ادب و مزاح

ادب و مزاح
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ادب انسانی احساسات کا وہ خاموش دریچہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے دکھ، سکھ، تجربات اور مشاہدات کو لفظوں کی صورت میں محفوظ کرتا ہے۔ مگر انسان ہمیشہ سنجیدگی کی سخت فصیلوں میں مقید نہیں رہ سکتا۔ زندگی میں جہاں غم اور کرب کا سایہ موجود ہے، وہیں اس کے دامن میں مسکراہٹ، شوخی اور لطافت بھی ہے۔ ادب کا اصل حسن اسی توازن میں پوشیدہ ہے۔ جیسے کوئی باغ صرف رنگین پھولوں سے نہیں بلکہ ان کے درمیان جھومتی ہوئی سحر انگیز ہوا سے بھی حسین بنتا ہے، اسی طرح ادب صرف سنجیدگی کی سخت زبان سے نہیں بلکہ مزاح کی نرم روشنی سے بھی مکمل ہوتا ہے۔ مزاح ادب کی وہ لطافت ہے جو انسان کے غبارِ ذہن کو صاف کرتی ہے، دل کی بند گتھیاں کھولتی ہے اور زندگی کی تلخیوں میں پنہاں مٹھاس کو نمایاں کرتی ہے۔
ادب اور مزاح کا تعلق فطری بھی ہے اور تہذیبی بھی۔ انسان جب سے لکھ رہا ہے، تب سے ہنس بھی رہا ہے۔ لفظوں کی دنیا میں ہنسی کبھی طنز کی صورت میں نمودار ہوتی ہے تو کبھی چلبلی شوخی کے روپ میں۔ مزاح انسان کی فطری ضرورت ہے،ذہنی سکون، سماجی توازن اور نفسیاتی رہائی کے لیے۔ ایک قاری کی تھکی ہوئی روح کو جو تازگی مزاح سے ملتی ہے، وہ شاید کسی اور صنف سے ممکن نہیں۔ مزاح انسان کو اپنے المیوں سے کچھ دیر کے لیے آزاد کرتا ہے، لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ یہ آزادی بے معنویت نہیں لاتی، بلکہ اس کے پردے میں فکر بھی چھپی ہوتی ہے۔
اردو ادب میں مزاح صرف ہنسانے کے لیے نہیں لکھا گیا، بلکہ سمجھانے کے لیے بھی۔ مزاح دراصل ایک ایسا آئینہ ہے جس میں انسان اپنی غلطیوں کو دیکھ کر خفیف سا مسکرا لیتا ہے، اپنا محاسبہ بھی کر لیتا ہے اور برا بھی نہیں مانتا۔ یہی مزاح کی قوت ہے,جس سے بڑے سے بڑا سچ بھی نرم شربت کی صورت میں قاری تک پہنچ جاتا ہے۔
اردو کے ابتدائی دور میں مزاح کی صورت زیادہ تر لطائف، چٹکلوں اور روزمرہ کی شوخی تک محدود تھی۔ مگر جیسے جیسے ادب نے اپنی سماجی ذمہ داریوں کو پہچانا، ویسے ویسے مزاح نے بھی فکری گہرائی اختیار کی۔ کلاسیکی شعرا کے ہاں زبان و بیان کی شوخی، طنزیہ تراکیب، معاشرتی رویّوں کی کھچائی، اور انسانی کمزوریوں پر لطیف تنقید نے ایک نئی بنیاد رکھی۔
اس ارتقا کے بعد وہ دور آتا ہے جہاں مزاح صرف تفریح نہیں رہتا بلکہ ایک ادبی اسلوب بن جاتا ہے۔ یہاں اکبر الہ آبادی کا نام سب سے نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے انگریزی تہذیب، جدیدیت کی اندھی تقلید اور معاشرتی دکھاوے پر جو نشتر چلایا، وہ مزاح کی تاریخ کا سنگِ میل ہے۔ ان کے اشعار میں ہنسی بھی ہے، طنز کی تیزی بھی، اور تہذیبی بیداری بھی۔ انہوں نے قاری کو مسکرا کر سوچنے پر مجبور کیا۔ ان کے بعد طنز اور مزاح محض لطیفے نہیں بلکہ فکری بیانیہ بن گیا۔
پطرس بخاری نے اردو مزاح میں ایک نیا رنگ بھرا۔ ان کا مزاح یورپی تہذیب کے مشاہدات، شہری زندگی کی بے ترتیبیوں، علمی دنیا کی لطافتوں اور انسانی سادگیوں سے بنا ہوا تھا۔ ان کی تحریریں پڑھنے والا قہقہہ بھی لگاتا ہے اور اپنے ماحول کی حقیقت کو نئے زاویے سے بھی دیکھتا ہے۔ پطرس نے ثابت کیا کہ مزاح سنجیدہ عقل رکھنے والوں کا فن ہے۔ ان کے کالم، مضامین اور افسانے آج بھی جدید قاری کو مسکراتے اور سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اسی زمانے میں شوکت تھانوی نے روزمرہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو اس انداز میں پیش کیا کہ وہ قاری کے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ ان کا مزاح دلکش بھی تھا اور کھرا بھی،نہ اس میں پھکڑ پن تھا، نہ بے ادبی، بلکہ صاف، سیدھا، سادہ پاکستانی مزاج۔ ان کی تحریروں میں معاشرتی اور اخلاقی پہلو بھی واضح تھے، جو مزاح کے ذریعے سلیقہ اور شعور پیدا کرتے تھے۔
