گلوبل دنیا کا ادبی انعکاس

گلوبل دنیا کا ادبی انعکاس
--------------------------------------------
عالمگیریت نے انسانی معاشروں کی فکری اور تہذیبی ساخت کو جس طرح بدل کر رکھ دیا ہے، اس کے اثرات زندگی کے کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہے۔ ٹیکنالوجی، میڈیا، صارفیت، سائنس اور ابلاغی ذرائع کے ساتھ ساتھ ادب بھی اس کی گرفت میں آیا، اور یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں بھی نئی تھیوریوں، مباحث اور فکری زاویوں کی آمد تیز تر ہوئی۔ گلوبلائزیشن کے زیر اثر دنیا بھر میں رائج ادبی تحریکات اور نظریات نے سرحدوں کی قید توڑ کر اردو کے فکری منظرنامے کو نئی سمتیں دیں۔ اب نہ نظریات کسی خاص قوم کے پابند رہے اور نہ ادبی تجربات کسی مخصوص زبان یا تہذیب کی ملکیت۔ فکری سطح پر یہ وہ دور ہے جس میں ہر چیز عالمی تناظر میں پرکھی جانے لگی ہے اور ادب بھی اسی عالمی ربط و اشتراک کا حصہ بنتا چلا گیا ہے۔
پاکستانی جامعات میں اعلیٰ سطح کی تحقیق و تدریس میں گلوبلائزیشن اور اس کے اثرات کو بطور نصاب شامل کیا جانا اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مراحل پر اردو ادب کو عالمی فکری پس منظر میں پڑھایا جانے لگا ہے۔ اس سے اردو میں نہ صرف نئے نظریاتی مباحث کا اضافہ ہوا بلکہ تحقیق کے زاویے بھی بدل گئے۔ اگر اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عالمی اثرات کا سلسلہ نوآبادیاتی دور میں ہی شروع ہو گیا تھا، جب سرسید تحریک کے ذریعے مغربی علوم و نظریات یہاں منتقل ہونے لگے تھے۔ سرسید نے قوم کی ترقی کے لیے جدید تعلیم اور مغربی طرزِ فکر کو ضروری سمجھا، اور یہی رجحان ان کے بعد آنے والے ادیبوں حالی، شبلی، آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ ان لکھنے والوں نے حقیقت نگاری، معاشرتی اصلاح اور علمی بیداری کو اپنا محور بنایا، جو عالمی سطح پر ابھرنے والی تحریکوں سے ہم آہنگ تھا۔
اس دوران انگریزی استعمار کی پالیسیوں نے ادب، تعلیم اور تنقید کے ڈھانچے کو بھی متاثر کیا۔ نصاب بدل گیا، اقدار تبدیل ہوئیں اور ادبی جمالیات میں نئی جہتیں شامل ہوئیں۔ حالی نے مقدمہ شعروشاعری لکھ کر اردو تنقید کو نئی فکری سمت دی، جس میں ورڈزورتھ اور ملٹن کے اثرات واضح تھے۔ دوسری طرف محمد حسین آزاد نے بھی مغربی تنقیدی تصورات سے فائدہ اٹھانے کی بات کی، اور انجمنِ پنجاب کے تحت اردو نظم میں جو تجربات ہوئے وہ بھی عالمی شعری روایت سے جڑے ہوئے تھے۔ یہی وہ دور تھا جس میں آزاد نظم، نظمِ معریٰ، نثری نظم، غیرمردف غزل، سانیٹ، ہائیکو اور رپورتاژ جیسے اسالیب اردو میں داخل ہوئے، جو گلوبل ادبی لہر کے بغیر ممکن نہ تھے۔
اردو ادب میں رومانویت، جمالیات، اظہاریت، نفسیاتی اور مارکسی مباحث کی آمد بھی عالمی تحریکوں کے زیر اثر ہوئی۔ کانٹ، کروچے، بام گارٹن، اور دیگر مغربی مفکرین نے جمالیات کو جس طور بیان کیا، اس کے اثرات اردو کے نظری مباحث میں دکھائی دینے لگے۔ محمد علی صدیقی نے اظہاریت اور جمالیات کو اردو میں متعارف کرایا، جس سے ادبی تنقید میں ایک نیا جہان آباد ہوا۔ اسی طرح مارکسی فکر، عمرانی شعور، نسائی مباحث، علامتی اظہار اور رمزیت جیسے رجحانات بھی عالمگیریت کی بدولت مقبول ہوئے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر نصف تک فرانس کی حقیقت نگاری، فطرت نگاری اور ریئلزم نے اردو افسانے اور ناول کو گہرا اثر دیا۔ فکر اقبال نے بھی اپنے فکری سفر میں حقیقت نگاری کو زندگی کے مسائل اور انسانی تجربے کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ پریم چند اور عزیز احمد کے ناولوں میں جو معاشرتی حقیقت پسندی ملتی ہے، وہ اسی عالمی تحریک سے وابستہ ہے۔ بعد ازاں دادا ازم اور سریلزم کی تحریکیں بھی اردو ادب میں داخل ہوئیں۔ آندرے بریتاں نے جس تخلیقی آزادی کا تصور پیش کیا، اس نے شاعری کو روایتی بندشوں سے نکالا اور علامتی دنیا کے راستے ہموار کیے۔ فرائیڈ کی تحلیل نفسی اور ایذرا پاؤنڈ کی امیجزم نے جس ذہنی دنیا کو جنم دیا، اس کا عکس اردو شاعری اور کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔
