خصوصی بچوں کی عام اسکولوں میں تعلیم

خصوصی بچوں کی عام اسکولوں میں تعلیم
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین میں حالیہ برسوں کے دوران شمولیتی تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں میں نمایاں تیزی آئی ہے، جس کا مقصد خصوصی ضروریات کے حامل بچوں کو مرکزی تعلیمی دھارے کا حصہ بنانا ہے۔ اس سلسلے میں صوبہ شان دونگ کا لِنئی شہر ایک قابلِ ذکر مثال بن کر سامنے آیا ہے جہاں مختلف تعلیمی اداروں نے اپنی سطح پر ایسے خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مربوط اقدامات شروع کیے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ستمبر 2025 تک لِنئی کے 502 کنڈرگارٹنز نے شمولیتی تعلیم کے اصول کو اپنایا اور مجموعی طور پر 1,155 ایسے بچوں کو داخلہ دیا جنہیں خصوصی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف حکومتی پالیسیوں کے عملی نفاذ کا مظہر ہے بلکہ یہ اس بڑھتی ہوئی سماجی آگاہی کو بھی ظاہر کرتی ہے جس کے مطابق تعلیم کو ہر بچے کا بنیادی حق سمجھا جا رہا ہے۔

لِنئی کے مختلف اضلاع میں جاری شمولیتی تعلیم کے اس ماڈل نے کئی خاندانوں کے لیے امید کی نئی راہیں بھی کھولی ہیں۔ ان بچوں کے والدین کے مطابق، وہ برسوں سے اس انتظار میں تھے کہ ان کے بچے گھر کے قریب ایسے اسکولوں میں داخلہ پا سکیں جہاں نہ صرف معیاری تعلیم میسر ہو بلکہ ان کی خصوصی ضروریات کا بھی خیال رکھا جا سکے۔ اس پروگرام نے متعدد بچوں کے تعلیمی امکانات وسیع کیے ہیں۔

تعلیمی ماہرین کے مطابق، شمولیتی تعلیم کے اس تصور کو ابتدائی سطح سے آگے، پرائمری اور ثانوی سطح تک وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ لِنئی اکیڈمی آف ایجوکیشنل سائنسز کے مطابق مئی میں مختلف سرکاری محکموں، بشمول شہری امور کے بیورو، معذور افراد کی فیڈریشن اور صحت کمیشن کے نمائندوں کو ان کنڈرگارٹنز کے دورے کرائے گئے تاکہ وہ شمولیت پر مبنی اس تعلیمی ماڈل کا قریب سے جائزہ لے سکیں۔ مقصد یہ تھا کہ اس تجربے کو نہ صرف ابتدائی تعلیم بلکہ دیگر تعلیمی درجات تک بھی منتقل کیا جا سکے۔ ان کے مطابق کسی بھی معاشرے میں پائیدار شمولیتی نظام کی تشکیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام ادارے اور سماجی طبقات بچے کی مکمل نشوونما کے لیے اجتماعی کردار ادا نہ کریں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کے لیے دیرپا منصوبہ بندی ضروری ہے، کیونکہ ان کی تعلیم اور سماجی انضمام کا عمل طویل المدت ہوتا ہے۔ اسی تعاون کی بنیاد پر توقع کی جاتی ہے کہ یہ بچے نہ صرف ابتدائی تعلیم میں مستقل معاونت حاصل کریں گے بلکہ بڑے ہو کر بھی معاشرے کے فعال رکن بن سکیں گے۔ اس ماڈل کی کامیابی اسی وقت ممکن ہو گی جب سماجی قبولیت، ادارہ جاتی تعاون اور پالیسی سطح پر تسلسل برقرار رہے۔

چینی ماہرین تعلیم کے مطابق، اس وقت تک تعلیم کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا جب تک خصوصی بچوں کو "علیحدہ" اداروں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ انہیں عمومی تعلیمی ماحول میں وہی مواقع فراہم کیے جائیں جو دوسرے بچوں کو میسر ہیں۔وہ اس اُمید کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب "اسپیشل ایجوکیشن" کے عنوان سے مخصوص ادارے باقی نہیں رہیں گے، اور یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ حقیقی معنوں میں انضمامی تعلیم کی منزل حاصل کر لی گئی ہے۔

چینی حکام کے مطابق، شمولیتی تعلیم کے اس منصوبے میں کامیابی کا بڑا انحصار اس بات پر ہے کہ بچے کو صرف تعلیمی نصاب تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کے سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں کو بھی مساوی اہمیت دی جائے۔ اس ضمن میں اساتذہ کی تربیت، کلاس روم کے ماحول کی بہتری، معاون تدریسی مواد کی فراہمی اور والدین کی آگاہی سب ہی اہم عوامل تصور کیے جاتے ہیں۔ کئی کنڈرگارٹنز نے اس مقصد کے لیے خصوصی تربیتی ورکشاپس کا اہتمام بھی کیا ہے، جن میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ بچے کے لیے گھر اور اسکول کا ماحول ہم آہنگ رہے۔

چین میں شمولیتی تعلیم کا یہ بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف تعلیمی شعبے میں اصلاحات کا آئینہ دار ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر رائج اس تصور کے مطابق بھی ہے جس کے تحت ہر بچے کو اس کی ذہنی، جسمانی یا سماجی کیفیت سے قطع نظر یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پالیسی ماہرین کے مطابق، لِنئی جیسے شہروں میں اس ماڈل کی کامیابی آئندہ برسوں میں ملک کے دیگر حصوں کے لیے بھی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا تو توقع ہے کہ خصوصی ضروریات کے حامل ہزاروں بچے نہ صرف معیاری تعلیم سے مستفید ہوں گے بلکہ بلند تر سماجی اعتماد کے ساتھ مستقبل کی ذمہ داریاں بھی نبھا سکیں گے۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1726 Articles with 989093 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More