وہ جو سب کے بیچ میں اکیلی ہے

چلتے ہیں ایک نئے سفر کے آغاز کی طرف جہاں کوئی بھیڑ بھاگ رہی ہے اور پیچھے خنزیر لگا ہے ،جہاں فاختہ اڑ رہی ہے اور شکار پر کوئی گدھ نکل پڑا ہے ، ستارے ڈوب رہے ہیں اور کوئی چاند گرہن لگنے والا ہے ۔ ہاں! یہ بات ہے اس بارے میں جو ہمارے گردونواح میںموجود ہے، مگر خیالات سے فراموش۔ بے وقعت یوں جیسے اسکی کوئی اہمیت نہ ہو ۔ مگر پھر بھی زندگی میں لازم یوں ہے جیسے ہوا، پر بے رنگ سی۔
حقیقت میں تو وہ بھیڑ سی معصوم ،فاختہ سی نازک اور ستارے سی روشن چراغ ہے ۔ پر وہ ہے کیا؟ اگر اتنی انمول ہی تھی وہ تو بے وقعت کیوں بنی یا بنا دیا گیا اور کس نے بنایا؟ نازک کیوں تھی کہ گدھ کا شکار ہو رہی ہے اور ستارا کیسا تھی کی ڈوب رہی ہے۔ یہ اس ماں، بہن، بیٹی، بہو کا قصہ ہے جو ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ یہ وہ نا سمجھ، کم سن، لاشعور عورتیں اور بیٹیاں ہیں جو ہر ناانصافی کو نصیب کی مات سمجھ کر سر تسلیم خم کر لیتیں ہیں۔ اور زمانہ انھیں سکھاتا ہے تم کمزور ہو۔
بلکل صحیح، زمانہ ٹھیک ہی سہی۔ یہ مقابل کے برابر نہیں، سامنے والی قوتوں سے ٹکرانے کی اہل بھی نہیں مگر کیا یہ انسان بھی نہیں، کیا انھیں عزت کی زندگی جینے کا حق بھی نہیں۔ گالی گلوچ، مار پیٹ، بدسلوکی، بدتہذیبی، بداخلاقی سب انہی کے لیئے۔ آخر کیوں ؟
لمحئہ فکریہ یہ ہے کہ کیا آج کے والدین اپنی بیٹی اور بیٹے کو انکے حقوق اور فرائض نہیں سمجھائیں گے، کیا انھیں اچھی اور تعلیم اچھی تربیت نہیں دیں گے اور کیا انھیں ظلم نہ کرنے والوں میں سے اور مظلوم نہ بننے والوں میں سے نہیں بنائیں گے تاکہ یہ بچے بچیاں کل کو اپنے رشتوں کے آگے مجرم نہ بنیں ۔ حق ادا کرنے والے اور اپنے حقوق سے واقف انسان بن سکیں ۔دنیا بھی سکون سے اور آخرت بھی سکون سے گزار سکیں ۔
مسئلہ اس وقت سے پہلے والدین کی تربیت کا بھی نہیں بلکہ یہ اس انقلاب کا نتیجہ ہے جس سے مغرب نے مشرق کی تہذیب بدل ڈالی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تو صرف نتیجہ ہے وجہ کیا ہے ان معاشرتی برائیوں کی ۔ان سب معاشرتی برائیوں کی جڑ اسلام سے بے رہروی اور دین سے دوری ہے۔ اور پھر ہم نے اسلامی طرزِزندگی، اپنا صحیح ذریعہ معلومات قرآن سنت اور سیرت کا مطالعہ چھوڑ دیا ہے۔ صحیح غلط کی تمیز چھوڑ دی ہے۔ ہم نے علم حاصل کرنا چھوڑ دیا اور ہم بھول گئے کہ یہ علم ہمارے مذہب نے ہم پر حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ تو غلطی کس کی۔ کبھی مغرب، کبھی انقلاب، کس کس کو الزام دیں گے ہم اپنی جہالت کا۔ اسلام نے تو عورت کو بھی بہت حقوق و فرائض دیئے ہیں ۔اور آج نہ عورت فرائض ماننے کو تیار نہ عورت کو حقوق ملتے ہیں ۔ یہ جنگ جہالت کی ہے اور جاہل سب آذادی ڈھونڈ رہےہیں ۔ جس سے معاشرتی نظام تباہی کا شکار ہو رہا ہے ۔
مختصر یہ کہ ہر دور کی طرح آج بھی آنے والی نسل کو اچھی تربیت کی ضرورت ہے اور آج کے والدین خود پیسے کماتے ہیں اور تربیت کروانے کے لیے یا تو سکولوں میں بھیجتے ہیں یا نوکر رکھ لیتے ہیں ۔
جبکہ یہ تربیت والدین کے ذریعے قرآن و سنت کی پیروی سکھانے پر ہونی چاہیے ۔

 

Saleha Saleem
About the Author: Saleha Saleem Read More Articles by Saleha Saleem : 6 Articles with 1978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.