پاکستان میں ذہنی دباؤ اور معاشرتی اثرات

پاکستان ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، انسانی صلاحیتیں وافر ہیں، اور ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف لوگوں پر تناؤ اور ذہنی دباؤ کی سطح بہت زیادہ ہے—جو عام شہریوں سے لے کر دفاتر، ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور سرکاری عہدوں پر موجود پیشہ ور افراد تک سب کو متاثرکر رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کمزور حکمرانی، اور بڑھتے ہوئے سماجی دباؤ لوگوں کو مسلسل مشکلات اور محدود مواقع کا احساس دلاتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ذہنی صحت
اور دباؤ جیسے مسائل پر سنجیدگی سے بات کی جائے، کیونکہ یہ پاکستان کی زندہ دل معاشرت کو کمزور کر رہے ہیں۔

پاکستان میں بہت سے لوگ ذہنی دباؤ اور ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں، لیکن مدد حاصل نہیں کرتے۔ 2025 کے ایک سروے، گیلپ پاکستان کی ملکار رپورٹ کے مطابق، ذہنی صحت کے مسائل رکھنے والے تقریباً 90٪ افراد کو مناسب مدد نہیں ملتی، اور پچھلے چھ ماہ میں صرف 3٪ نے کسی پیشہ ور سے رابطہ کیا ہے۔ بدنامی، آگاہی کی کمی اور خدمات کی محدود دستیابی کی وجہ سے مدد لینا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ذہنی دباؤ اور ذہنی صحت جیسے اہم مسائل کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ہر طبقے کو متاثر کر رہے ہیں—طلبہ سے لے کر مزدوروں تک اور دیہی خواتین سے لے کر شہری آبادی تک۔

معاشرے میں تناؤ پیدا کرنے والے کئی عوامل موجود ہیں۔ آئیے پاکستان میں تناؤ کے چند اہم محرکات پر نظر ڈالتے ہیں:

ے روزگاری اور معیشت: مجموعی بے روزگاری کی شرح تقریبا 7.1٪ ہے، جبکہ نوجوانوں (عمر 15-24) میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 12.9٪ ہے۔ بڑھتی ہوئی قیمتیں ہر آمدنی کے درجے کے خاندانوں کے لیے روزمرہ زندگی کو مزید مشکل بنا "
رہی ہیں

تعلیم:
پاکستان میں تعلیمی نظام ابتدائی سطح سے ہی رٹے (rote learning)
پر مبنی ہے، جس میں طلباء زیادہ تر حفظ پر زور دیتے ہیں بجائے اس کے کہ مفہوم کو سمجھیں اور عملی طور پر استعمال کریں۔ یہ طریقہ کار مستقبل میں اعلیٰ تعلیم اور کیریئر کے مقابلے کے دوران طلباء کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور انہیں اضافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ والدین کی بلند توقعات بھی طلباء پر ذہنی دباؤ بڑھا دیتی ہیں، جس سے ان کی بے چینی اور تناؤ کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
آج کے تیز رفتار اور مسابقتی دور میں — جہاں آن لائن کلاسز، ڈیجیٹل امتحانات اور مستقبل کی غیر یقینی صورتحال نے تشویشیں بڑھا دی ہیں — یہ تعلیمی دباؤ پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہو چکا ہے۔


صنفی اور سماجی دباؤ: خواتین، خاص طور پر دیہی علاقوں میں،تعلیم تک محدود رسائی اور سماجی پابندیوں کا سامنا کرتی ہیں
، جبکہ شہری خواتین اکثر کیریئر اور گھریلو ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مرد عموماً اس دباؤ کا سامنا کرتے ہیں کہ وہ گھر کے مرکزی کفیل ہیں سوشل میڈیا پر موازنہ اور شادی، کیریئر اور معاشرتی حیثیت کے بارے میں خاندانی توقعات مردوں اور عورتوں دونوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔


پیشہ ورانہ زندگی: بالغ افراد، جیسے اساتذہ، بینکرز، اور آئی ٹی کارکنان، وغیرہ
طویل اوقات کار، ایک ساتھ کئی کام کرنے (ملٹی ٹاسکنگ)، اور کم قدر و اہمیت کا سامنا کرتے ہیں۔ خواتین کو غیر مساوی اجرت، محدود معاونت، اور کم ترقی کے مواقع کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے.


