چین کی صاف توانائی میں تاریخی پیش رفت کا عالمی اعتراف

چین کی صاف توانائی میں تاریخی پیش رفت کا عالمی اعتراف
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین میں قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں غیر معمولی توسیع کو عالمی سائنسی برادری کی جانب سے نمایاں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ معروف بین الاقوامی سائنسی جرائد "سائنس" اور" نیچر" نے چین کی صاف توانائی کی منتقلی کو 2025 کی سب سے متاثر کن سائنسی اور ماحولیاتی کامیابیوں میں شمار کیا ہے۔ ان جرائد کے مطابق چین کی قیادت میں قابلِ تجدید توانائی کی تیز رفتار ترقی نے نہ صرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی رفتار کو عملاً روک دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر تخفیف کاربن کے عروج کے ہدف کو بھی قابلِ حصول بنا دیا ہے۔

جرنل "سائنس" نے چین کی قابلِ تجدید توانائی میں پیش رفت کو 2025 کی "بریک تھرو آف دی ایئر" قرار دیتے ہوئے لکھا کہ چین کی مضبوط صنعتی صلاحیت اس تبدیلی کی اصل محرک ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین اس وقت دنیا کے 80 فیصد سولر سیلز، 70 فیصد ونڈ ٹربائنز اور 70 فیصد لیتھیم بیٹریاں تیار کر رہا ہے، وہ بھی ایسی لاگت پر جس کا کوئی عالمی حریف مقابلہ نہیں کر سکتا۔

ادھر برطانوی سائنسی جریدے "نیچر" نے چین کی صاف توانائی کی کامیابیوں کو 2025 میں اعتماد بحال کرنے والی "حوصلہ افزا سائنسی کہانیاں" قرار دیا ہے۔ نیچر کے مطابق رواں سال دنیا میں پہلی بار قابلِ تجدید توانائی نے کوئلے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے توانائی کے سب سے بڑے ذریعے کی حیثیت حاصل کی، جس کی بنیادی وجہ چین کی جانب سے مئی میں ایک ٹیرا واٹ سے زائد سولر نصب شدہ صلاحیت کا سنگِ میل عبور کرنا تھا۔

نیچر کی رپورٹ کے مطابق صرف 2025 کے پہلے چھ ماہ میں چین نے اتنی نئی سولر تنصیبات نصب کیں جو دنیا کے باقی تمام ممالک کے مجموعی اضافے سے دگنی تھیں۔ معروف ماحولیاتی سائنس دان گلین پیٹرز کے مطابق چین اور کئی ترقی پذیر ممالک میں سولر، ونڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی تنصیب "غیر معمولی رفتار" سے ہو رہی ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ چین میں قابلِ تجدید توانائی کی توسیع نے تاریخی ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ مارچ 2025 میں پہلی بار ونڈ اور سولر پاور کی مجموعی صلاحیت تھرمل پاور سے تجاوز کر گئی۔ جون کے اختتام تک چین میں نصب شدہ ونڈ اور فوٹو وولٹک بجلی کی صلاحیت 1.67 ارب کلو واٹ تک پہنچ گئی، جو تھرمل پاور کے مقابلے میں 13.6 فیصد زیادہ ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں چین نے دنیا کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھنے والا قابلِ تجدید توانائی کا نظام قائم کیا، جہاں نصب شدہ بجلی کی مجموعی صلاحیت میں قابلِ تجدید توانائی کا حصہ تقریباً 40 فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہو چکا ہے۔ اسی عرصے میں چین کی توانائی کھپت میں غیر فوسل ایندھن کا حصہ ہر سال ایک فیصد بڑھا جبکہ کوئلے کا حصہ اسی شرح سے کم ہوا۔

2025 کے نیچر انرجی انڈیکس کے مطابق 2019 سے 2024 کے دوران چین کی صاف توانائی کی پیداوار دیگر ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ رہی۔ اس کے علاوہ چین دنیا کی سب سے بڑی کاربن مارکیٹ بھی چلا رہا ہے، جو مؤثر اجازت ناموں کے ذریعے قومی سطح پر 60 فیصد سے زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کو ریگولیٹ کرتی ہے۔


چین نے 2035 کے لیے اپنی نئی قومی طور پر طے شدہ شراکتیں بھی جاری کی، جن میں معیشت بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے خالص اخراج کو عروج کی سطح سے 7 سے 10 فیصد کم کرنے کا ہدف شامل ہے۔ یہ چین کا پہلا ایسا مطلق ہدف ہے جو پوری معیشت اور تمام گرین ہاؤس گیسوں کا احاطہ کرتا ہے، جسے ماہرین چین کے پختہ عزم اور زیادہ سے زیادہ کوششوں کا مظہر قرار دے رہے ہیں۔

چین نے یہ ہدف بھی مقرر کیا ہے کہ 2035 تک توانائی کے مجموعی استعمال میں غیر فوسل ایندھن کا حصہ 30 فیصد سے زائد کیا جائے گا اور ونڈ و سولر پاور کی نصب شدہ صلاحیت کو 2020 کی سطح کے مقابلے میں چھ گنا بڑھایا جائے گا۔

چین کی قابلِ تجدید توانائی میں پیش رفت نے نہ صرف ملکی توانائی کے منظرنامے کو تبدیل کیا ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کا قائد بھی بنا دیا ہے۔ جریدہ سائنس کے مطابق چین کی سبز ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی برآمدات دنیا بھر میں توانائی کے نظام کو تبدیل کر رہی ہیں۔

گزشتہ پانچ برسوں میں چین کی ونڈ اور سولر برآمدات کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 4.1 ارب ٹن کاربن اخراج سے بچاؤ ممکن ہوا۔ چین نے 100 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ سبز توانائی کے منصوبوں میں تعاون کیا، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ونڈ پاور کی فی یونٹ لاگت میں 60 فیصد اور فوٹو وولٹک بجلی میں 80 فیصد کمی آئی۔

چین نے 2016 سے اب تک دیگر ترقی پذیر ممالک کو 177 ارب یوان سے زائد کی ماحولیاتی مالی معاونت فراہم کی ہے۔ جریدہ سائنس کے ایک ایڈیٹر کے الفاظ میں "اس وقت چین یہ صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز دنیا کے لیے تیار کر رہا ہے ، بہتر، کہیں زیادہ سستی اور حیران کن مقدار میں۔"

عالمی سائنسی اداروں کی جانب سے چین کی صاف توانائی میں پیش رفت کو سال کی بڑی کامیابی قرار دیا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ چین کی توانائی پالیسی محض قومی ضرورت نہیں بلکہ عالمی حل کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ صنعتی صلاحیت، پالیسی عزم اور تکنیکی جدت کے امتزاج نے چین کو کم کاربن مستقبل کی جانب ایک فیصلہ کن قوت بنا دیا ہے۔ آنے والے برسوں میں چین کی یہ قیادت نہ صرف عالمی ماحولیاتی اہداف کے حصول میں مدد دے گی بلکہ دنیا کے لیے پائیدار اور کم لاگت توانائی کے ایک نئے دور کی بنیاد بھی فراہم کرے گی۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1738 Articles with 995953 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More