امام اعظم رضی اللہ عنہ کی نصحتیں امام ابویوسف رحمہ اﷲ کے نام

1۔ امام ابویوسف رحمہ اﷲکے نام:

امام ابویوسف رحمہ اﷲ کے نام امام اعظم رضی اﷲ عنہ کی وصیت جبکہ امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کی ذات سے رشد و ہدایت اور حسنِ سیرت و کردار کے آثار ظاہر ہوئے اوروہ لوگوں سے معاملات کی جانب متوجہ ہوئے۔امام اعظم رضی اﷲ عنہ نے انھیں یہ وصیت فرمائی کہ اے یعقوب ! ! !

حاکم کے ساتھ محتاط طرزِ عمل:
سلطانِ وقت کی عزت کرواور اس کے مقام کا خیال رکھو۔اور اس کے سامنے دروغ گوئی سے خاص طورسے پرہیز کرو۔اور ہر وقت اس کے پاس حاضر نہ رہوجب تک کہ تمہیں کوئی علمی ضرورت مجبور نہ کرے۔ کیونکہ جب تم اس سے کثرت سے ملو گے تو وہ تمھیں حقارت کی نظر سے دیکھے گااور تمھارا مقام اس کی نظروں سے گر جائے گا۔پس تم اسکے ساتھ ایسا معاملہ رکھو جیسا کہ آگ کے ساتھ رکھتے ہوکہ تم اس سے نفع بھی اٹھاتے ہو اور دور بھی رہتے ہو،اس کے قریب تک نہیں جاتے کیونکہ اکثر حاکم اپنی ذات اور اپنے مفادات کے علاوہ کچھ اور دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
تم حاکم کے قریب کثرتِ کلام سے بچو کہ وہ تمہاری گرفت کرے گا تاکہ اپنے حاشیہ نشینوں کو یہ دکھلا سکے کہ وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔اور تمھارا محاسبہ کرے گا تاکہ تم اس کے حواریوں کی نظروں میں حقیر ہو جاؤ۔بلکہ ایسا طرز عمل اختیار کرو جب اس کے دربار میں جاؤ تو وہ دوسروں کے مقابلے میں تمہارے رتبہ کا خیال رکھے۔اور سلطان کے دربار میں کسی ایسے وقت نہ جاؤ جب وہاں دیگر ایسے اہل علم موجود ہوں جن کو تم جانتے نہ ہو۔اس لئے کہ اگر تمھارا علمی رتبہ ان سے کم ہوگا تو ممکن ہے کہ تم ان پربرتری ثابت کرنے کی کوشش کرومگر یہ جذبہ تمھارے لئے نقصان دہ ہو گا۔اگر تم ان سے زیادہ صاحبِ علم ہو تو شاید تم ان کوکسی بات پر جھڑک دو اور اس وجہ سے تم حاکمِ وقت کی نظروں سے گر جاؤ۔
جب سلطانِ وقت تمھیں کوئی منصب عطا کرے تو اس وقت تک قبول نہ کرناجب تک یہ معلوم نہ ہو جائے کہ وہ تم سے یا تمھارے مسلک سے علم و قضایا کے بارے میں مطمئن ہے تاکہ فیصلوں میں کسی دوسرے مسلک پر عمل کی حاجت نہ ہو۔اور سلطان کے مقربین اور اس کے حاشیہ نشینوں سے میل جول مت رکھنا،صرف سلطانِ وقت سے رابطہ رکھنااور اس کے حاشیہ برداروں سے الگ رہناتاکہ تمھارا وقار اور عزت برقرار رہے ۔

عوام کے ساتھ محتاط طرزِ عمل:
عوام کے پوچھے گئے مسائل کے علاوہ ان سے بلاضرورت بات چیت نہ کیا کرو۔عوام الناس اور تاجروں سے علمی باتوں کے علاوہ دوسری باتیں نہ کیا کروتاکہ ان کو تمھاری محبت و رغبت میں مال کا لالچ نظر نہ آئے ورنہ لوگ تم سے بدظن ہوں گے اور یقین کر لیں گے کہ تم ان سے رشوت لینے کا میلان رکھتے ہو۔ عام لوگوں کے سامنے ہنسنے اور زیادہ مسکرانے سے باز رہواور بازار میں بکثرت جایا نہ کرو۔بےریش لڑکو ں سے زیادہ بات چیت نہ کیا کرو کہ وہ فتنہ ہیں البتّہ چھوٹے بچوں سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا کرو۔