حکمرانی اور عوامی خدمات: بدعنوانی، سست خدمات، اور بیوروکریٹک رکاوٹیں اکثر لوگوں کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ ان کی کوششیں ضائع ہو رہی ہیں۔
یہ ذاتی، سماجی اور ساختی دباؤ لوگوں کے لیے تناؤ کو سنبھالنا اور پیداواری رہنا مشکل بنا دیتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان کی آبادی نوجوان اور توانائی سے بھرپور ہے، لیکن دباؤ سے نمٹنے کے حوالے سے اسے بہت چیلنجز درپیش ہیں۔ اسکول اور کام کی جگہیں شاذ و نادر ہی دباؤ سے نمٹنے کے طریقے سکھاتی ہیں، اور اکثر لوگوں کو ذاتی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے "دوسروں سے بہتر کارکردگی دکھانے" پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ذہنی صحت کی خدمات محدود، کم فنڈنگ والی اور سماجی بدنامی کا شکار ہیں مسلسل اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے استعمال سے بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے، اور نتیجتاً دباؤ اکثر براہِ راست شدید تھکن یا پریشانی کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس سے افراد تھک کر کمزور پڑنے لگتے ہیں اور معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔

ذہنی دباؤ اور ذہنی صحت

ذہنی دباؤ اور ذہنی صحت آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اگر دباؤ کو نظر انداز کیا جائے تو یہ اضطراب، ڈپریشن، برن آؤٹ اور دیگر ذہنی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان میں روزمرہ کے چیلنجز، معاشی مشکلات اور سماجی توقعات افراد کے لیے دباؤ کم کرنا مشکل بنا دیتے ہیں، اور اس کا اثر خاندانوں اور کمیونٹیز پر بھی پڑتا ہے۔ اکثر لوگ دباؤ کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں یا اس بات کا خوف رکھتے ہیں
، جس سے یہ مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر سطح—ذاتی، خاندانی، کام کی جگہ اور حکومتی سطح پر—ذہنی دباؤ اور ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لیا جائے تاکہ ایک صحت مند اور مضبوط معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

دباؤ کو سنبھالنے کےکچھ عملی طریقے

پاکستان میں دباؤ کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے کے لیے ہر سطح پر کام کرنا ضروری ہے—افراد، خاندان، اسکول، کام کی جگہیں اور حکومتی ادارے
۔ بچے، نوجوان، بوڑھے، اور بالغ افراد ذہنی سکون کی مشق، مختصر وقفے، ورزش اور آرام کے ذریعے دباؤ کم کر سکتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کر کے توانائی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ خاندان کھل کر بات چیت، ذمہ داریوں کی تقسیم اور بچوں و نوجوانوں کی رہنمائی کے ذریعے معاونت فراہم کر سکتے ہیں، جبکہ اسکول اور کالجز مشاورت، کیریئر رہنمائی، ذہنی سکون یا دعا کے وقفے اور تخلیقی سرگرمیوں کو فروغ دے کر طلباء کی مدد کر سکتے ہیں۔ کام کی جگہوں پر لچکدار اوقات، ذہنی صحت کے دن، فلاح و بہبود کے پروگرام اور مشاورت فراہم کی جا سکتی ہے، اور حکومت لیبر قوانین نافذ کر کے، اسکولوں اور کام کی جگہوں پر ذہنی صحت کے پروگراموں کی حمایت کر کے، بے روزگاری کم کر کے اور دیہی علاقوں میں ذہنی صحت کی خدمات میں سرمایہ کاری کر کے مدد فراہم کر سکتی ہے۔ کمزور گروہوں جیسے خواتین، بچے، بوڑھے اور سیلاب متاثرین کو محفوظ جگہیں، مالی امداد، مہارت کی تربیت اور مشاورت کے ذریعے اضافی سپورٹ دینا چاہیے۔ دیہی خواتین کمیونٹی سینٹرز سے تعلیم اور سماجی معاونت حاصل کر سکتی ہیں، ۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی حالات کے مطابق منصوبہ بند اقدامات اپنائے اور مواصلاتی خلا، غیر حقیقی سماجی توقعات اور دباؤ کے دیگر عوامل کو کم کرنے پر توجہ دے، کیونکہ توقعات، دباؤ اور حمایت کی کمی نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے پر بوجھ ڈال سکتی ہے۔

 
Mahnoor Raza
About the Author: Mahnoor Raza Read More Articles by Mahnoor Raza: 47 Articles with 17386 views As a gold medalist in Economics, I am passionate about utilizing my writing to foster positive societal change. I strive to apply economic knowledge t.. View More