قائد المرسلین 'امام الانبیاء
حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم شخصیت کا ہر پہلو ہی
تابناک اور ہر گوشہ ہی بے مثال ہے ۔ آپ کے گلستانِ محاسن میں ہر پھول کی
ادا نرالی ہے اور جہانِ فضائل میں ہر فضیلت کی جداگانہ رعنائیاں ہیں ۔ آپ
کے مراتب کی کائنات بھی بڑی گنجان آباد ہے اور محامد کے سمٰوات بھی تاروں
سے معمور ہیں ۔ یہی وہ مقام ہے جس کی طرف مفسر کی باریک بینیاں 'محد ّث کی
معنی خیزیاں ' محقق کی نکتہ آفرینیاں 'ادیب کی ادب طرازیاں ، شاعر کی رنگیں
بیانیاں ، شمس و قمر کی جلوہ افروز یاں اور بہاروں کی عطر بیزیاں سلامِ
عقیدت کرنے کو جھکتی رہتی ہیں ۔کوئی آپ کے کسی وصف کو اپنی فکر کا مطاف
بنائے ہوئے ہے اور کوئی کسی ادا کو قبلہئ خیال ٹھہرائے ہوئے ہے ۔ اس وقت
میرا قلم آپ کے ''وصف ِمبشر'' کی تشریح سے سعادت مندی چاہتا ہے ۔
رسول مبشر:
فرمان باریٰ تعالیٰ ہے:
یا یھا النبی انا ارسلنک شاہدا و مبشرا و نذیرا (الاحزاب آیت ٤٥)
''اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تجھے بھیجا حاضر و ناظر
خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ''۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس وصف کو خود بیان فرمایا ہے حضرت
انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''انا اوّل الناس خروجا اذا بعثوا و انا خطیبم اذا وفدوا وا نا مبشرھم اذا
أیسوا الواء لحمد یومئذ بیدی وانا اکرم ولد آدم علی ربی ولافخر ''(ترمذی :
٣٦١٠ دارالفکر بیروت)
جب لوگ اٹھائے جائیں گے میں سب سے پہلے قبر سے باہر آؤں گا جب لوگ اکٹھے
ہوں گے تو میں انہیں خطبہ دوں گا جب لوگ نا اُمید ہو جائیں گے تو میں انہیں
بشارت دوں گا ۔ اس دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور میں حضرت آدم
علیہ السلام کی تمام اولاد میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزت والا ہوں
اور اس پر فخر نہیں ۔
بشارت:
اس کے اصلی حروف ب ش ر ہیں ۔ جس کے معنی میں ظہور ہے ۔ جو ہری نے کہا ہے
البشرۃ والبشر ظاہر جلد الانسان و بشرۃ الارض ما ظھر من نباتھا ۔(صحاح
للجوھری : ٢ /٥٩٠، دارالعلم للملایین بیروت )
''مبشرہ اور مبشر انسان کی ظاہر جلد کو کہتے ہیں ۔ زمین کی بشرہ اس کی
نباتات کو کہا جاتا ہے ۔
میر سید شریف کہتے ہیں بشارت کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:
کل خبر صدق یتغیربہ مبشرۃ الوجہ و یستعمل فی الخیر والشر وفی الخیر اغلب (ا
لتعریفات للجرجانی ٢٠ ، انتشارات ناصر خسرو طہران ایران)
'ہر وہ سچی خبر جس کی وجہ سے چہرے کی جلد تبدیل ہو جاتی ہے اس کا استعمال
خیر میں بھی ہو سکتا ہے اور شر میں بھی لیکن خیر میں زیادہ ہوتا ہے ''۔
عمومی استعمال کے لحاظ سے بشارت کا اطلاق اچھی خبر پر ہوتا ہے ۔ اصطلاحی
معنی کی لغوی کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ جب انسان اچھی خبر سنتا ہے تو اس کی
بشرہ میں یعنی چہرے کی جلد میں رنگ کے لحاظ سے تغیر آ جاتا ہے ۔ اس لئے ا س
کو بشارت کہتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند بشارتیں
ذخیرہ حدیث شریف میں سے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی
بشارتوں کو جمع کیا جائے تو ضخیم کتاب بن جائے ۔یہاں صرف چند بیان کی جاتی
ہیں:
(١) عن عبدالرحمن بن عوف ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ابوبکر فی الجنۃ
و عمر فی الجنۃ و عثمان فی الجنۃ و علی فی الجنۃو طلحۃ فی الجنہ والزبیر فی
الجنۃ و عبدالرحمن بن عوف فی الجنۃ و سعد بن ابی وقاص فی الجنۃ و سعید بن
زید فی الجنۃ و ابو عبیدۃ بن الجراح فی الجنۃ (مشکوٰۃ : ٥٦٦، قدیمی کتب
خانہ کراچی)
حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا ''حضرت ابوبکر جنتی ہیں ، حضرت عمر جنتی ہیں ، حضرت عثمان
