دریاؤں کا تحفظ اور انتظام
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
دریاؤں کا تحفظ اور انتظام تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین نے دریاؤں کے تحفظ اور انتظام کے شعبے میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں جو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی پیمانے پر بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ ملک نے دریاؤں کی ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جو انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے بنیادی اصول پر مرکوز ہے، جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
دریاؤں کے تحفظ میں چین کی کارکردگی نے سیلابوں کے تحفظ، پانی کی فراہمی، خوراک کی سلامتی اور ماحولیاتی تحفظ کو مضبوط بنایا ہے، جو معیاری معاشی و سماجی ترقی کی مضبوط بنیاد ہے۔ چین نے پانی کی بچت کو ترجیح دیتے ہوئے قومی سطح پر پانی بچانے کی مہم چلائی ہے اور آبی وسائل کے تحفظ کے سخت قواعد متعارف کرائے ہیں، جس سے پانی کے غیر موثر استعمال کے بجائے تحفظ اور کارکردگی کی طرف ایک اہم تبدیلی آئی ہے۔
دنیا میں تازہ پانی کے وسائل کا صرف 6 فیصد رکھنے کے باوجود، چین دنیا کی آبادی کے قریب 20 فیصد حصے کو پانی فراہم کرتا ہے اور عالمی معیشت میں 18 فیصد سے زائد حصہ ڈالتا ہے۔ یہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے جو موثر آبی وسائل کے انتظام کا ثبوت ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں پانی کی سلامتی کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ شہری آبادی کا وہ حصہ جو پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے، 2016 میں 93 کروڑ سے بڑھ کر 2050 تک 1.7 ارب سے 2.4 ارب کے درمیان پہنچ سکتا ہے۔ ایسے حالات میں دریائی انتظام ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
چین نے حالیہ برسوں میں بڑے منصوبوں، جدید طریقوں اور سماجی پانی کے انتظام کے شعبے میں وسیع تجربہ حاصل کیا ہے۔ ملک نے دریائی تحفظ کے شعبے میں اپنے علم اور تجربے کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ بانٹنے کا عزم کیا ہے۔ اس سلسلے میں چین نے 112 ممالک کے تقریباً 4,000 آبی ماہرین اور سرکاری اہلکاروں کو تربیت فراہم کی ہے اور پاکستان، ایتھوپیا، انڈونیشیا، سربیا اور سینیگال میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر سینٹر قائم کیے ہیں۔
چین نے اقوام متحدہ کی تنظیموں کے ساتھ آبی وسائل کے شعبے میں قریبی تعاون کیا ہے اور دنیا بھر میں پانی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لیا ہے۔ چین عالمی آبی انتظام کو بہتر بنانے اور پائیدار ترقی کے ایجنڈے 2030 کے آبی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
چین کے دریائی انتظام کے نقطہ نظر میں جامع منصوبہ بندی، سائنس پر مبنی فیصلہ سازی اور مقامی حالات کے مطابق حل شامل ہیں۔ ملک نے دریائی نظاموں کے جامع انتظام پر زور دیا ہے، جس میں سیلاب کے کنٹرول، پانی کے معیار کے تحفظ، آبی حیاتیات کی بحالی اور ماحولیاتی نظام کی بحالی جیسے پہلو شامل ہیں۔
چین نے دریاؤں کی بحالی کے لیے متعدد کامیاب منصوبے شروع کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، یانگسی دریا کے معاشی علاقے میں جامع انتظامی حکمت عملی نے نہ صرف سیلاب کے خطرے کو کم کیا ہے بلکہ آبی معیار میں بھی بہتری آئی ہے اور علاقائی اقتصادی ترقی کو فروغ ملا ہے۔ اسی طرح، دریائے زرد کے علاقے میں ماحولیاتی بحالی کے منصوبوں نے زمین کے کٹاؤ کو روکنے اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پانی کی تقسیم کے نظام کی جدید کاری اور پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے اقدامات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین نے جدید آبپاشی کے نظام متعارف کرائے ہیں جو پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔ صنعتی شعبے میں پانی کے دوبارہ استعمال اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کے ضیاع کو کم کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
عوامی بیداری اور شرکت کو بھی چین کی کامیابی کی ایک اہم کلید سمجھا جاتا ہے۔ عوامی سطح پر پانی بچانے کی مہمات، دریائی تحفظ کے پروگراموں میں مقامی آبادی کی شرکت، اور ماحولیاتی تعلیم کے اقدامات نے دریاؤں کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بین الاقوامی تعاون کے میدان میں، چین نہ صرف اپنا تجربہ بانٹ رہا ہے بلکہ دوسرے ممالک سے سیکھنے کے لیے بھی تیار ہے۔ چین نے متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں اور ورکشاپس کی میزبانی کی ہے جہاں آبی وسائل کے انتظام کے بہترین تجربات کا تبادلہ کیا گیا ہے۔
مستقبل کے حوالے سے چین کا وژن واضح ہے کہ ایک ایسی کرہ ارض کی تعمیر لازم ہے جہاں انسانیت اور پانی کے درمیان ہم آہنگی قائم ہو، جہاں آبی وسائل کے پائیدار انتظام سے نہ صرف موجودہ نسلوں بلکہ آنے والی نسلوں کے مفادات کا بھی تحفظ ہو سکے۔ چین اس وژن کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
چین کی تحفظ آب کی کامیابیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مناسب حکمت عملی، مضبوط سیاسی عزم، سائنسی نقطہ نظر اور عوامی شرکت کے ذریعے آبی وسائل کے چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ تجربہ نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کے لیے رہنمائی کا کام دے سکتا ہے۔ |
|