کراچی میں ننھا ابراہیم گٹر میں کیسے گرا، دلخراش واقعہ جو انتظامی غفلت کی عکاسی کرتا ہے

دانش رحمان
تاریخ اشاعت 5 دسمبر 2025
کراچی شہر جو پاکستان کا معاشی مرکز ہے وہاں بنیادی سہولیات کی کمی ایک مستقل مسئلہ بنا ہوا ہے اور حالیہ دنوں میں گلشن اقبال کے علاقے میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ اس کی زندہ مثال ہے جہاں تین سالہ معصوم بچہ ابراہیم ایک کھلے مین ہول میں گر کر جاں بحق ہو گیا۔ یہ حادثہ نومبر کے آخری دنوں میں نیپا چورنگی کے قریب پیش آیا جب ابراہیم اپنے والدین کے ساتھ ایک نجی ڈپارٹمنٹل اسٹور میں شاپنگ کے لیے آیا تھا اور رات گیارہ بجے کے قریب باہر نکلتے ہوئے والد کے پیچھے بھاگا تو اچانک کھلے گٹر میں گر گیا جس کی وجہ سے پورا خاندان غم کے سمندر میں ڈوب گیا اور شہر بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نے سب کو ہلا کر رکھ دیا جہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ مین ہول کے ارد گرد کوئی حفاظتی نشاندہی یا رکاوٹ موجود نہیں تھی اور بچہ محض چند قدموں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جو انتظامیہ کی غفلت اور شہری بنیادی ڈھانچے کی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔
واقعہ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ ابراہیم والدہ کے ہاتھ سے نکل کر والد کی طرف بھاگا تو اسٹور سے منسلک پارکنگ ایریا میں کھلا مین ہول اسے نگل گیا جہاں ڈھکن کی جگہ محض عارضی تار یا کچھ اور رکھا گیا تھا جو بچے کا وزن برداشت نہ کر سکا۔ بچے کے دادا نے میڈیا کو بتایا کہ یہ ان کی اکلوتی اولاد تھی اور خاندان پرائیوٹ ملازم ہے جس کی تکلیف کا تصور بھی ناقابل برداشت ہے جبکہ والدہ رو رو کر ہلکان ہوئی اور اللہ کے واسطے میرے بچے کو بچاؤ کی دہائی دی۔ اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122 کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں مگر سیوریج لائن کی تنگ ہونے کی وجہ سے کرین کا انتظار کرنا پڑا اور زیر آب ڈائیونگ آلات کی عدم دستیابی نے آپریشن کو دو گھنٹے روک دیا جس سے تلاش مزید مشکل ہو گئی۔ اہل خانہ اور اہل محلہ نے اپنی مدد آپ کے تحت مشینری کا بندوبست کیا اور پوری رات تلاش جاری رکھی مگر صبح ہونے تک بچہ نہیں ملا جو شہریوں کی بے چینی کو مزید بڑھا دیا۔

تلاش کا سلسلہ اگلے دن بھی جاری رہا اور بالآخر پندرہ گھنٹے بعد نصف کلومیٹر دور نالے میں بچے کی لاش برآمد ہوئی جہاں ایک کچرا چننے والے نے اسے دیکھا اور اطلاع دی جس سے خاندان کا غم مزید گہرا ہو گیا۔ واقعے کے فوراً بعد شہریوں نے شدید احتجاج کیا اور نیپا چورنگی پر ٹائر جلائے سڑک بلاک کر دی جس سے جامعہ کراچی اور حسن اسکوائر جانے والے راستے بند ہو گئے اور ایک میڈیا وین پر بھی پتھراؤ ہوا جو عوامی غم و غصے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ اداکار یاسر حسین سمیت شوبز اور سوشل میڈیا شخصیات نے بھی اس پر شدید ردعمل دیا اور حکومت پر تنقید کی کہ ڈھکن گٹر پر نہیں بلکہ کرپشن پر لگانا ہوگا جو شہر کی بنیادی مسائل کی جڑ ہے۔ یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ کراچی میں کھلے مین ہولز اور ناقص نکاسی آب کا نظام ایک مستقل خطرہ بنا ہوا ہے جہاں گزشتہ ماہ سرجانی ٹاؤن میں بھی ایک تین سالہ بچہ اسی طرح جاں بحق ہوا تھا۔
تحقیقات میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے رپورٹ جاری کی جس کے مطابق بی آر ٹی کی کھدائی اور نجی اسٹور کی انتظامیہ کی غفلت مشترکہ وجہ ہے جہاں نالے کا نظام شدید نقصان کا شکار ہوا اور عارضی کورز لگانے کی کوشش ناکام رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ افسران کی نگرانی میں تمام کھدائی والے حصے بھر دیے گئے مگر واقعہ کی جڑ تعمیراتی کاموں کی لاپرواہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنر گلشن اقبال سمیت متعدد افسران کو معطل کر دیا گیا جن میں بلدیہ عظمیٰ کے سینئر ڈائریکٹر ٹاؤن میونسپل کارپوریشن کے اسسٹنٹ انجینئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایگزیکٹو انجینئر اور دیگر شامل ہیں جو احتساب کی ابتدائی کوشش ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں ہزاروں کھلے مین ہولز موجود ہیں اور فوری مرمت اور حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ایسے مزید سانحات روکے جا سکیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ابراہیم کا یہ دلخراش واقعہ کراچی کی انتظامی ناکامیوں کی تلخ یاددہانی ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ بنیادی سہولیات کو ترجیح دیں اور غفلت کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوشش کریں۔ آپ کو اس واقعے پر کیا خیال ہے اور شہر میں حفاظتی اقدامات کے لیے کیا تجاویز ہیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔
 
Danish Rehman
About the Author: Danish Rehman Read More Articles by Danish Rehman: 126 Articles with 52104 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.