نئے مالی سال کے پہلے چھ ماہ: صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ، کاغذی سرگرمیاں اور زمینی حقیقت

سال 2025–26 کے ابتدائی چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ یہ وہ وقفہ ہوتا ہے جس میں ادارے اپنی سمت واضح کرتے ہیں، ترجیحات طے ہوتی ہیں اور زمینی سطح پر نتائج نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر اگر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی کارکردگی کو انہی چھ ماہ میں پرکھا جائے تو سوالات جوابوں سے کہیں زیادہ ہیں۔سب سے بنیادی سوال یہی ہے کہ ان چھ ماہ میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے عملی طور پر کیا کیا؟ یہ سوال کسی باہر والے کو نہیں بلکہ خود اس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افسران اور اس سے منسلک اداروں کو خود سے پوچھنا چاہیے۔ نیا سال 2026 چند دنوں کی بات ہے، مگر ان چھ ماہ میں کھیلوں کی بہتری کے بجائے کن کے اثاثے بڑھے، یہ ایک الگ مگر اہم بحث ہے۔

صوبے کے تقریباً پینتیس اضلاع میں صورتحال ایک جیسی نہیں بلکہ ہر ضلع کی اپنی کہانی ہے، اور زیادہ تر کہانیاں افسوسناک ہیں۔ کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس تو موجود ہے مگر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر نہیں۔ یہ کوئی معمولی انتظامی خلا نہیں بلکہ براہ راست نوجوانوں کے مستقبل سے جڑا سوال ہے۔ وہاں کے کھلاڑی، منتخب نمائندے یعنی ایم این ایز اور ایم پی ایز، سب کو یہ پوچھنا چاہیے کہ ان کے ضلع میں نوجوانوں کے لیے عملی طور پر کون سی کھیلوں کی سہولت موجود ہے۔

پھر یہی نظام شکوہ کرتا ہے کہ نوجوان منفی سرگرمیوں کی طرف جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کھیلوں کا بنیادی ڈھانچہ ہی غائب ہو، ذمہ دار افسر موجود نہ ہو، تو نوجوان کہاں جائیں؟کاغذی کارروائیوں کی دنیا بالکل الگ ہے۔ ضم اضلاع میں قبائلی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کاغذات میں جتنے اسپورٹس کلب بنائے گئے ہیں، اتنے تو پشاور، ایبٹ آباد، مردان اور چارسدہ جیسے بڑے اور فعال شہروں میں بھی نہیں۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان کلبوں کا وجود صرف فائلوں تک محدود ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان ڈسٹرکٹ آفسز میں عملہ پورا موجود ہے، تنخواہیں باقاعدگی سے لی جا رہی ہیں، مگر سربراہ یعنی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر تعینات نہیں۔

دوسری طرف ڈائریکٹریٹ کے اندر کچھ کھیلوں کے افسران ایسے بااثر ہیں کہ ان کے تبادلے پشاور اور چارسدہ کے درمیان ہی گھومتے رہتے ہیں۔ کبھی کاغذات میں بھائیوں کو ڈیلی ویجز پر بھرتی کروایا جاتا ہے، کبھی بچوں کے نام شامل ہو جاتے ہیں۔ بیوروکریسی کی اپنی طاقت ہے، وزرائ اکثر بے بس دکھائی دیتے ہیں، اور نئے آنے والوں کو نظام کے پیچ و خم میں الجھا دیا جاتا ہے۔

زیادہ تر اضلاع میں کھیلوں کے فنڈز تو نکل رہے ہیں، مگر کھیلوں کی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں۔ یہ ایک سنجیدہ تضاد ہے۔ کھیلوں کی پالیسی 2018 کے تحت نئے اور نوجوان کھلاڑیوں کو سامنے لانا اور انہیں سہولیات فراہم کرنا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ذمہ داری کہاں تک پوری کی جا رہی ہے؟

ہنگو سے ایک مقامی کھلاڑی کی بھیجی گئی ویڈیو اس نظام پر ایک کھلا سوالیہ نشان ہے۔ وہ سادہ سا سوال پوچھتا ہے کہ اس کے علاقے کا ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کون ہے۔ اگر ایک کھلاڑی کو ہی یہ معلوم نہیں تو عام شہریوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ یہی صورتحال ٹانک کی ہے، یہی حال جنوبی اضلاع کا ہے۔ ملاکنڈ اور لوئر دیر میں کھیلوں کی سرگرمیاں عملی طور پر نہ ہونے کے برابر ہیں، البتہ کاغذات میں سب کچھ چل رہا ہے۔

ایک سال قبل رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت درخواست دی گئی، مگر پبلک انفارمیشن آفیسر کے پاس جواب موجود نہیں۔ شاید اس لیے کہ جواب میں یہ بھی بتانا پڑتا کہ دس کمپیوٹر کہاں گئے، کیونکہ کمپیوٹر لانے والے بھی اپنے ہی تھے۔ شفافیت یہاں ایک ناپسندیدہ لفظ بن چکی ہے۔

صوابی میں ہاکی کے ذریعے انسانی سمگلنگ کا بڑا نیٹ ورک اسی پلیٹ فارم کے ذریعے سامنے آیا۔ کھیلوں کی آڑ میں بیس سے پچیس لاکھ روپے لے کر لوگوں کو پہلے روس اور پھر جرمنی لے جایا جاتا رہا۔ یہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ 2025 کی حقیقت ہے۔ لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد اس میں شامل تھے، جنہوں نے کاروبار بند ہونے پر گالیاں بھی دیں، مگر حقیقت اپنی جگہ موجود ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس پورے معاملے پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے کوئی مو¿ثر کارروائی سامنے نہیں آئی۔

اسی سال صوابی میں ہاکی ٹرف لگایا گیا، مگر جب یہ بچھایا گیا تو اس وقت بھی حالت خراب تھی اور آج مزید بگڑ چکی ہے۔ نشاندہی ہوئی، تصاویر موجود ہیں، مگر لگتا ہے کہ یہاں آنکھوں پر پٹیاں، کانوں میں روئی اور زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں۔اگر صرف گذشتہ چھ ماہ کے اخراجات کی تفصیل سامنے آ جائے تو بہت کچھ واضح ہو سکتا ہے۔ کھیلوں کے فروغ پر کتنی رقم لگی، اور کتنی ٹی اے ڈی اے، دوروں، تعمیرات اور میلوں کے نام پر نکالی گئی۔ موجودہ صورتحال میں ذاتی جیبیں تو بھر رہی ہیں، مگر کھیل خالی ہاتھ ہیں۔

نیشنل گیمز میں جو تھوڑی بہت کارکردگی سامنے آئی، وہ کسی نظام کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کھلاڑیوں کی ذاتی محنت کا نتیجہ ہے، جنہیں حالات کے باوجود کھیلنے کا جنون ہے۔ اگر یہی حال رہا تو یہ جنون بھی زیادہ دیر تک نظام کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔یہ وقت خود احتسابی کا ہے۔ سوال صرف اٹھانے کا نہیں بلکہ جواب دینے کا ہے، ورنہ ہر نیا سال پچھلے سال کی طرح صرف فائلوں میں گزر جائے گا، میدان خالی ہی رہیں گے۔

#Kikxnow
#SportsGovernance
#KP_Sports
#Accountability
#YouthAndSports
#SportsCorruption
#RightToInformation
#GrassrootsSports

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 900 Articles with 718117 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More