بنوں میں کھیلوں کی ایسوسی ایشنز اور ریجنل سپورٹس آفس کا ڈرامہ: ٹرائلز، دھمکیاں اور غائب شدہ جواب


اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ کھیل صرف ٹرافیاں جیتنے، تالیاں بجاتے اور اولمپک خوابوں کی تکمیل کے لیے ہوتے ہیں، تو آپ بنوں کے نوجوان کھلاڑیوں کی کہانی پڑھیں۔ یہاں کھیلوں کی ترقی زیادہ تر دفتری سرکلز اور دھمکیوں کے گرد گھومتی ہے، اور کم ہی دوڑنے یا وزن اٹھانے کی۔حال ہی میں بنوں میں کھیلوں کی دنیا غیر متوقع ڈرامے کی زد میں آگئی ہے، جہاں مقامی ایسوسی ایشنز اور ریجنل سپورٹس آفس کی لڑائی نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب نوجوان کھلاڑیوں کو ٹرائلز سے خارج کر دیا گیا۔ عام ملکوں میں اس پر پرسکون استفسار یا وضاحت کی درخواست کی جاتی، مگر بنوں میں احتجاج، فون کالز اور خط و کتابت کا طوفان کھڑا ہو گیا۔

اس کہانی میں مرکزی کردار ہیں مقامی ایسوسی ایشنز اور ریجنل سپورٹس آفس، اور اس ڈرامے میں ایک حقیقی سپر ہیرو بھی موجود ہیں—نیلوفر بیگم، جو بنوں کی خاتون رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ انہوں نے ڈی جی سپورٹس کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ مقامی ماہرین اور ایسوسی ایشنز کو ٹرائلز اور ٹریننگ میں شامل کیا جائے۔ ایک عام توقع یہ ہو سکتی تھی کہ ڈی جی سپورٹس فوراً کارروائی کریں گے، مگر یہاں جواب نہ آنا نئی تربیت کی ایک شکل لگتی ہے—صبر اور تحمل کی۔اس دوران ریجنل سپورٹس آفیسر نے بھی اپنا کردار ڈرامائی انداز میں نبھایا۔ ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کو ٹریننگ کے لیے بھیجنے پر دھمکیاں دی گئیں: اگر نہ آئے تو ٹی اے ڈی نہیں دیا جائے گا اور پروفارما جمع نہیں کیے جائیں گے۔ عام طور پر یہ سب تھرلر فلم کا سین لگتا، مگر یہ حقیقت میں کھیلوں کی انتظامیہ ہے۔

یہ دھمکیاں تو اس وقت اور مضحکہ خیز ہو جاتی ہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر انڈر 21 کھلاڑی سکول اور کالج کے بعد دیر سے آتے ہیں، اور والدین بنوں کی سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر بچوں کو رات دیر سے باہر نہیں بھیجتے۔ لیکن ریجنل سپورٹس آفیسر کے نزدیک یہ کوئی عذر نہیں، بس آو¿ یا سزا۔ اس سے نہ صرف کھلاڑی پریشان ہیں بلکہ ایسوسی ایشنز بھی مایوس ہو رہی ہیں۔

ذرا تصور کریں، ایک معمولی بات چیت:
“کھلاڑی کیوں نہیں آئے؟” آفیسر پوچھیں۔
“وہ اسکول میں ہیں، سر۔” نمائندہ جواب دیں۔
“پھر بھیج دو، ورنہ فوائد نہیں ملیں گے!” آفیسر کا جواب۔
نمائندہ اندر سے آہ بھرتا ہے۔ والدین فکر مند، بچے دیر سے پہنچیں، اور آفیسر غصے میں۔ کسی ریفری نے تو شاید ابھی تک سیٹی نہیں بجائی۔

مزید دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ریجنل سپورٹس آفیسر سے وضاحت طلب کرنے کی کوشش کی گئی، مگر 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں آیا۔ یہ سوال پیدا کرتا ہے: آفیسر واقعی مصروف ہیں، یا جواب نہ دینا نئی تربیت کا حصہ ہے؟ صبر اور تحمل سیکھنا تو صحیح ہے، لیکن کھیلوں کی منتظمہ سطح پر یہ عجیب لگتا ہے۔کھلاڑی بھی اس سارے ڈرامے کو حیرت اور پریشانی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ کچھ سوچ رہے ہیں کہ یہ ادارے ٹیلنٹ بڑھانے کے بجائے طاقت کے کھیل کھیلنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ کچھ کو اندازہ نہیں کہ ٹریننگ میں جانا انہیں مشہور بنائے گا، یا صرف دھمکیوں کے باعث پریشان۔

یہ صورتحال ہمیں ایک اہم سبق بھی دیتی ہے: کھیلوں کی انتظامیہ کا کام موقع فراہم کرنا، ٹیلنٹ کو پروان چڑھانا اور رہنمائی دینا ہونا چاہیے۔ دھمکی دینا یا خطوط نظر انداز کرنا مسائل حل نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے۔ مزید طنز یہ ہے کہ اگر بنوں کے اس ڈرامے پر فلم بنائی جائے تو ٹائٹل ہو سکتا ہے: “بنوں اسپورٹس: جہاں ٹرائلز حقیقی ہیں، مگر منطق اختیاری ہے۔”یہ صورتحال یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی کھیلوں کی انتظامیہ میں شفافیت کی کمی، پرانی طریقہ کار اور ڈر کے ذریعے مسائل حل کرنے کا رجحان موجود ہے۔ دھمکیاں، دیر سے جواب اور بدانتظامی نوجوان کھلاڑیوں کے خوابوں پر اثر ڈالتی ہیں۔

بنوں کے کھلاڑیوں کی امید یہ ہے کہ ایک دن کھیلوں کی انتظامیہ واقعی تربیت، ٹیلنٹ اور کامیابی پر توجہ دے، نہ کہ دھمکیوں اور دفتری ڈراموں پر۔ تب تک یہ ڈرامہ جاری رہے گا، جس میں پریشانی، طنز اور غیر ارادی مزاح سب شامل ہیں۔آخر میں، بنوں کی صورتحال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کھیل کا اصل مقصد نوجوانوں کو متاثر کرنا اور انہیں مواقع دینا ہے، نہ کہ خوفزدہ کرنا یا دھمکیاں دینا۔ ایسوسی ایشنز اور کھلاڑی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ شفاف ٹرائلز، ذمہ دارانہ انتظامیہ اور حقیقی سپورٹس ڈویلپمنٹ کی ضرورت ہے۔

#BannuSports #PakistanSports #YouthDevelopment #SportsControversy #KPNews #PlayerRights #SportsAssociations #BureaucracyFails #AthleteSupport

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 888 Articles with 712649 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More