1939ء میں حلقۂ اربابِ ذوق کی تشکیل نے جدید اردو ادب کو ایک نیا رخ دیا۔ میراجی نے تراجم کے ذریعے عالمی ادب کو اردو میں منتقل کیا اور اپنے اسلوب میں علامت، تلمیح اور اساطیری حوالوں کو نئے معنوی دائرے دیے۔ بودلیئر، رمبو، ملارمے اور ایڈگر ایلن پو جیسے شعرا کی علامت نگاری نے اردو میں بھی ایک نئی فضا پیدا کی۔ انتظار حسین نے علامتی افسانے کو مقامی تہذیب اور تاریخ سے جوڑ کر اسے ایک بالکل نیا رنگ دیا۔ یہی وہ دور تھا جس میں وجودیت، کیئر کیگارڈ، ہائیڈیگر اور سارتر کے فلسفے بھی اردو ادبی مباحث میں شامل ہوئے، اور انسان کے وجود، آزادی، بقا اور بے معنویت جیسے موضوعات زیادہ شدت سے نمایاں ہونے لگے۔
دنیا میں اٹھنے والی ادبی تحریکوں کے براہ راست اثرات نے اردو ادب میں جدیدیت کی بنیاد رکھی۔ جدیدیت نے متن کی باطنی ساخت، شہری تجربے، انفرادی کیفیت اور سماجی تنہائی جیسے موضوعات کو اہمیت دی۔ 1960ء کے بعد لسانیات، ساختیات، پس ساختیات، رد تشکیل، نئی تاریخیت، بین المتونیت اور تانیثیت جیسے نظریات اردو تنقید میں بڑے پیمانے پر زیر بحث آنے لگے۔ پاکستانی رسائل و جرائد میں ان مباحث نے کئی دہائیوں تک فکری ماحول کو متاثر کیے رکھا۔ زبان، معنی، قاری، متن اور ثقافت کی تفہیم میں یہ نظریات مرکزی حیثیت اختیار کر گئے۔
عالمگیریت نے مثبت طور پر ادب کو وسیع تناظر دیا۔ سوشل میڈیا، آن لائن لائبریریوں، ڈیجیٹل کتب اور عالمی معلومات تک آسان رسائی نے تحقیق کے نئے راستے کھولے۔ نایاب کتب اب دنیا بھر کے قارئین تک چند لمحوں میں پہنچنے لگیں۔ ادیب اور قاری دونوں عالمی سطح پر ہونے والے واقعات اور ادبی سرگرمیوں سے براہ راست جڑ گئے۔ علاقائی حدود کے ٹوٹنے سے ادب کا دائرہ کار بڑھا اور تخلیق کی جہات میں وسعت پیدا ہوئی۔
لیکن اس کے ساتھ عالمگیریت کے منفی پہلو بھی نمایاں ہیں۔ مقامی صنعت، دستکاریاں، روایتی کھانے، اقدار اور طرزِ زندگی شدید دباؤ کا شکار ہوئے۔ طاقتور ممالک نے معاشی اور تہذیبی غلبے کو بڑھایا، جس کا اثر کمزور معاشروں پر ناقابل تلافی رہا۔ 9/11 کے بعد کی عالمی سیاست، دہشت گردی، جنگوں اور عدم تحفظ کی فضا نے ادب میں بے یقینی، خوف اور وجودی بحران کے موضوعات کو عام کر دیا۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے ترقی کی ظاہری چکاچوند کے پیچھے چھوٹے تاجروں، صنعت کاروں اور محنت کش طبقے کو نقصان پہنچایا۔
ادب جو پہلے مقامی مسائل اور معاشرتی تجربات کا آئینہ دار تھا، اب عالمی واقعات، ثقافتی بین الاقوامیت اور انسانیت کے مشترکہ مسائل کا اظہار بن چکا ہے۔ ادیب کے لیے دنیا سکڑ کر ایک ایسا سماج بن گئی ہے جس میں کہیں ہونے والا واقعہ لمحوں میں دوسری جگہ کے ذہن اور قلم پر اثر ڈال دیتا ہے۔ یہی عالمگیریت ہے جس نے ادب کو مقامیت کی قید سے نکال کر عالمی سطح پر لا کھڑا کیا ہے لیکن اس سفر میں شناخت، روایت اور تہذیبی جڑوں کے تحفظ کا چیلنج بھی مضبوط ہو گیا ہے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ عالمگیریت نہ مکمل مثبت ہے نہ مکمل منفی۔ یہ ایک ایسا تہذیبی و فکری دھارا ہے جس نے اردو زبان و ادب کو نئے امکانات بھی دیے اور کئی سوالات بھی پیدا کیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عالمی بہاؤ میں اردو زبان و ادب اپنی انفرادیت اور تہذیبی پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے وہ عناصر اپنائے جو ترقی، تحقیق، تنقید اور فکری وسعت کے لیے معاون ثابت ہوں۔ یہی توازن مستقبل میں اردو کی ادبی روایت کو استحکام بھی دے گا اور اسے عالمی سطح پر ایک معتبر مقام بھی عطا کرے گا۔ 
Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 29 Articles with 8885 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.