عام لوگوں اوربوڑھے لوگوں کے ساتھ شاہراہ پر نہ چلو،اس لئے کہ اگر تم ان کو آگے بڑھنے دو گے تو اس سے علم دین کی بے توقیری ظاہر ہوگی اور اگر تم ان سے آگے چلو گے تو یہ بات بھی معیوب ہو گی کہ وہ عمر میں تم سے بڑے ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’ جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بزرگوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
کسی راہگذر پر نہ بیٹھا کرو اور اگر بیٹھنے کا دل چاہے تو مسجد میں بیٹھا کرو۔بازار وں اور مساجد میں کوئی چیز نہ کھایا کرو۔پانی کی سبیل اور وہاں پانی پلانے والوں کے ہاتھ سے پانی نہ پیو ۔مخمل ،زیور اور انواع و اقسام کے ریشمی ملبوسات نہ پہنو کہ اس سے غرور پیدا ہوتا ہے اور رعونت جھلکتی ہے ۔

ازدواجی آداب:
اپنی فطری حاجت کے وقت بقدرِ ضرورت گفتگوکے سوا بستر پر اپنی بیوی سے زیادہ بات نہ کرو ۔ اور اس کے ساتھ کثرت سے لمس ومَس اختیار نہ کرو،اور جب بھی اسکے پاس جاؤ تو اﷲ کے ذکر کے ساتھ جاؤ ۔اور اپنی بیوی سے دوسروں کی عورتوں کے بارے میں بات نہ کیا کروکہ وہ تم سے بے تکلف ہو جائیں گی اور بہت ممکن ہے کہ جب تم دوسری عورتوں کاذکرکرو گے تو وہ تم سے دوسرے مردوں کے متعلق بات کریں گی۔
اگر تمارے لئے ممکن ہو تو کسی ایسی عورت سے نکاح نہ کرو جس کے شوہر نے اس کو طلاق دی ہو اور باپ ، ماں یا سابقہ خاوند سے لڑکی موجود ہو ۔لیکن صرف اس شرط پر کہ تمھارے گھر اس کا کوئی رشتہ دار نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ جب عورت مال دار ہو جاتی ہے تو اس کا باپ دعویٰ کرتا ہے کہ اس عورت کے پاس جو بھی مال ہے وہ سب اس کا ہے اور اس عورت کے پاس امانت کے طور پر رکھا ہے ۔اور دوسری شرط یہ رکھے کہ جہاں تک ممکن ہو گا وہ بھی اپنے والد کے گھر نہیں جائے گی ۔
اور نکاح کے بعد تم اس بات پر راضی نہ ہو جانا کہ تم شبِ زفاف سسرال میں گزارو گے ورنہ وہ لوگ تمھارا مال لے لیں گے اور اپنی بیٹی کے سلسلہ میں انتہائی لالچ سے کام لیں گے ۔اور صاحبِ اولاد خاتون سے شادی نہ کرنا کہ وہ تمام مال اپنی اولاد کے لئے جمع کرے گی اور ان پر ہی خرچ کرے گی اس لئے کہ اس کو اپنی اولاد تمھاری اولاد سے زیادہ پیاری ہو گی ۔ تم اپنی دو بیویوں کو ایک ہی مکان میں نہ رکھنا ، اورجب تک دو بیویوں کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کی قدرت نہ ہو، دوسرا نکاح نہ کرنا ۔

امورِزندگی کی ترتیب:
