بزرگوں کے "ٹیکنالوجیکل" ساتھی
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
بزرگوں کے "ٹیکنالوجیکل" ساتھی تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
دنیا بھر میں آبادی کے تیزی سے بڑھتے بوجھ، معمر شہریوں کی تعداد میں اضافے اور نگہداشت کے روایتی نظام پر دباؤ کے باعث جدید ٹیکنالوجی خصوصاً روبوٹکس کا کردار نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے کئی مقامات پر بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے روبوٹ آہستہ آہستہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ روبوٹ چوبیس گھنٹے مدد فراہم کرنے والے ٹیکنالوجیکل ساتھی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
چین کے بڑے شہروں میں جہاں عمر رسیدہ افراد کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، وہاں نگہداشتِ بزرگ کے شعبے میں روبوٹ نہ صرف ایک معاون قوت بن رہے ہیں بلکہ انہیں روزمرہ زندگی کا باقاعدہ حصہ تصور کیا جانے لگا ہے۔ شینژین جیسے جدید ٹیکنالوجی مراکز میں روبوٹک نظام بزرگوں کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے، عملے کا بوجھ کم کرنے اور معمر افراد کی خود مختاری بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
شینژین، کے محض ایک نرسنگ ہوم کی مثال لیں تو یہاں مختلف اقسام کے ایک سو سے زیادہ بزرگ نگہداشت روبوٹ موجود ہیں۔ نرسنگ ہوم میں 460 سے زائد معمر افراد رہائش پذیر ہیں اور اوسطاً ایک نگران تین رہائشیوں کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ روبوٹ معاونت کے استعمال سے عملے کا کام نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے۔
ادارے میں چند سینٹی میٹر قطر کا ایک چھوٹا، گول اور ہتھیلی جتنا روبوٹ "ٹرینی" کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ رہائشیوں کی روزمرہ سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے اور نگران عملے کا "الیکٹرونک مددگار بازو" بن جاتا ہے۔ روبوٹ تیار کرنے والی کمپنی نے بزرگوں کی خصوصی ضروریات کے مطابق حل تیار کیے ہیں۔ کسی ہنگامی صورتحال کی صورت میں روبوٹ فوراً مسئلے کا پتہ لگا کر انتباہ جاری کرتا ہے، جس سے عملہ بروقت کارروائی کر سکتا ہے۔
سن 2024 کے اختتام پر شینژین میں 60 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 15 لاکھ 80 ہزارتک پہنچ چکی ہے، جو 2029 تک بڑھ کر 25 لاکھ 80 ہزار ہونے کا اندازہ ہے۔ اگرچہ یہ شہر اپنی ساکھ کے اعتبار سے نوجوان اور تیزی سے ترقی پذیر تصور ہوتا ہے، لیکن یہاں عمر رسیدگی کا عمل بتدریج بڑھ رہا ہے۔ تاہم شینژین جیسے جدت کے مرکز میں بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے ٹیکنالوجی پہلے ہی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
اس نرسنگ ہوم میں 96 بزرگ ایسے ہیں جن کی اوسط عمر 86 سال سے زائد ہے۔ ادارے کے 97 فیصد رہائشیوں کو درمیانے سے شدید درجے کی معذوری یا دماغی کمزوری لاحق ہے، اور اکثر افراد کھڑے ہونے یا چلنے کے قابل نہیں۔
ان مسائل سے نمٹتے ہوئے حال ہی میں نرسنگ ہوم نے نچلے دھڑ کا ایک ایکسو اسکیلٹن متعارف کرایا ہے۔ جب بزرگوں کے پاؤں اور ٹانگیں اس روبوٹک ڈھانچے سے منسلک کی جاتی ہیں اور موٹر سے چلنے والی کرسی انہیں سہارا دیتی ہے تو وہ روبوٹ کی مدد سے راہداری میں "چل" سکتے ہیں۔
وہ بزرگ جو مکمل طور پر وہیل چیئر پر انحصار کرتے ہیں اُن کی نقل و حرکت میں بھی بہتری محسوس کی جا رہی ہے۔ رواں سال ایک اور کمپنی نے ہر طرح کے راستوں پر چلنے کے قابل ایک مربوط روبوٹ وہیل چیئر تیار کی ہے جو روبوٹکس اور وہیل چیئر ڈیزائن کا امتزاج ہے۔
نرسنگ ہوم میں اب شدید معذوری کے باعث طویل عرصے سے بستر پر موجود مریضوں کی دیکھ بھال جدید روبوٹک انکونٹیننس کیئر سسٹم کے ذریعے کی جا رہی ہے، جس سے انسانی عملے پر انحصار کم ہو گیا ہے۔
اس روبوٹ کے استعمال کے دوران فضلہ ظاہر ہوتے ہی یہ نظام فوری طور پر صفائی کا عمل شروع کر دیتا ہے۔ یہ پورے عمل کو دو سے تین منٹ میں مکمل کرتا ہے، جس میں فضلے کی پروسیسنگ، دھلائی، خشک کرنا اور بدبو کا خاتمہ شامل ہے، یوں اندرونی ماحول کو صاف رکھا جاتا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ سن 2024 کے آخر تک چین میں 60 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 31 کروڑ 3 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، جو مجموعی آبادی کا 22 فیصد بنتا ہے۔ ان میں سے تقریباً 4 کروڑ 50 لاکھ افراد کو معذوری یا دماغی کمزوری لاحق ہے۔
اسی باعث بزرگوں کی نگہداشت کے لیے اسمارٹ حل اب تحقیقاتی اداروں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی کے ادارے باصلاحیت نگہداشت روبوٹ تیار کر رہے ہیں جو بزرگوں کے اہم ترین مسائل جیسے گرنے کی روک تھام، پٹھوں کی کمزوری، بحالی اور ذہین نرسنگ ، پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں میں چینی ماہرین نے کئی نمایاں منصوبے ترتیب دیے ہیں جن میں عدم توازن کی نشاندہی کرنے والے آلات اور ایسے روبوٹ شامل ہیں جو بزرگوں کی چال کو مستحکم کر کے گرنے کے خدشے کو کم کرتے ہیں۔
وسیع تناظر میں ، چین میں بزرگوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے اگرچہ نگہداشت کے روایتی ڈھانچوں پر دباؤ ضرور بڑھایا ہے، مگر ٹیکنالوجی نے اس چیلنج کو ایک نئے موقع میں تبدیل کر دیا ہے۔ روبوٹک معاونت اور اسمارٹ نظام نہ صرف عملے کے کام میں آسانی پیدا کر رہے ہیں بلکہ عمر رسیدہ افراد کو باوقار ، محفوظ اور بہتر معیارِ زندگی فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ چین کا ماڈل اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ مستقبل کی بزرگ نگہداشت انسان اور مشین کے باہمی اشتراک سے ہی زیادہ مؤثر اور قابلِ اعتماد بن سکتی ہے۔ |
|