سرکاری ملازمین اور قانون کی بے بسی

سرکاری ملازمین اور قانون کی بے بسی

تحریر: محمد علی رضا
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے جہاں آئین و قانون کی حکمرانی کو ریاست کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، مگر افسوس کہ عملی طور پر سرکاری دفاتر میں قانون سے زیادہ دھونس، دباؤ اور سیاسی اثر و رسوخ کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جن میں بااثر اور شرپسند عناصر اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر ڈیوٹی پر موجود سرکاری ملازمین کو دھمکاتے، ہراساں کرتے اور حتیٰ کہ تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان واقعات پر اکثر اعلیٰ افسران کی خاموشی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ اگر افسران بروقت اپنے عملے کے حق میں کھڑے ہوں تو نہ صرف قانون حرکت میں آ سکتا ہے بلکہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی بھی ممکن ہے۔ خاموشی دراصل ظلم کی بالواسطہ حمایت کے مترادف ہے۔
سرکا ری ملازم کو دھمکانے کے واقعات میں زیادہ تر سیاسی عنا صر کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں، یہ سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے افراد اور گروہ اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کے لئے سرکا ری عملے پر دباوٗڈالتے ہیں،دھمکیاں دیتے ہیں اور بعض اوقات بات بدسلوکی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
اگر ہم قانون کا مطالعہ کریں توقانون اس معاملے میں کمزور نہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 186، 189، 353 اور 509 واضح طور پر سرکاری ملازم کو دھمکانے، تشدد کرنے یا فرائض میں رکاوٹ ڈالنے کو جرم قرار دیتی ہیں، جن کی سزا تین ماہ سے سات سال قید تک ہو سکتی ہے۔ جان سے مارنے کی دھمکی یا خوف و ہراس پھیلانے کی صورت میں مقدمہ انسدادِ دہشت گردی عدالت تک بھی جا سکتا ہے۔ جہا ں سزائیں مزید سخت بھی ہو سکتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ملازمین دباؤ کے سامنے جھکنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کریں اور ریاستی ادارے ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ جب تک قانون کا بلا امتیاز نفاذ نہیں ہوگا، سرکاری دفاتر میں خوف کی فضا ختم نہیں ہو سکے گی۔
اگر قانون پر بلا امتیاز عملدرآمد کیا جائے تو نہ صرف سرکاری ملازمین کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے بلکہ آئندہ کوئی بھی شخص کسی سرکاری اہلکار کو دھمکانے یا ہراساں کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔
قانون کی بالادستی ہی ریاست کی بقا کی ضمانت ہے، ورنہ دھونس اور طاقت کا راج جمہوریت اور انصاف دونوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

 
MUHAMMAD ALI RAZA
About the Author: MUHAMMAD ALI RAZA Read More Articles by MUHAMMAD ALI RAZA: 10 Articles with 9785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.