(امورِ زندگی کی بہترین ترتیب یہ ہے کہ )پہلے علم حاصل کرو پھر حلال ذرائع سے مال جمع کرواور پھر ازدواجی رشتہ اختیار کرو ۔ علم حاصل کرنے کے زمانے میں اگر تم مال کمانے کی جد و جہد کرو گے تو تم حصولِ علم سے قاصر رہو گے ۔اور یہ مال تمہیں باندیوں اور غلاموں کی خریداری پر اکسائے گا اور تحصیلِ علم سے قبل ہی تمہیں دنیا کی لذتوں اور عورتوں کے ساتھ مشغول کر دے گا،اس طرح تمھارا وقت ضائع ہو جائے گا ۔ اورجب تمہارے اہل و عیال کی کثرت ہو جائے گی تو تمھیں ان کی ضروریات پوری کرنے کی فکر ہو جائے گی اور تم علم سیکھنا چھوڑدو گے ۔
اس لیے علم حاصل کرو آغازِ شباب میں جب کہ تمھارے دل و دماغ دنیا کے بکھیڑوں سے فارغ ہوں پھر مال کمانے کا مشغلہ اختیار کرو تا کہ شادی سے قبل تمہارے پاس بقدرِ ضرورت مال ہو کہ اسکے بغیر اہل و عیال کی ضروریات دل کو تشویش میں مبتلا کر دیتی ہیں لہٰذا کچھ مال جمع کرنے کے بعد ہی ازدواجی تعلق قائم کرنا چاھیے۔

سیرت و کردار کی تعمیر:
اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، ادائے امانت اور ہر خاص و عام کی خیر خواہی کا خصوصی خیال رکھو اور لوگوں کو عزّت دو تاکہ وہ تمھاری عزّت کریں ۔ان کی ملنساری سے پہلے ان سے زیادہ میل جول نہ رکھو اور ان سے میل جول میں مسائل کا تذکرہ بھی کروکہ اگر مخاطب اس کا اہل ہو گا تو جواب دے گا ۔اور عام لوگوں سے دینی امور کے ضمن میں علم کلام (عقائد کے عقلی دلائل) پر گفتگو سے پرہیز کرو کہ وہ لوگ تمھاری تقلید کریں گے اور علم کلام میں مشغول ہو جائیں گے۔
جو شخص تمھارے پاس استفتاء کے لئے آئے اس کو صرف اس کے سوال کا جواب دو اور دوسری کسی بات کا اضافہ نہ کرو ورنہ اس کے سوال کا غیر محتاط جواب تمھیں تشویش میں مبتلا کر سکتا ہے ۔ علم سکھانے سے کسی حالت میں اعراض نہ کرنا اگرچہ تم دس سال تک اس طرح رہو کہ تمھارا نہ کوئی ذریعۂ معاش ہو ،نہ کوئی اکتسابی طاقت ،کیونکہ اگر تم علم سے اعراض کرو گے تو تمھاری معیشت( گزربسر) تنگ ہو جائے گی ۔
تم اپنے ہر فقہ سیکھنے والے طالب علم پرایسی توجہ رکھو کہ گویا تم نے ان کو اپنا بیٹا اور اولاد بنا لیا ہے تا کہ تم ان میں علم کی رغبت کے فروغ کا باعث بنو۔اگر کوئی عام شخص اور بازاری آدمی تم سے جھگڑا کرے تو اس سے جھگڑا نہ کرنا ورنہ تمھاری عزت چلی جائے گی ۔اور اظہارِ حق کے موقع پر کسی شخص کی جاہ و حشمت کا خیال نہ کرو اگرچہ وہ سلطانِ وقت ہو۔
جتنی عبادت دوسرے لوگ کرتے ہیں اس سے زیادہ عبادت کرو، ان سے کمتر عبادت کو اپنے لئے پسند نہ کرو بلکہ عبادت میں سبقت اختیا رکرو۔کیونکہ عوام جب کسی عبادت کو بکثرت کر رہے ہوں اور پھر وہ دیکھیں کہ تمھاری توجہ اس عبادت پر نہیں ہے تو وہ تمھارے متعلق عبادت میں کم رغبت ہونے کا گمان کریں گے اور یہ سمجھیں گے کہ تمھارے علم نے تمھیں کوئی نفع نہیں پہنچایا سوائے اسی نفع کے جو اُن کو انکی جہالت نے بخشا ہے جس میں وہ مبتلا ہیں ۔

معاشرتی آداب:
