حضرت ضرار کی رہائی

رومی سواروں نے کہا کہ شاید آپ اس شخص کے متعلق پوچھتے ہیں جو ننگے بدن تھا اور جس نے ہمارے بہت سے سپاہیوں کو مارڈالا اور ہمارے سردار کے بیٹے کو بھی قتل کرکے ہمارے سردار کو رنج و غم میں ڈالا ہے۔ حضرت خالد نے فرمایا ہاں !ہاں! میں ان کے متعلق ہی پوچھ رہا ہو ں ،جلدی بتاؤ وہ کہاں ہیں؟ رومی سوارو ں نے کہا کہ ان کا حال یہ ہے کہ وردان نے ان کو ایک اونٹ پر بٹھاکر سو سواروں کی نگرانی میں ہرقل بادشاہ کے پاس حمص روانہ کیا ہے۔ حمص سے ان کو انطاکیہ بھیجا جائے گا۔ یہ کام سردار وردان نے اس لئے کیا ہے کہ وہ ہرقل بادشاہ کے سامنے اپنی بہادری اور شجاعت کا اظہار کرے کہ ہم نے اسلامی لشکر سے ایسے خونخوار شخص کو گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

حضرت ضرار کا سراغ ملنے پرحضرت خالد بن ولید بہت خوش ہوئے۔ آپ نے فوراً حضرت رافع بن عمیرہ طائی کو بلایا اورکہا کہ اے رافع تم ملک شام کے تمام راستوں سے اچھی طرح واقف ہو تمہاری تجویز اور تدبیر کی و جہ سے ہم نے ارض سماوہ سے ارکہ تک کا بغیر پانی کا علاقہ طے کیا تھا۔ اونٹوں کو ذبح کرکے اس کے پیٹ سے پانی نکال کر گھوڑوں کو پلانے اور اس کا گوشت مجاہدوں کو کھلانے کی تمہاری تد بیر بہت کامیاب رہی۔ آج پھر تم ایک مرتبہ ملک شام کے راستوں کی مہارت کا اعادہ کرو اور ضرار بن ازور کو چھڑاؤ۔ رومی سردار وردان نے حضرت ضرار کو سو سواروں کی نگرانی میں حمص کی جانب روانہ کیا ہے۔ لہذا تم کوئی درمیان سے جانے والے کم مسافت کے چھوٹے راستے سے ان کا تعاقب کرو اور وہ لوگ ضرار کو لے کر حمص پہنچیں اس سے قبل ان سے جاملو اور ضرار کو چھڑا لو۔

حضرت خالد بن ولید کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت رافع بن عمیرہ نے اسلامی لشکر سے ایک سو سوار چن لئے او رروانگی کا ارادہ کیا۔ حضرت خولہ بنت ازور کو خبر ملی تو وہ خوشی سے مچل گئیں۔ فوراً مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت خالد کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور عرض کی کہ اے سردار! آپ کو اس مقدس ذات پاک جو بہترین خلائق ہیں یعنی رسول مقبول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ ٰعلیہ وسلم کا واسطہ دیتی ہو ں کہ مجھ کو بھی اس جماعت کے ساتھ جانے کی اجازت عنایت فرماؤ تاکہ اپنے بھائی کو چھوڑانے میں اپنی خدمت پیش کروں۔ حضرت خولہ کو اجازت دے دی۔ لہذا وہ بھی حضرت رافع بن عمیرہ کے ساتھ روانہ ہوئیں وہ مسلمانوں کے پیچھے پیچھے تھوڑا فاصلہ رکھ کر چلتی تھیں ۔

