چین کی معاشی حکمتِ عملی کے نمایاں پہلو
(SHAHID AFRAZ KHAN, Beijing)
|
چین کی معاشی حکمتِ عملی کے نمایاں پہلو تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ دنیا اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں معاشی غیر یقینی، جغرافیائی کشیدگیاں، تجارتی تحفظ پسندی اور عالمی سپلائی چین میں دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایسے حالات میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی پالیسی سمت اور معاشی حکمتِ عملی نہ صرف عالمی منڈیوں بلکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ حال ہی میں منعقدہ چین کی سنٹرل اکنامک ورک کانفرنس نے آئندہ برس 2026 کے لیے معاشی ترجیحات کا تعین کر کے اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ چین قلیل مدتی دباؤ کے بجائے طویل المدتی، اعلیٰ معیار اور پائیدار ترقی کے راستے پر ثابت قدم رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہوئی جب چین پندرہویں پانچ سالہ منصوبے (2026 تا 2030) میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چین نے عالمی معاشی نمو میں تقریباً 30 فیصد حصہ ڈال کر خود کو عالمی معیشت کے ایک مستحکم ستون کے طور پر منوایا ہے۔ کانفرنس میں معیشت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے اس امر پر زور دیا گیا کہ داخلی چیلنجز، کمزور عالمی طلب اور بیرونی دباؤ کے باوجود ترقی کا توازن برقرار رکھنا آئندہ مرحلے کا بنیادی ہدف ہو گا۔
کانفرنس میں اس بات پر خاص زور دیا گیا کہ 2026 میں چین کی معاشی پالیسیوں کا مرکزی محور اندرونی طلب کو مضبوط بنانا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق مضبوط داخلی منڈی عالمی غیر یقینی حالات میں معیشت کے لیے ایک قدرتی حفاظتی حصار کا کردار ادا کرتی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2025 کی پہلے تین سہ ماہیوں میں حتمی صارفین کے اخراجات نے معاشی ترقی میں 53 فیصد سے زائد حصہ ڈالا، جو اس بات کی علامت ہے کہ چین میں کھپت بتدریج ترقی کا مرکزی انجن بنتی جا رہی ہے۔
اسی تناظر میں حکومتی سطح پر مالیاتی اور زرعی پالیسیوں میں نرمی، اہدافی اقدامات اور صارفین کے اعتماد کی بحالی پر توجہ دی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے چین کی معاشی کارکردگی کو سراہتے ہوئے 2025 کے لیے ترقی کی پیش گوئیوں میں اضافہ کیا ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف قلیل مدتی اعتماد کو مضبوط کرتی ہے بلکہ 2026 اور اس کے بعد کے لیے بھی ایک مثبت منظرنامہ پیش کرتی ہے۔
کانفرنس میں یہ نکتہ بھی نمایاں رہا کہ چین کی معاشی حکمتِ عملی اب محض خطرات کے فوری جواب تک محدود نہیں رہی بلکہ بتدریج ایک جامع معاشی تبدیلی کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس تبدیلی میں جدت، سائنسی تحقیق، جدید ٹیکنالوجی اور اندرونی طلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دور میں مالیاتی توسیع اور محتاط مانیٹری پالیسی کے امتزاج سے سرمایہ کاری میں بہتری آئے گی، برآمدات اپنی مضبوطی برقرار رکھیں گی اور کھپت ترقی کا بنیادی محرک بنی رہے گی۔
عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر چین نے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ اندرونی معاشی امور اور بین الاقوامی تجارتی ماحول میں درپیش چیلنجز کو باہم مربوط انداز میں دیکھا جائے۔ ماہرین کے مطابق اس سوچ کا مقصد صرف تجارتی تنازعات سے نمٹنا نہیں بلکہ ٹیکنالوجی میں خود انحصاری، سپلائی چین کے تحفظ اور عالمی تجارتی قواعد کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرنا بھی ہے۔
چین اس وقت دنیا کے 150 سے زائد ممالک اور خطوں کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور یکطرفہ پابندیوں اور تحفظ پسندی کے رجحانات کے مقابلے میں کھلے پن کی پالیسی کو فروغ دے رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے منفی فہرست کو مسلسل مختصر کیا گیا، ویزا فری پالیسیوں کو وسعت دی گئی اور پائلٹ فری ٹریڈ زونز کو عالمی معیار کے تجارتی اصولوں سے ہم آہنگ کیا گیا۔ ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ کی آئندہ مکمل فعالیت چین کے اعلیٰ معیار کے کھلے پن کو ایک نئے مرحلے میں داخل کرنے کی توقع رکھتی ہے۔
کانفرنس میں خدماتی برآمدات، ڈیجیٹل اور سبز تجارت کے فروغ، غیر ملکی سرمایہ کاری کے نظام میں اصلاحات اور بیرونِ ملک جامع خدماتی نیٹ ورک کی بہتری پر بھی زور دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق ان اصلاحات کے ذریعے چین اپنی وسیع داخلی منڈی کے فوائد کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی وسائل کو اپنی جانب متوجہ کرے گا اور ملکی و عالمی منڈیوں کے درمیان ہم آہنگی کو مزید مضبوط بنائے گا۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سنٹرل اکنامک ورک کانفرنس کے فیصلے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ چین بدلتے عالمی حالات میں وقتی دباؤ کے بجائے پائیدار، متوازن اور اعلیٰ معیار کی ترقی کو ترجیح دے رہا ہے۔ اندرونی طلب کو مضبوط بنانا، جدت کو فروغ دینا، کھلے پن کو وسعت دینا اور عالمی معیشت میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا اس حکمتِ عملی کے بنیادی ستون ہیں۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2026 سے شروع ہونے والا نیا پانچ سالہ منصوبہ چین کے لیے محض ایک معاشی منصوبہ نہیں بلکہ ایک جامع وژن کی نمائندگی کرتا ہے، جس کا مقصد داخلی استحکام، عالمی تعاون اور طویل المدتی ترقی کے درمیان توازن قائم رکھنا ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا غیر یقینی حالات سے دوچار ہے، چین کی یہ پالیسی سمت عالمی معیشت کے لیے استحکام اور اعتماد کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ |
|