نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے زمانہ میں ایک جوان تھا جس کو علقمہ کہا جاتا تھا وہ بڑا عابد و زاہد
تھا. نماز ، روزہ ، صدقہ وغیرہ بڑی تن دھی سے ادا کرتا تھا . وہ بیمار
ہوگیا اور مرض شدت پکڑگئی تو اس کی بیوی نے جناب رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ آلہ
وسلم کی خدمت اقدس میں ایک آدمی بھیجا کہ میرا خاوند علقمہ رضی اﷲ عنہ نزع
کی حالت میں ہے مجھ کو خیال آیا کہ اس کی حالت کی نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم کو اطلاع کردوں. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار، حضرت
صہیب اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہم کو بلایا اور فرمایا جاکہ اس کو کلمہ شہادت
کی تلقین کرو . لیکن اس کی زبان نہ چلتی تھی. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کو اس کی زبان کے کلمہ شریف پر نہ چلنے کی اطلاع دی تو نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہے ؟
عرض کیا جی ہاں! اس کی ماں زندہ ہے ، جو کہ بہت ضعیف ہے . نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا کہ اس کی ماں کو کہنا کہ اگر
تجھے میرے پاس آنے کی طاقت ہو تو آجا ورنہ وہاں ٹھہر میں خود تیرے پاس آؤں
گا. چنانچہ جب وہ فرستادہ اس کے پاس گیا اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا پیغام دیا تو اس نے کہا: میری جان قربان ہو، میں خود حاضر خدمت ہوں
گی. چنانچہ لکڑی کے سہارے چل کرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوگئی، اور سلام کیا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کا جواب
دیا اور فرمایا کہ اے علقمہ کی ماں! سچ سچ بتا اگر جھوٹ بولے گی تو اﷲ
تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس وحی آجائے گی . کیا حال تھا تیرے بیٹے علقمہ کا
؟ عرض کیا : یارسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ! بڑا نمازی ، روزہ رکھنے والا
اور بڑی خیرات کرنے والا تھا. نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
تیرے ساتھ کیا حال تھا؟ عرض کیا یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں اس سے
ناراض ہوں . نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیوں؟
اس نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم وہ اپنی بیوی پر خرچ کرتاتھا
اورمیری نافرمانی کرتا تھا. فرمایا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمنے ، اس
کی ماں کی نافرمانی روک رہی ہے ، اس کی زبان کو کلمہ پڑھنے سے . پھر فرمایا
: اے بلال ! جاؤ اور بہت سی لکڑیاں جمع کرو .اس عورت نے کہا یا رسول اﷲ صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم ! لکڑیوں کو کیا کریں گے؟ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا ان سے علقمہ کوجلائیں گے .اس عورت نے کہا : یا رسول اﷲ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم وہ تو میرا بیٹا ہے ، میرا دل برداشت نہیں کرتا کہ اس کو
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آگ میں جلائیں گے میرے سامنے.
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے علقمہ کی ماں! اﷲ کا عذاب تو
دائمی ہے اگر تو راضی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے ، تو تو اس پر
خوش ہوجاؤ (نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) قسم ہے اس ذات کی جس
کے قبضے میں میری جان ہے نہ فائدہ دے گی علقمہ کی اس کی عبادت (نماز ، روزہ
، خیرات وغیرہ) جب تک تو ناراض رہے گی اس پر. اس عورت نے عرض کیا یا رسول
اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں گواہ بناتی ہوں ﷲ کو اس کے فرشتوں کو اور جو
مسلمان یہاں حاضر ہیں ، بے شک میں راضی ہوں اپنے بیٹے علقمہ پر. پھر فرمایا
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یا بلال جا کر دیکھ کہ اس کی زبان کلمہ
پر چلنے لگی ہے یا نہیں ؟ شاید کہ علقمہ کی ماں زبانی کہہ رہی ہو اور دل سے
نہ کہا ہو، پس بلال رضی اﷲ عنہ گئے اور علقمہ کے گھر سے کلمہ کی آواز سنی،
پھر اندر آگئے اور کہا: اے لوگو! بے شک علقمہ کی ماں کی ناراضگی نے روک
رکھا تھا اس کی زبان کوکلمہ پڑھنے سے. مگر اس کی رضامندی نے اس کو چلا دیا.
پھر فوت ہوگئے علقمہ اسی دن . اور پھر تشریف لائے نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم اور حکم فرمایا: اس کو غسل دینے کا اور کفن دینے کا. پھر نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور دفن کیا پھر نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی قبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: اے
مسلمانوں کی جماعت جو ترجیح دے گا اپنی بیوی کو اپنی ماں پر، تو اس کے اوپر
لعنت ہے ﷲ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی، نہ قبول کرے گا ﷲ
تعالیٰ اس کا کوئی فرض ، نہ نفل مگر یہ کہ توبہ کرے ﷲ تعالیٰ سے.
کتاب الکبائر از امام ذھبی |