جب یہ گروہ سلمینہ نامی مقام پر پہنچا تو حضرت رافع نے وہاں کے میدان میں اِدھر ُادھر گشت کرکے زمین پر گھوڑوں کے نشان قدم تلاش کیئے لیکن ان کو کہےں بھی گھوڑوں کے نشان قدم نظر نہ آئے۔ لہذا انھوں نے کہا کہ اے گروہ مسلمین بشارت ہو کہ رومی قافلہ اب تک یہاں نہیں پہنچا او راُمید ہے کہ وہ عنقریب آپہنچے۔ حضرت رافع نے تمام مجاہدو ں کو وادی الحیات کے مقام پر ایک کمین گاہ میں چھپا دیا او ر رومی قافلہ کی آمد کاانتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر بعد ایک غبار ظاہر ہوا اور ایک قافلہ نظر آیا۔حضرت رافع نے دیکھا کہ ایک سو رومی سوار حضرت ضرار کو اپنے بیچ میں گھیرے ہوئے آرہے ہیں۔ جیسے ہی وہ قافلہ قریب آیا سب سے پہلے حضرت خولہ نے کمین گاہ سے نکل کر تکبیر کہہ کر حملہ کیا اور ان کے بعد حضرت رافع او رمجاہدوں نے بآوازبلند تکبیر کہتے ہوئی حملہ کیا۔ یہ حملہ کیا تھا؟ ایک چٹکی بجانے کا معاملہ تھا۔ایک سو رومی کے مقابلے میں ایک سو مجاہد تھے ایک گھڑی میں تمام رومی مرے ہوئے زمین پر لیٹے پڑے تھے۔ تمام مجاہدوں نے او ر خصوصاً حضرت خولہ نے حضرت ضرار کو سلام و مرحبا کہا اور بہ سلامت رہائی پر مبارکباد پیش کی۔ حضرت ضرارنے تمام مجاہدین کا شکریہ اداکیا او ر خیریت پوچھی پھر مجاہدوں نے مقتول رومیوں کے گھوڑے، ہتھیار، کپڑے او رمال واسباب لے لئے۔

مجاہدین مال غنیمت ایک جگہ جمع کر رہے تھے کہ اچانک کچھ رومی سوار بیت لہیا کی جانب سے بھاگتے ہوئے آرہے تھے۔ حضرت رافع نے ان کو دیکھ کر گمان کیاکہ یہ لوگ بیت لہیا میں حضرت خالد کے لشکر کے ہاتھوں پٹ کر بھاگے ہیں۔ لہذا حضرت رافع او ر ان کے ساتھیوں نے آگے بڑھ کر ان پر حملہ کیا رومیوں نے کوئی مقابلہ نہیں کیا بلکہ ''لفون لفون ''پکارنے لگے لہذا تمام کو گرفتار کرلیا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں حضرت خالد بن ولید اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کاتعاقب کرتے ہوئے وہاں آپہنچے اورحضرت ضرار اورحضرت رافع وغیرہ سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی۔ حضرت رافع کی زبانی حضرت ضرار کی رہائی کی کہانی سن کر حضرت خالد بہت خوش ہوئے۔ حضرت ضرار کو بہ سلامت رہائی کی مبارک بادی دی اور حضرت رافع کی عظیم کارنامہ کی تعریف کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

حضرت رافع نے خالد سے ان کے یہاں آنے کا سبب پوچھا، تو بتایا کہ حضرت ضرار کی رہائی کے لئے، حضرت رافع کو روانہ کرنے کے بعد اسلامی لشکر نے ایسا سخت حملہ کیا کہ وردان کا لشکر پیٹھ دکھا کرہر چہار جانب بھاگنا شروع کیا۔ مجاہدوں نے مفرور رومیوں کا ہر جانب تعاقب کیا۔ وردان کہاں پوشیدہ ہوگیا وہ کسی کو پتہ نہ چلا۔ حضرت خالد نے اس کو بہت تلاش کیا تاکہ اس کو قتل کردیں لیکن وہ ہاتھ نہ آیا۔ کچھ رومی سوار وادی الحیات کے راستے سے بھاگے۔ شاید ان میں وردان ہی یہ گمان کرکے حضرت خالد نے ان کا تعاقب کیا تھا اور یہاں آپہنچے ۔

القصہ ! حضرت خالد بن ولید وہاں سے تمام ساتھیوں کے ہمراہ قلعہ ئدمشق پر واپس آئے اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو فتح کی خوشخبری اورتمام روداد سنائی اسلامی لشکر میں خوشی کی لہر دوڑگئی اور سب نے قلعہ دمشق کی فتح کا پختہ یقین کیا ۔

اسلامی لشکر دمشق میں مقیم تھا او رقلعہ کا محاصرہ جاری رکھاکہ بصرہ سے حضرت عبادبن سعید حضرمی حضرت خالد کے پاس آئے او راطلاع دی کہ رومیوں کا نوی ہزار کا لشکر بمقام ''اجنادین'' جمع ہواہے۔ حضرت خالد نے حضرت ابو عبیدہ سے مشورہ کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہمارا لشکر ملک شام میں متفرق مقامات میں منتشرہے۔ لہذا ان تمام کو خط لکھ دو کہ وہ ہم سے اجنادین میں ملیں اور ہم بھی اب قلعہئ دمشق کا محاصرہ ترک کرکے اجنادین کی جانب کوچ کریں-
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1443766 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.