جنتی ہیں ، حضرت علی جنتی ہےں ، حضرت طلحہ جنتی ہیں ، حضرت زبیر جنتی ہیں ،
حضرت عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں ، حضرت سعد بن ابی وقاص جنتی ہیں ، حضرت
سعید بن زید جنتی ہیں اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم جنتی ہیں ''۔
(٢) عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال اتی جبریل النبی فقال یا رسول اللہ ہذہ
خدیجۃ قد اتت معھا اناء فیہ ادام او طعام او شراب فاذا ھی اتتک فاقرأ علیہا
السلام من ربھا و منی و بشرھا ببیت فی الجنۃ من قصب لا صخب فیہ ولا نصب
(بخاری ١/٥٣٩ ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ وسلم ) یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی طرف آ رہی ہیں ان کے پاس برتن ہے
اس میں سالن یا کھانا یا پانی ہے ۔ جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں انہیں ان کے
رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہہ دیں اور ان کو جنت میں مجوف ہیرے کے
بنے ہوئے گھر کی بشارت دے دیں ، جس میں شور ہو گا نہ تھکاوٹ ۔
(٣) عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یدخل
علی ام حرام بنت ملحان فتطعمہ وکانت ام حرام تحت عبادۃ بن الصامت فدخل
علیھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم یوما فاطعمتہ ثم جلست تفلی راسہ فنام رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم استیقظ وھو یضحک قالت فقلت ما یضحکک یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ناس من امتی عرضوا علی غزاۃ فی سبیل اللہ
یرکبون ثج ھذا البحر ملوکا علی الاسرۃ قالت فقلت یا رسول اللہ ادع اللہ ان
یجعلنی منھم فدعالھا ثم وضع راسہ فنام ثم استیقظ وھو یضحک قالت فقلت ما
یضحکک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) قال ناس من امتی عرضوا علی غزاۃ
فی سبیل اللہ کما قال فی الاولی قالت فقلت ادع اللہ ان یجعلنی منھم قال انت
من الاولین فرکبت ام حرام بنت الملحان البحر فی زمن معاویہ فصرعت عن دابتھا
حین خرجت من البحر نھلکت۔
(بخاری١/٣٩١، قدیمی کتب خانہ کراچی)
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ (یہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں کیونکہ آپ کی رضاعی خالہ تھیں) وہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو کھانا پیش کرتی تھیں ۔ وہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی
زوجہ تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن حضرت ام حرام کے پاس تشریف لے
گئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ پھر آپ کے
پاس بیٹھ کر آپ کے سر مبارک کو کھجلانے لگیں پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم محو خواب ہو گئے۔ کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ حضرت ام حرام
رضی اللہ عنہا نے پوچھا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے کی وجہ
کیا ہے؟' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''میری اُمت کے کچھ لوگ اللہ
تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے مجھ پر پیش کئے گئے ہیں اس حال میں کہ
اس سمندر کی پیٹھ پر سواراو ر تختوں پر بادشاہ بنے ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ
مجھے بھی ان مجاہدین میں سے شمار کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا
فرمائی ۔پھر آپ نے سر رکھا اور سو گئے پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ میں
نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے کی وجہ کیا ہے؟ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''میری اُمت کے کچھ لوگ مجھ پر فی سبیل اللہ جہاد