جب تم کسی ایسے شہر میں قیام کرو جس میں اہلِ علم بھی ہوں تو وہاں اپنی ذات کے لئے کسی امتیازی حیثیت کواختیا رنہ کرو ،بلکہ اس طرح رہو کہ گو یا تم بھی ایک عام سے شہری ہو، تا کہ ان کو یقین ہو جائے کہ تمھیں ان کی جا ہ و منزلت سے کوئی سر و کار نہیں ہے ورنہ اگر اُنہوں نے تم سے اپنی عزت کو خطرے میں محسوس کیا تو وہ سب تمھارے خلاف کام کریں گے اور تمھارے مسلک پر کیچڑ اُچھالیں گے اور( ان کی شہ پر )عوام بھی تمھارے خلاف ہو جائیں گے اور تمھیں برُی نظر سے دیکھیں گے جس کی وجہ سے تم ان کی نظروں میں کسی قصور کے بغیر مجرم بن جاؤ گے ۔
اگر وہ تم سے مسائل دریافت کریں تو ان سے مناظرہ یا جلسہ گاہوں میں بحث وتکرار سے باز رہو اور جو بات ان سے کرو، واضح دلیل کے ساتھ کرو ۔اور ان کے اساتذہ کو طعنہ نہ دو، ورنہ تمھارے اندر بھی کیڑے نکالیں گے ۔ تمہیں چاھیے کہ لوگوں سے ہوشیار رہواور اپنے باطنی احوال کو اﷲ تعالیٰ کے لیے ایسا خالص بنا لو جیسا کہ تمھارے ظاہری احوال ہیں۔ اور علم کا معاملہ اصلا ح پذیر نہیں ہوتا تا وقتیکہ تم اس کے باطن کو اس کے ظاہر کے مطابق نہ بنا لو۔

آدابِ زندگی:
جب سلطانِ وقت تمھیں کوئی ایسا منصب دینا چاھے جو تمھارے لیے مناسب نہیں ہے تو اسے اس وقت تک قبول نہ کرو جب تک کہ تمھیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس نے جو منصب تمھیں سونپا ہے وہ محض تمھارے علم کی وجہ سے سونپا ہے ۔اور مجلس فکر و نظر میں ڈرتے ہوئے کلام مت کرو کیونکہ یہ خوفزدگی کلام میں اثر انداز ہو گی اور زبان کو نا کا رہ بنا دے گی ۔
زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے۔ چلنے کے دوران سکون و اطمینان سے چلو اور امورِ زندگی میں زیادہ عجلت پسند نہ بنو اور جو تمھیں پیچھے سے آواز دے اس کی آواز کا جواب مت دو کہ پیچھے سے آواز چوپایوں کو دی جاتی ہے۔ اور گفتگو کے وقت نہ چیخو اور نہ ہی اپنی آواز کوزیادہ بلند کرو۔ سکون اور قلتِ حرکت کو اپنی عادات میں شامل کرو تاکہ لوگو ں کو تمھاری ثابت قدمی کا یقین ہو جائے ۔
لوگوں کے سامنے اﷲ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ لوگ تم سے اس خوبی کوحاصل کر لیں۔ اور اپنے لئے نماز کے بعد ایک وظیفہ مقرر کر لو جس میں تم قرآن کریم کی تلاوت کرواور اﷲتعالیٰ کا ذکر کرو۔ اور صبرو استقامت کی دولت جو رب کریم نے تم کو بخشی ہے اور دیگر جو نعمتیں عطا کی ہیں ،ان پر اس کا شکر ادا کرو اور اپنے لئے ہر ماہ کے چند ایام روزہ کے لئے مقرر کر لو تا کہ دوسرے لوگ اس میں بھی تمھاری پیروی کریں۔
اپنے نفس کی دیکھ بھال رکھو اور دوسروں کے رویہّ پر بھی نظر رکھو تا کہ تم اپنے علم کے ذریعہ سے دنیا اور آخرت میں نفع اٹھاؤ ۔تمہیں چاھیے کہ بذاتِ خود خرید و فروخت مت کرو بلکہ اس کے لئے ایک ایسا خدمت گار رکھو جو تمھاری ایسی حاجتوں کو بحسن و خوبی پورا کرے اور تم اس پر اپنے دنیاوی معاملات میں اعتماد کرو۔ اپنے دنیاوی معاملات اور خود کو درپیش صورت حال کے بارے میں بے فکر مت رہوکیونکہ اﷲ تعالیٰ تم سے ان تما م چیزوں کے بارے میں سوال کرے گا۔
