پشاور اسپورٹس کمپلیکس کا ٹارٹن ٹریک: تاخیر، تبدیلیاں، خاموشی اور آن لائن نگرانی کا انوکھا عالمی ماڈل


اگر کبھی خیبر پختونخوا میں “صبر” کو کسی علامت کی ضرورت پڑے تو پشاور اسپورٹس کمپلیکس کا ٹارٹن ٹریک اس کا موزوں ترین استعارہ بن سکتا ہے۔ یہ وہ ٹریک ہے جس پر دوڑنے سے پہلے ہی کھلاڑی تھک چکے ہیں، اور جس کی تکمیل سے قبل ہی نیشنل گیمز مکمل ہو گئے۔ شاید یہی وہ جدید اسپورٹس ماڈل ہے جس میں پہلے مقابلے ختم ہوتے ہیں، پھر سہولیات بنتی ہیں، اور آخر میں فائلیں حرکت میں آتی ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ نیشنل گیمز سے پہلے کھلاڑیوں کو بتایا گیا کہ بس ایک مہینہ دیں، ٹارٹن ٹریک تیار، پریکٹس مکمل، میڈلز کی بارش۔ مگر ایک مہینہ دو میں بدلا، دو مہینے “ان شائ اللہ” میں، اور پھر نیشنل گیمز کراچی میں ہو گئے۔ کے پی کے اتھلیٹس وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ پریکٹس کے بغیر بھی مقابلہ ممکن ہے، بس نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عدد برانز میڈل ہاتھ آیا، جو شاید بطور یادگار رکھا جائے گا کہ کبھی پشاور میں ٹارٹن ٹریک نام کی کوئی چیز زیرِ تعمیر تھی۔

اتھلیٹس کا مو¿قف سادہ ہے۔ ٹریک نہیں، پریکٹس نہیں، پرفارمنس نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سادگی انتظامی نظام میں اکثر قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ یہاں منصوبے تاریخوں کے پابند نہیں ہوتے، تاریخیں منصوبوں کی محتاج ہوتی ہیں۔ اگست 2024 کی ڈیڈ لائن کاغذوں میں زندہ ہے، جبکہ زمینی حقیقت اب بھی زیرِ تعمیر ہے۔اس سارے معاملے میں سب سے دلچسپ پہلو غیر ملکی ماہرین کا ہے۔ ابتدا میں بتایا گیا کہ دو غیر ملکی ایکسپرٹس موقع پر موجود ہوں گے، معیار بین الاقوامی ہوگا، اور کام کتابی نہیں بلکہ عملی ہوگا۔ پھر اچانک خبر آئی کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ماہرین واپس بھیج دیے گئے ہیں۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اب وہ آن لائن نگرانی کر رہے ہیں۔ یوں یہ ملک کا شاید واحد ٹارٹن ٹریک بن گیا ہے جو زوم، واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے تیار ہو رہا ہے۔ فزیکل ٹریک پشاور میں ہے، جبکہ اس کی روح شاید کسی اور ٹائم زون میں بیٹھی ہدایات دے رہی ہے۔

اب آتے ہیں لاگت کی طرف، جو اس کہانی کا سب سے رومانوی حصہ ہے۔ منصوبہ شروع ہوا 38 کروڑ سے۔ پھر اچانک اس نے کروٹ بدلی اور 68 کروڑ تک جا پہنچا۔ اب خبریں ہیں کہ مزید اضافے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ منصوبہ انفلیشن کے خلاف نہیں بلکہ اس کے شانہ بشانہ چل رہا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ لاگت کیوں بڑھی، سوال یہ ہے کہ خاموشی کیوں ہے۔ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ، انجینئرنگ ونگ، اور متعلقہ دفاتر اس معاملے پر ایسی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جیسے سب کچھ بالکل معمول کے مطابق ہو۔