کرتے پیش کئے گئے ہیں ''جیسا کہ آپ نے پہلی مرتبہ فرمایا تھا ۔ میں نے عرض
کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ
مجھے بھی ان میں سے بنا دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''آپ پہلی
جماعت میں سے ہیں''۔
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا حضرت جی معاویہ کے زمانے میں سمندری مہم میں
فوج کے ساتھ شریک ہوئیں ۔ (حضرت جی معاویہ کی اہلیہ بنت قرظ کے ساتھ) جب
سمندر سے باہر نکلیں تو اپنی سواری پر سے گر پڑیں اور شہید ہو گئیں
۔ عن الحسن ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لسراقۃ بن مالک کیف بک اذا
لبست سواری کسری و منطقتہ و تاجہ؟ قال فلما اتی عمر بسواری کسری و منطقتہ و
تاجہ دعا سراقۃ بن مالک و البسہ ایاھما (اسد الغابہ ٢ /١٩٨ ، دارالفکر
بیروت)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت سراقہ بن مالک (جو ہجرت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں
گئے تھے اور گھوڑا دھنس گیا تھا پھر مسلمان ہو گئے) سے فرمایا تھا ''اے
سراقہ اس وقت تمہاری کیا شان ہو گی جب کسری کے کنگن 'کمر بند اور تاج تمہیں
پہنایا جائے گا ''۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے پاس جب یہ فتح کے بعد لائی گئیں تو آپ نے حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کو
بلایا اور انہیں تاج اور کنگن پہنا دئیے۔
٥۔ عن ام ورقۃ بنت نوفل ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما غزا بدرا قالت قلت
لہ یا رسول اللہ ائذن لی فی الغزومعک اُمرض مرضا کم لعل اللہ اُن یرزقنی
شہادۃ قال قر ّی فی بیتک فان اللّٰہ تعالیٰ یرزقک الشہادۃ قال فکانت تسمی
الشہیدۃ قال و کانت قد قرأت القرآن فاستاذ نت النبی صلی أن تتخذ فی دارھا
مؤذنا فأذن لھا قال و کانت د برت غلاما لھا و جاریۃ فقاما الیھا باللیل
مغما ھا بقطیفۃ لھا حتی ما تت و ذھبا ناصبح عمر فقام فی الناس فقال من کان
عندہ من ھذین علم أومن رآھما فلیجی بھما فامربھما فصلبا فکانا اول مصلوب
بالمدینۃ ( ابوداؤد ، حدیث رقم ٥٩١ ، دارالفکر بیروت)
''حضرت ام ورقہ بنت نوفل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے جب جنگ بدر کی تیاری کی تو میں نے کہا مجھے اپنے ساتھ جنگ میں
شریک ہونے کی اجازت دیجئے ۔ میں آپ کے مریضوں کی تیمار داری کروں گی ، اس
امید پر کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کا شرف عطا فرما دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا'' تم گھر میں رہو ' اللہ تعالیٰ تمہیں شرف شہادت دے دے گا
''۔ راوی کہتے ہیں کہ انہیں ''شہیدہ'' کہا جاتا تھا ۔ وہ قرآن مجید کی
قاریہ تھیں ۔ انہوں نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں مؤذن رکھنے
کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔ انہوں نے
اپنے غلام اور لونڈی کو مدبر بنایا ہوا تھا (کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد
ہو) وہ دونوں ایک رات آپ کے پاس گئے اور آپ ہی کی چادر سے آپ کا منہ ڈھانپ
لیا اور سانس بند کی یہاں تک آپ فوت ہو گئیں ۔ اس کے بعد وہ دونوں فرار ہو
گئے۔صبح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا جس کو ان کے بارے
کچھ پتہ ہو یا انہیں دیکھا ہو انہیں لے آئے۔ انہیں لایا گیا آپ نے ان کے
بارے میں حکم فرمایا کہ ان کو سولی پے چڑھا دو پس یہ دونوں وہ پہلے تھے
جنہیںمدینہ شریف میں سب سے پہلے سولی پے چڑھایا گیا ''۔
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں شہیدہ کہا کرتے اور فرمایا کرتے تھے
:
انطلقوا بنا الی الشہیدۃ نزورھا ( السنن الکبریٰ للبیہقی ٢/١٦٦ ، دارالفکر
بیروت)
''چلو ہمارے ساتھ شہیدہ کے پاس چلیں ان کی ملاقات کیلئے ''۔