سلطانِ وقت سے اپنے خصوصی تعلق کو لوگوں پر ظاہر نہ ہونے دو اگرچہ تمھیں اس کا قرب حاصل ہو ورنہ لوگ تمھارے سامنے اپنی حاجتیں پیش کریں گے اور اگر تم نے لوگوں کی حاجتوں کو اس کے دربار میں پیش کرنا شروع کر دیا تو وہ تمھیں تمھارے مقام سے گرا دے گا اور اگر تم نے ان کی حاجتوں کی تکمیل کے لیے کو شش نہ کی تو حا جت مند تمھیں الزام دیں گے ۔

آدابِ وعظ ونصیحت :
غلط باتوں میں لوگوں کی پیروی نہ کرو بلکہ صحیح باتوں میں ان کی پیروی کرو ۔جب تم کسی شخص میں برُائی دیکھو تو اس شخص کا تذکرہ اس برُائی کے ساتھ نہ کرو بلکہ اس سے بھلائی کی امید رکھو۔اور جب وہ بھلائی کرے تو اس کی اس بھلائی کا ذکر کرو ۔البتہ اگر تمہیں اس کے دین میں خرابی معلوم ہو تو لوگوں کو اس سے ضرور آگاہ کر دو تاکہ لوگ اس کی اتباع نہ کریں اور اس سے دور رہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فر مائی ہے کہ فاسق و فاجر آدمی جس برائی میں مبتلا ہے اسے بیان کرو تاکہ لوگ اس سے بچیں اگرچہ وہ شخص صاحبِ جا ہ ومنزلت ہو۔
اس طرح جس شخص کے دین میں تم خلل دیکھو اسے بھی بیان کرو ، اور اس کے عزت و مرتبہ کی پرواہ نہ کرو۔ بلا شبہ اﷲ تعالیٰ تمھارا اور اپنے دین کا معین اور مددگار ہے ۔اگر تم ایک مرتبہ ایسا کر دو گے تو وہ لوگ تم سے ڈریں گے اور کوئی شخص دین میں نئے گمراہ کن افکار واعمال کے اظہار کی جسارت نہیں کرسکے گا۔
جب تم سلطانِ وقت سے خلافِ دین کوئی بات دیکھو تو اس کو اپنی اطاعت اور وفا داری کا یقین دلاتے ہوئے آگاہ کر دو ۔ یہ اظہارِ وفاداری اس وجہ سے ہے کہ اس کا ہاتھ تمھارے ہاتھ سے زیادہ قوی ہے۔چنانچہ تم اس طرح اظہارِ خیال کرو کہ جہاں تک آپ کے اقتدار اور غلبہ کا تعلق ہے میں آپ کا فرماں بردار ہوں بجز اس کے کہ میں آپ کی فلاں عادت کے سلسلہ میں جو دین کے مطابق نہیں ہے آپ کی توجہ مبذول کراتا ہوں۔ اگر تم نے ایک بار سلطان وحاکم کے ساتھ اس جرات سے کام لیا تو وہ تمھارے لئے کافی ہوگی ، اس لئے کہ تم اگر اس سے بار بار کہو گے تووہ شاید تم پر سختی کرے اور اس میں دین کی ذلت ہو گی ۔
اگر وہ ایک بار یا دو بار سختی سے پیش آئے اور تمھار ی دینی جد و جہد کا اورامر باالمعروف میں تمھاری رغبت کااندازہ کرے اوراس وجہ سے وہ دوسری مرتبہ خلافِ دین حرکت کرے تو اس سے اس کے گھر پر تنہائی میں ملاقات کرو اور دین کی رُو سے نصیحت کا فریضہ ادا کرو۔ اگر حاکمِ وقت مبتدع ہے تو اس سے دو بدو بحث کرو اگرچہ وہ سلطان ہے اور اس سلسلہ میں کتاب و سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جو تمھیں یا د ہو اسے یاد دلاؤ ۔ اگر وہ ان باتوں کو قبول کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ اﷲ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اس سے تمھاری حفاظت فرمائے۔