شفافیت کے شوقین چند لوگوں نے سات اگست کو آر ٹی آئی درخواست بھی دائر کی۔ پی سی ون، لاگت میں تبدیلیاں، اسکوپ میں رد و بدل، سب کچھ مانگا گیا۔ جواب آج تک نہیں آیا۔ شاید فائل دوڑنے کے لیے بھی کسی ٹارٹن ٹریک کی منتظر ہے۔ادھر غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یورپی معیار کے بجائے چینی سامان استعمال ہو رہا ہے۔ یہ بات درست ہے یا نہیں، اس پر حتمی رائے ممکن نہیں، کیونکہ دستاویزات سامنے ہی نہیں۔ مگر سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ پی سی ون میں جو لکھا گیا تھا، زمین پر وہی بچھ رہا ہے یا کچھ اور۔ شفافیت کا تقاضا یہی ہے کہ شبہات کو وضاحت سے ختم کیا جائے، نہ کہ خاموشی سے بڑھایا جائے۔

معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ منصوبے کے دائرہ کار میں کم از کم تین مرتبہ تبدیلی کی گئی۔ دو ویری ایشن آرڈرز تو تسلیم شدہ ہیں، تیسری تبدیلی مبینہ طور پر پردے میں ہے۔ نہ نیا اشتہار، نہ کوریجینڈم، نہ نظرثانی شدہ ٹینڈر۔ کے پی پی آر اے قواعد واضح ہیں کہ اگر تبدیلیاں مقررہ حد، عموماً 15 فیصد، سے بڑھ جائیں تو نیا مقابلہ جاتی عمل لازم ہے۔ مگر یہاں مقابلہ شاید صرف صبر کا ہے، اور اس میں کھلاڑی سب سے آگے ہیں۔
پروکیورمنٹ کے ماہرین کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ بار بار تبدیلیاں کرکے دوبارہ اشتہار نہ دینا قواعد کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ مگر جب پوچھا جائے تو جواب گول، مبہم، یا مکمل خاموشی کی صورت میں ملتا ہے۔ اندرونی منظوریوں کے سہارے فیصلے ہو رہے ہیں، مگر عوامی ریکارڈ خالی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ منصوبہ عوامی پیسے سے تو بن رہا ہے، مگر عوام کے لیے معلومات ممنوع ہیں۔

اسی دوران ڈی جی اسپورٹس خیبر پختونخواہ تاشفین حیدر نے ٹارٹن ٹریک کا دورہ کیا۔ شکایات کا نوٹس لیا گیا، کنٹریکٹر سے بات ہوئی، اور معیار پر تحفظات سامنے آئے۔ کوچ زعفران کو طلب کیا گیا، جنہوں نے تکنیکی خامیوں کی نشاندہی کی۔ آخرکار فیصلہ ہوا کہ کوچ صاحب روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کریں گے۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ نگرانی منصوبے کے آغاز سے نہیں ہونی چاہیے تھی۔ڈی جی اسپورٹس کا کہنا ہے کہ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور کھلاڑیوں کے مفاد کا تحفظ کیا جائے گا۔ یہ بات سننے میں اچھی لگتی ہے، مگر کھلاڑی پوچھتے ہیں کہ مفاد کا تحفظ کب ہوگا۔ نیشنل گیمز گزر گئے، سیزن گزر رہا ہے، اور پریکٹس اب بھی ایک خواب ہے۔

آخر میں سوال بہت سادہ ہیں۔ ٹریک کب مکمل ہوگا۔ لاگت کیوں بڑھی۔ کتنی بڑھی۔ پی سی ون میں کیا لکھا تھا اور زمین پر کیا ہو رہا ہے۔ ویری ایشن آرڈرز کی تفصیل کیا ہے۔ کیا کے پی پی آر اے قواعد پر عمل ہوا یا نہیں۔ یہ سوال غیر اخلاقی نہیں، غیر قانونی نہیں، بلکہ عوامی حق ہیں۔اگر اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ واقعی شفافیت اور کھلاڑیوں کے مفاد پر یقین رکھتا ہے تو اسے خاموشی توڑنی ہوگی۔ ورنہ یہ ٹارٹن ٹریک صرف ایک تعمیراتی منصوبہ نہیں رہے گا بلکہ انتظامی تاخیر، مالی ابہام اور ادارہ جاتی بے حسی کی علامت بن جائے گا۔ اور شاید آنے والے برسوں میں کھلاڑی اس پر دوڑنے کے بجائے اس کی کہانی سناتے نظر آئیں گے۔

#PeshawarSportsComplex #TartanTrackDelay #KP_Sports #Accountability #SportsGovernance #PublicFunds #Transparency #NationalGames


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 888 Articles with 712650 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More