٦۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ایک دن
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے آپ نے ارشاد فرمایا
(مختصر روایت ہے)
رأیت سوادا کثیرا سد ّا الافق فقیل ھولاء امتک ومع ھولاء سبعون الفاید خلون
الجنہ بغیر حساب
میں نے ایک بہت بڑی جماعت دیکھی جس نے افق کو بھر دیا ۔کہا یہ آپ کے امتی
ہیں ۔ ان کے ساتھ ستر ہزار جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
فقام عکاشہ بن محصن فقال أمنھم انا یا رسول اللہ؟ قال نعم فقام آخر فقال
أمنھم انا فقال سبقک بھا عکاشہ
( بخاری ٢/٨٥٦، قدیمی کتب خانہ)
''حضرت عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ (ؐ) کیا میں ان
میںسے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہاں ۔ایک اور اُٹھااور اس نے کہا
کیا ان میں سے میں بھی ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عکاشہ تجھ سے جنت کے بارے میں سبقت لے گئے''۔
٧۔ عن سھل بن حنظلۃ انھم ساروا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم حنین
فأطنبوا السیر حتی کانت عشیۃ محضرت الصلوٰۃ عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم فجاء رجل فارس فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی انطلقت بین
ایدیکم حتی طلعت جبل کذا کذا فاذا انا بھوازن علی بکرۃ ابائھم بظعنھم و
نعمھم و شائھم اجتمعوا الی حنین فتبسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و قال
تلک غنیمۃ المسلمین غدا ان شاء اللہ تعالیٰ( ابوداؤد حدیث رقم ٢٥٠١ ،
دارالفکرت معجم کبیرللطبرانی ٦/٩٦ ، داراحیاء التراث )
حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ حنین کے موقعہ پر سفر کیا اور لمبا سفر کیا
یہاں تک شام ہو گئی ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نماز کیلئے حاضر
ہوا تو ایک گھوڑ سوار آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میں آپ کے آگے آگے گیا یہاں تک فلاں پہاڑ پر چڑھا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ
قبیلہ ہوازن والے تو سارے کے سارے اپنے ہودج ، جانور اور بھیڑ بکریاں لے کر
حنین میں پہنچ گئے ہیں ۔ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور ارشاد
فرمایا'' یہ کل انشاء اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا مال غنیمت بن جائیں گے''۔
٨۔ حضرت عدی بن حاتم سے روایت (مختصراً) ہے وہ کہتے ہیں میں رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا تو آپ کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے آپ کے
پاس بھوک کی شکایت کی۔ پھر ایک اور آیا اس نے ڈاکہ زنی کی شکایت کی۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا ''اے عدی کیا تم نے ''حیرہ شہر کو دیکھا ہے
''میں نے کہا دیکھا تو نہیں سنا ہے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
فان طالت بک حیاۃ لترین الظعینۃ ترتحل من الحیرۃ حتی تطوف بالکعبۃ لا تخاف
احداً الا اللہ قلت فیما بینی و بین نفسی فأین دُعارِ طیّ الذین سقروا
البلاد و لئن طالت بک حیاۃ لتفتحن کنوز کسری قلت کسری بن ہرمز قال کسری بن
ھرمز ، ولئن طالت بک حیاۃ لترین الرجل یخرج مل کفہ من ذھب أوفضۃ یطلب من
یقبلہ منہ فلا یجد احداً یقبلہ منہ
''اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ اونٹ سوار عورت حیرۃ (کوفہ
کے قریب ایک پرانا شہر تھا) سے سفر شروع کرے گی یہاں تک کعبہ کا طواف کرے
گی اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا ۔ میں نے اپنے دل میں کہا
پھر قبیلہ طی کے ڈاکو کہاں جائیں گے جنہوں نے شہروں میں فساد برپا کر رکھا
ہے ۔ اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو کسری کے خزانے تم کھولوگے' میں نے کہا
