اولاد کی آزمائش (قسط ٢)
(shahid mehmood, Bhara kahu, islamabad)
| نیک اولاد والدین کے لیے باعث مسرت و راحت اور صدقہ جاریہ ہوتی ہے ۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے ساتھ لاڈ پیار ضرور کریں لیکن ان کی بہترین تربیت کرنے لیے زمانے کے اتار چڑھاو سے بھی ضرور آگاہ کریں |
|
|
شاہدمحمود |
|
آپ میں سے اکثر دوستوں نے میرے کالم کی پہلی قسط اخبارات یا سوشل میڈیا پر پڑھی ہو گی کہ کیسے والدین اپنی اولاد کے لیے محنت و مشقت کرتے ہیں لیکن وہ بچے جیسے ہی جوانی میں قدم رکھتے ہیں سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ والدین نے ان کو اس جوانی تک پہنچانے کے لیے کتنی تکالیف برداشت کیں، اگر کچھ ماہ کوئی پالتو پرندہ یا جانور بھی گھر میں پال لیں تو وہ بھی مرتے دم تک گھر کے مالکان کا احسان مند رہتا ہے، جو گھر کی رکھوالی تو کرتا ہی ہے بلکہ گھر کے تمام افراد اور اس گھر میں زیادہ آنے جانے والوں کو بھی کچھ عرصے میں پہچان کر ان پر نہیں بھونکتا کیونکہ ان افراد کا رشتہ اس کے ساتھ جڑا ہوتا ہے جو اس کو کھانا کھلاتا ہے اور اس نے اس کو پناہ فراہم کی ہوئی ہے۔ لیکن اشرف المخلوقات انسان اپنے والدین کے احسانات اور نوازشات کو کیسے بھول جاتا ہے یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اکثرگھرانے اس آزمائش کا شکار ہیں، جوان بیٹے سکول کالج جا رہے ہیں، یا کوئی چھوٹی موٹی جاب کر رہے ہیں یا پھر آوارہ گردی میں مصروف ہیں وہ دن چڑھے سوئے رہتے ہیں اور راتوں کو انٹرنیٹ پر یا فون کالز پر مصروف رہتے ہیں اور پتا نہیں کون کون سی خرافات میں مبتلا ہو گئے ہیں، والدین ان سے خوف کھاتے ہیں، جب ان کو اس بارے میں سمجھایا جائے تو وہ آگے سے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں نوکری کے لیے کہا جائے تو تنخواہیں کم لگتی ہیں یا جگہ اچھی نہیں لگتی، گھر کے کام کاج کے لیے کہا جائے تو کہتے ہیں تجربہ نہیں ہے یا ہم نے یہ کام کبھی کیا ہی نہیں ہے، دوسروں کی مدد کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کو عذاب سمجھتے ہیں۔ حتٰی کہ یہ بگڑی ہوئی اولاد اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی ہے اور یہ سوچتے ہیں کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ دوسرے لوگوں کو نظر نہیں آ رہا لیکن وہ کیا جانیں کہ یہ صرف اس کی خام خیالی ہے لوگ ان کے والدین کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے ان کا لحاظ کرتے ہیں وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب ہمارے والدین کی آنکھوں سے اوجھل ہے جب کہ وہ والدین جنہوں نے اس کی خاطر زمانے کی گرمی سردی برداشت کی، لوگوں کے طعنے سنے اپنی عزت نفس کو مجروح کیا،اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، ہاتھوں سے نوالے بنا کر کھانا سکھایا، اس کے گندے کپڑے دھوتے رہے، رات کو بستر گیلا کیا تو اس کو خشک جگہ رکھ کر خود رات جاگ کر گزاری، ایک ایک لفظ بولنا سکھایا، سننا سکھایا، لوگوں کے ساتھ بیٹھنا سکھایا، رشتوں کی پہچان بتائی، جانوروں اور انسانوں کے درمیان فرق بتایا، برے لوگوں سے بچایا کیا وہ ایسی اولاد کے کرتوتوں سے واقف نہیں؟ وہ جانتے ہیں، میں نے ایسی بگڑی اولاد کے لیے والدین کو روتے دیکھا ہے میں نے ان بے بس والدین کی ٓہیں سنی ہیں جو عرش کو ہلانے کے لیے کافی ہیں، میں نے ان کی باتیں سنی ہیں کہ وہ اب اپنے جوان بیٹے کو سمجھائیں گے تو وہ انہیں برا بھلا کہے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انہیں گھر سے نکال دے گا یا خود ہی گھر سے نکل جائے گا، وہ اپنا درد دل بھی کسی کو نہیں بتا سکتے کہ بیٹے کی بدنامی ہو گی، وہ اس کے غلط کاموں سے نظریں چرا رہے ہیں کہ ہمارے بیٹے کی عزت نفس پامال نہ ہو جائے اور وہ خود ہی راہ راست پر آ جائے، ایسی نافرمان اولاد والدین کے لیے ایسی آزمائش ہے کہ وہ ہر روز جیتے اور مرتے ہیں لیکن وہ نافرمان نہ ہی والدین کے گزرے احسانات کو یاد رکھ رہا ہے اور نہ ہی ان کے بڑھاپے کا خیال رکھ رہا ہے وہ اللہ کی بے آواز لاٹھی سے بے خبر اپنی مصنوعی دنیا میں گم ہے، عقل اس وقت آتی ہے جب وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور وہ کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے۔ اس لیے والدین سے بھی گزارش ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں، اپنی اولاد کی ناجائز اور بے جا خواہشات کو پورا نہ کریں اور نہ ہی ان کو بے لگام چھوڑیں،بچوں کو اپنی آمدن اور مالی حیثیت کے مطابق گزارہ کرنا سکھائیں تا کہ بچے ایک ایسے لائف سٹائل کے پیچھے نہ بھاگیں جس کو پانا ان کے لیے مشکل ہو جائے اور وہ غلط سوسائٹی اور عادات کا شکار ہو جائیں، جن کے بچے بڑے ہو گئے ہیں ان سے نظریں نہ چرائیں بلکہ ان کو سمجھا کر دیکھیں ممکن ہے وہ سمجھ بھی جائیں۔ نوجوان نسل جو اس تحریر کو پڑھ رہی ہے وہ اپنے پہلے دن سے 15 سال کی عمر تک کے واقعات کو ذہن میں رکھیں سوچیں کہ والدین نے کیسے ان کی پرورش کی ہو گی،اور والدین کے دل کو بار بار مت توڑیں جب یہ سرمایہ ہاتھ سے نکل جائے گا تو پھر ان کی قبر پر رونے اور مگرمچھ کے آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ جو والدین کو زندگی میں خوش نہیں رکھ سکتے اور ان کو مسلسل تکلیف میں مبتلا رکھتے ہیں زندگی ان کو کبھی خوش نہیں رکھے گی اور وہ کبھی سکون محسوس نہیں کر سکیں گے، اس لیے ابھی بھی وقت ہے اور احساس کریں تا کہ ان کی باقی ماندہ زندگی پرسکون گزرے اور آپ کا مستقبل بھی روشن رہے اور آنے والے وقت میں آپ کی اولاد بھی نافرمان اور بگڑی ہوئی نہ ہو۔ |
|