ابنِ انشا کا مزاح ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔ ان کے یہاں شوخی بھی ہے، رومان بھی، سفرناموں کی چلبلا دھوپ بھی اور زندگی کی ٹھہری ہوئی شاعری بھی۔ انشا کا مزاح کسی گلی کے موڑ پر بیٹھے ہوئے دو دوستوں کی سرگوشیوں جیسا ہے،قریب، دل نشین اور بے ساختہ۔ ان کے سفرنامے، خطوط اور مضامین ایک منفرد طنز و مزاح کی روشنی میں معاشرتی اور ثقافتی حقائق کو سامنے لاتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی اردو کے جدید مزاح نگاروں میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ان کے کالم، مضامین اور افسانے سنجیدگی اور شوخی کا حسین امتزاج ہیں۔ یوسفی کا مزاح محض قہقہے پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ فکری نکتہ بھی پیش کرتا ہے۔ ان کے مضامین میں زبان کی چاشنی، بیان کی روانی اور طنز کی باریکی ایسے جادو پیدا کرتی ہے جو قاری کو نہ صرف مسکراہٹ بخشتا ہے بلکہ معاشرتی اور انسانی رویوں پر غور و فکر پر بھی آمادہ کرتا ہے۔ ان کے کچھ مشہور کالم اور مضامین آج بھی اردو مزاح نگاری کے معیار کی حیثیت رکھتے ہیں اور نئے مزاح نگار ان سے متاثر ہو کر اپنے قلم کی تربیت کرتے ہیں۔
مسعود مفتی، عطا الحق قاسمی، انور مقصود اور ڈاکٹر وحید الرحمن نے اردو میں ادبی مزاح کو نئے افق تک پہنچایا۔ ان کی تحریروں میں طنز و مزاح کے ساتھ معاشرتی، سیاسی اور فکری پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ مزاح قاری کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے شعور کو بیدار بھی کرتا ہے۔ ان کے افکار اور مضامین اردو کے جدید ادبی منظرنامے میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
2000ء کے بعد سے 2025ء تک بھی اردو مزاح نگاری اپنی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ نئے مزاح نگار، چاہے وہ بلاگنگ، آن لائن کالمنگ یا اخبارات میں لکھ رہے ہوں، وہ مزاح کو نہ صرف تفریح کا ذریعہ بلکہ فکر و شعور کا آلہ بھی بناتے ہیں۔ ان کے مضامین میں نوجوان ذہنیت، عالمی رجحانات اور معاشرتی رویوں کی عکاسی ہوتی ہے، جو اردو مزاح کی ترقی اور ترویج کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اردو مزاح نگاروں کی اس پوری روایت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مزاح کو سطحی پن سے دور رکھا، اسے اخلاقیات اور سماجی تنقید کے ساتھ جوڑے رکھا، اور اسے وہ مقام دیا جو کسی زندہ ادب کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مزاح سنجیدگی کا دشمن نہیں بلکہ اس کا ساتھی ہے۔ یہ ادب کو سختی، تلخی، اور بوجھل پن سے بچاتا ہے۔ یہ زندگی کے کانٹوں میں پھولوں کی پنکھڑیوں کی طرح نرم راستے پیدا کرتا ہے۔
مزاح اور ادب کا تعلق صرف ہنسی کا نہیں، بلکہ ایک گہرے فکری رشتے کا ہے۔ ادب انسان کی آنکھ کھولتا ہے اور مزاح اس میں مسکراہٹ بھرتا ہے۔ ادب انسانی سماج کی تصویر بناتا ہے اور مزاح اسے رنگ دیتا ہے۔ اردو مزاح نگاروں کی طویل شراکت نے اس تعلق کو مضبوط بھی کیا اور خوبصورت بھی۔ ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں، کیونکہ وہ انسان کے دل، دماغ اور مزاج—ان تینوں سے یکساں بات کرتی ہیں۔ ان کی تحریریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی تلخیوں میں بھی ہنسی، شوخی اور مزاح کی روشنی ہمیشہ موجود رہتی ہے، اور یہی اردو ادب کی کامیابی کی ایک نشانی ہے۔ 
Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 26 Articles with 8063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.