہے جہاں آنے والا شخص اپنے ملک کی اصل شناخت سے روشناس ہوتا ہے۔
محمد وقاص سلیم جب لوک ورثہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنے تو ادارے نے نئی جہتوں کا سفر شروع کیا۔ ان کا وژن روایات کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔ انہوں نے پورے ملک کے فنکاروں کو سہولتیں فراہم کیں، چھوٹے شہروں میں ثقافتی میلے شروع کروائے، اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی ورثے کو پیش کرنے کے لیے نئے پروگرام ترتیب دیے۔
وقاص سلیم کی قیادت نے لوک ورثہ کو ایک فعال ادارے میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی ثقافتی سرگرمی جاری رہتی ہے۔ ان کی کوششوں سے پاکستان کے فنکار پہلی بار وہ عزت اور مقام حاصل کر سکے، جس کے وہ برسوں سے مستحق تھے۔ انہوں نے ورثے کے احیاء کو ایک قومی مشن کی شکل دی، جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک پہنچیں گے۔
ملک کے ہر دور دراز علاقے سے فنکار بے شمار صلاحیتوں کے باوجود وسائل، پلیٹ فارم اور حکومتی معاونت سے محروم تھے۔ وقاص سلیم نے انہیں پہلی بار قومی دھارے میں شامل کیا، سینکڑوں فنکاروں کو وظائف دلائے، انہیں بڑے پروگراموں میں مدعو کیا، اور عوام میں ان کی قدر و قیمت کو بڑھایا۔
چترال سے آنے والے وائلن نواز ہوں یا تھر کے مورچنگ بجانے والے، بلوچستان کے لیوا ڈانسر ہوں یا سندھ کی رلی بنانے والی دستکار خواتین — سب کو یکساں عزت دی گئی۔ اس کے نتیجے میں دور دراز علاقوں کے فنکار پہلی بار ملک گیر شہرت تک پہنچے۔
محمد وقاص سلیم کے دور میں لوک ورثہ کی کامیابی محض ان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ہم آہنگ اور ہنرمند ٹیم کی مشترکہ کوششوں کا عکس ہے۔ یہ ٹیم ادارے کی ترقی میں ستون کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں شعبۂ انتظامیہ کے کارکنان، آرٹس اینڈ کلچر ڈویژن کے ماہرین، تحقیقی مراکز کے محققین، میڈیا اور نشریاتی ٹیم کے ارکان، پروگرام کوآرڈینیٹرز، لائبریری و آرکائیوز کے اہلکار، ٹیکنیکل اسپورٹ اسٹاف، دستکاری تربیت دینے والے ماسٹر کاریگر اور میوزیم کیوریٹرز شامل ہیں۔
یہ ٹیم وقاص سلیم کے وژن کو عملی شکل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پروگرامز کی تنظیم، میلوں کی ترتیب، بین الاقوامی وفود کی میزبانی، لوک فنکاروں کی رہنمائی، نئی نسل کو تربیت دینا، آرٹ گیلریوں کی تجدید، میوزیم کے ماڈلز کی دیکھ بھال اور تحقیقاتی مواد کو محفوظ کرنا انہی کی محنت سے ممکن ہوا۔
لوک ورثہ کے پروگرامز میں جہاں ایک جانب فنکاروں کی چمک جلوہ گر ہوتی ہے، وہیں دوسری جانب یہ ٹیم خاموشی سے ہر انتظام کو مکمل کرتی ہے۔ کسی تقریب کا اسٹیج ہو یا ساؤنڈ سسٹم، کسی دستکاری میلے کی ترتیب ہو یا ثقافتی دن کا انعقاد، کہیں لوک سازوں کی ساؤنڈ چیک ہو یا رقص کرنے والے گروہوں کی ریہرسل — ٹیم کے افراد ہر جگہ موجود رہتے ہیں اور ہر سرگرمی کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔
وقاص سلیم کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ٹیم ورک کو ادارے کی بنیاد بنا دیا۔ انہوں نے تمام شعبوں کو مربوط کیا، ہر رکن کی صلاحیت کو پہچانا اور انہیں ایسا ماحول دیا جس میں وہ نہ صرف بہتر کام کر سکیں بلکہ ادارے کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈال سکیں۔ اسی ٹیم ورک کے سبب لوک ورثہ آج ایک فعال، ہم آہنگ اور متحرک ثقافتی ادارے کی صورت قائم ہے۔
یہ ٹیم نہ صرف پاکستان کے کلچر کی محافظ ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ورثے کا روشن دروازہ بھی کھولتی ہے۔ لوک ورثہ اب پاکستان کے ہر فنکار، ہر ہنر مند، اور ہر علاقائی روایت کے لیے محفوظ مسکن اور قومی شناخت کا محافظ بن چکا ہے۔
محمد وقاص سلیم کی قیادت میں لوک ورثہ نے پاکستان کے ثقافتی ورثے کو ایک نیا حیات بخشی، جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک پاکستان کی رنگین، متنوع اور شاندار ثقافتی شناخت کو برقرار رکھیں گے۔ یہ ادارہ اب نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری تہذیب، فن اور روایت کا روشن پرچم بلند کر رہا ہے۔
|