تم موت کو یاد رکھو اور اپنے ان اساتذہ کے لئے جن سے تم نے علم حاصل کیا ہے، استغفار کیاکرو اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو۔ قبرستان ، مشائخ اور بابرکت مقامات کی کثرت سے زیارت کیاکرو اورعام مسلمانوں کے ان خوابوں کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صالحین سے متعلق تمھیں سنائے جائیں، خواہ مسجد ہو یا قبرستان یعنی ہر جگہ توجہ سے سنو اور نفس پرستوں میں سے کسی کے پاس نہ بیٹھو۔سوائے اسکے کہ کسی کو دین کی طرف بلانا ہو ۔ کھیل کود اور گالم گلوچ سے اجتناب کرو اور جب مؤذن اذان دے تو عوام سے قبل مسجد میں داخل ہو نے کی تیاری کرو تاکہ عام لوگ اس بات میں تم سے آگے نہ نکل جائیں ۔
سلطانِ وقت کے قرب جوار میں رہائش اختیار نہ کر و ۔اگر اپنے ہمسائے میں کوئی برُی بات دیکھو تو پوشیدہ رکھو کہ یہ بھی امانت داری ہے اور لوگوں کے بھید ظا ہر نہ کرو اور جو شخص تم سے کسی معاملہ میں مشورہ لے تو اس کو اپنے علم کے مطابق صحیح مشورہ دو کہ یہ بات تم کو اﷲ کے قریب کرنے والی ہے اور میری اس وصیّت کو اچھی طرح یاد رکھنا کہ یہ وصیّت تمھیں اِنشاء اﷲ، دنیا اور آخرت میں نفع دے گی ۔

اخلاقِ حسنہ:
بخل سے اجتناب کرو کہ اس کی وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں گر جاتا ہے ۔ لالچی اور دروغ گو نہ بنو ۔حق و باطل (یا مذاق و سنجیدگی ) کو آپس میں خلط ملط نہ کیا کرو بلکہ تمام امور میں اپنی غیرت و حمیّت کی حفاظت کرو۔ اور ہرحال میں سفید لباس زیب تن کرو ۔ اپنی طرف سے حرص سے دوری اور دنیا سے بے رغبتی ظاہر کرتے ہوئے دل کا غنی ہونا ظاہر کرو۔ اور اپنے آپ کو مال دار ظاہر کرو اور تنگ دستی ظاہر نہ ہونے دو اگر چہ فی الواقع تم تنگ دست ہو۔
با ہمت بنو اور جس شخص کی ہمت کم ہو گی اس کا درجہ بھی کم ہو گا اور راہ چلتے دائیں بائیں توجہ نہ کرو بلکہ ہمیشہ زمین کی جانب نظر رکھو اور جب تم حمام میں داخل ہو تو حمام اور نشست گاہ کی اجرت دوسرے لوگوں سے زیادہ دو تاکہ ان پر تمھاری اعلیٰ ہمتی ظاہر ہو اور وہ تمھیں باعظمت انسان خیال کریں۔ اور اپنا سامانِ تجارت کاریگروں کے پاس جا کرخود ان کے حوالے نہ کیا کرو بلکہ اسکے لیے ایک با اعتماد ملازم رکھو جو یہ امور انجام دیا کرے اور درہم و دینار کی خرید و فروخت میں ذہانت سے کام لو یعنی لین دین میں چوکس رہو اور اپنے حق کے لئے کوشش کرو۔
نیز درہموں کا وزن خود نہ کیا کرو بلکہ اس معاملہ میں بھی کسی با اعتماد شخص سے کام لو۔ اور متاعِ دنیا جس کی اہل علم کے نزدیک کوئی قدر نہیں ہے، اسے حقیر جانو کہ اﷲ کے پاس جو نعمتیں ہیں وہ دنیا سے بہتر ہیں۔غرضیکہ اپنے دنیاوی معاملات کسی دوسرے شخص کے سپرد کر دو تاکہ تمھاری توجہ علم دین پر پوری طرح مر کوز رہے۔ یہ طرزِ عمل تمھاری ضروریات کی تکمیل کازیادہ محافظ ہے ۔