۔کسریٰ بن ہرمز؟ آپ نے کہا ۔ہاں ۔ اگر آپ کی زندگی لمبی ہوئی تو آپ دیکھیں
گے ایک آدمی اپنی ہتھیلی بھر کے سونا یا چاندی نکلے گا اور تلاش کرے گا کہ
اسے کوئی ایسا آدمی مل جائے جو یہ سونا چاندی قبول کرے مگر اس کو ایسا کوئی
آدمی نہیں ملے گا ۔ (یعنی اس حد تک لوگ مالدار ہو جائیں گے)
قال عدی فرأیت الظعینۃ ترتحل من الحیرۃ حتی تطوف بالکعبۃ لاتخاف الا اللہ و
کنت فیمن امتتح کنوز کسری بن ہرمز ولئن طالت بکم حیاۃ لترون ما قال النبی
صلی اللہ علیہ وسلم ابوالقاسم یخرج مل کفہ ( بخاری ١/٥٠٧ قدیمی کتب خانہ
کراچی)
حضرت عدی نے کہا میں نے وہ وقت دیکھ لیا ہے کہ اونٹ پے سوار عورت حیرہ سے
چل کر کعبہ شریف کا طواف کرتی ہے ۔ اتنا امن ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے سوا
کسی کا خوف نہیں اور میںان لوگوں میں شامل تھا ، جنہوں نے کسریٰ کے خزانوں
کو کھولا ۔اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم دیکھ لو گے جو ابوالقاسم حضرت
محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ آدمی ہتھیلی بھر
سونا دینا چاہے گا اور اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ملے گا
٩۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:
[] کیف بکم اذا غدا احدکم فی حلۃ وراح فی اخری ووضعت بین ید صحفۃ و رفعت
اُخری و سترتم بیوتکم کما تسترالکعبہ انتم الیوم خیر منکم یومئذ (کنز
العمال ٣/٢٠٢ ،موسسۃ الرسالۃ بیروت)
[/u] اس وقت تم کیسے ہو گے جب تم میں سے ایک پہلے پہر ایک پوشاک پہنے گا
اور پچھلے پہر دوسری ۔اس کے سامنے ایک ڈش رکھی جائے گی اور دوسری اُٹھالی
جائے گی۔ تم اپنے گھروں پر یوں پردے لگاؤ گے جیسے کعبہ پر غلاف ڈالا جاتا
ہے ۔ تم آج اس دن سے بہتر ہو ۔
اس حدیث شریف میںجہاں مستقبل میں مسلم اُمت کے پاس مال و دولت کی فراوانی
کا تذکرہ فرمایا وہاں اس کی قباحتوں کا بھی ذکر کیا اور انہیں مال آ جانے
کے بعد اس کے صحیح استعمال کیلئے متوجہ کیا ۔ اس حدیث شریف میں ہمارے آج کے
لباسوں ، کھانوں اور رہائشوں کی مکمل خبر ہے ۔
١٠۔ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ
(ترمذی ١/٢٢٣، دارالفکر بیروت)
اندھیروں میںمساجد کی طرف پیدل چلنے والوں کو قیامت کے دن مکمل روشنی کی
بشارت دے دو ۔
١١۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان من اشد امتی لی حبا ناس یکونون بعدی یودّ احدھم لو رانی باھلہ ومالہ
(مشکوٰۃ ٥٨٣ ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
میری اُمت میں سے میرے ساتھ محبت کرنے میں زیادہ سخت وہ لوگ ہوں گے جو میرے
بعد آئیں گے ۔ ان میںسے کوئی یہ پسندکرے گا کہ اپنے اہل اور مال کے بدلے
ایک بار میری زیارت کرلے۔
پاک محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین فی الحال بشارت کے عنوان سے
بلاتبصرہ ذکر کر دئیے گئے ہیں ۔ ان سے کئی اسلامی عقائد کی جھلک بھی نمایاں
ہے۔ ان تمام میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے غیب کی خبریں
دیں جو سچی ثابت ہوئیں اور ہو ر ہی ہیں۔ یہ آپ کے کائنات کے بارے میں وسیع
مطالعہ اور علم پر دلالت کرتی ہیں۔ بعض احادیث سے آپ کی مقدس زبان کا شریعت
میں اور تقسیم امور میں جو منصب ہے وہ بھی اُجاگر ہوا ۔جنت و شہادت کے بارے
میں جیسے آپ کی زبان مبارک نے تقسیم کر دی وہی حتمی قرار پائی ، واقعی طور
پر آپ کی زبان مبارک کو کن کی کنجی کہنا زیب دیتا ہے جیسا کہ مجدد ملت حضرت
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے ۔ یہ ایک قطعی حقیقت ہے کہ بعد
والے کروڑوں سال کی بندگی سے بھی مقام صحابیت کو نہیں پا سکتے ہیں لیکن
محبوب اولین و آخرین نے حدیث محبت میں انہیںبھی عظیم بشارت سے نوازا ہ |