پاگلوں سے اور ان اہل علم سے جو حجت اور مناظرہ کے اسلوب سے بے بہرہ ہیں کلام نہ کرو ۔ اور وہ لوگ جوجاہ پرست ہیں اور لوگوں کے معاملات میں عجیب و غریب مسائل کا ذکر کرتے رہتے ہیں، وہ تمھیں کسی طرح نیچا دکھانے کے خواہش مند ہوں گے اور اپنی انا کے مقابلہ میں وہ تمھاری کوئی پرواہ نہیں کریں گے اگرچہ وہ سمجھ لیں گے کہ تم حق پر ہو ۔
اور جب بھی کسی بڑے رتبہ والے کے پاس جاؤ تو ان پر برتری حا صل کرنے کی کوشش نہ کرنا جب تک کہ وہ خود تمھیں بلند جگہ نہ عطا کر دیں تا کہ ان کی طرف سے تم کو کوئی اذیت نہ پہنچے ۔کسی قوم میں نماز کی امامت کے لئے پیش قدمی نہ کرو جب تک کہ وہ خود تمھیں ازراہِ تعظیم مقدم نہ کریں ۔اور حمام میں دوپہر یا صبح کے وقت داخل نہ ہو اور سیر گاہوں میں بھی نہ جایا کرو(کہ وہ عوام کی جگہیں ہیں) ۔

آدابِ مجلس:
سلاطین کے مظالم کے وقت وہا ں حاضرنہ رہا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں یقین ہو کہ اگر تم ان کو ٹوکو گے تو وہ انصاف کریں گے۔ بصورتِ دیگر وہ تمھاری موجودگی میں کوئی نا جائز کام کریں گے اور بسا اوقات انھیں ٹوکنے کی تمھیں قدرت و ہمت نہ ہوگی تو لوگ تمھاری خاموشی کی بناء پر گمان کریں گے کہ سلاطین کا وہ ناجائزکام بر حق ہے۔
علمی مجلس میں غصہ سے اجتناب کرو۔ اور عام لوگوں کو قصّہ کہانیاں سنانے کا مشغلہ اختیار نہ کرو کہ قصّہ گو کو جھو ٹ بولے بغیر چارہ نہیں۔ جب تم کسی اہل علم کے ساتھ علمی نشست کا ارادہ کرو اور وہ فقہی مجلس ہے تو اس میں بیٹھو اور وہاں ان باتوں کو بیان کرو جو مخاطب کے لئے تعلیم کا حکم رکھتی ہوں تا کہ تمھاری حاضر ی سے لوگوں کو یہ دھوکہ نہ ہو کہ تمھارا ہم نشیں کوئی عالم ہے جب کہ وہ در حقیقت عالم نہ ہو۔ اور اگر وہ شخص فتویٰ سمجھنے کا اہل ہے تو فتویٰ بیان کرو ورنہ ضرورت نہیں ہے۔ اور اس مقصد کے لئے کہیں نہ بیٹھو کہ کوئی دوسرا شخص تمھاری موجودگی میں درس دیا کرے بلکہ اس کے پاس اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بٹھا دو تا کہ وہ تمھیں اس کی گفتگو کی کیفیت اور اور اس کے علم کے بارے میں بتا دے۔
ذکر کی مجالس میں یا اس شخص کی مجلسِ و عظ میں حاضری نہ دو جو تمھاری جاہ و منزلت یا تمھاری جانب سے اپنے تزکیہ نفس کی نسبت سے مجلس قائم کرے بلکہ ان کی جانب اپنے شا گرد وں میں سے کسی ایک شخص کی معیت میں اپنے اہل محلہ اور اپنے عوام کو جن پر تمھیں اعتماد ہے متوجہ کرو ( کہ وہ وہاں جایا کریں) ۔ اور نکاح خوانی کا کام کسی خطیب کے حوالے کر دو اسی طرح نماز جنازہ اور عیدین کی امامت بھی کسی اور شخص کے حوالے کردو۔
( آخری بات یہ کہ ) ہمیں اپنی نیک دعاؤں میں فراموش نہ کرنا اور ان نصیحتوں کو میری جانب سے قبول کرو کہ یہ تمھارے اور دوسرے مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہیں
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1443792 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.