بیماری گناہوں کا کفارہ

حضرت عامر رامی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) بیماریوں کا ذکر کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: “ مومن جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالٰی اسے اس بیماری سے نجات دیتا ہے تو وہ بیماری ( نہ صرف یہ کہ ) اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے ( بلکہ ) زمانہ آئندہ کے لئے باعث نصیحت ( بھی ) ہوتی ہے، یعنی بیماری اسے متنبہ کرتی ہے، ( چنانچہ وہ آئندہ گناہوں سے بچتا ہے ) اور جب منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اسے بیماری سے نجات دی جاتی ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑ دیا اور اونٹ نے یہ نہ جانا کہ مالک نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑ دیا ؟ ( یہ سن کر ) ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! بیماری کیا چیز ہے ؟ میں تو کبھی بھی بیمار نہیں ہوا ! آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارے پاس سے اٹھ کھڑے ہو تم ہم میں سے نہیں ہو۔ “ ( ابو داؤد )

فائدہ:
دنیا میں اللہ تعالٰی نے جس طرح صبح اور شام، دن اور رات بنائے ہیں، اسی طرح اللہ تعالٰی نے صحت اور بیماری، راحت و سکون اور دکھ سکھ بھی رکھے ہیں، یہ بیماری اور دکھ ہمیشہ اللہ تعالٰی کے قہر و غضب ہی کے طور پر نہیں آتی ہیں، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اور اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہوتے ہیں بلکہ بیماری کی سختی اور اس کے قلب و دماغ کو مجلٰی و مصفا کر کے خیر و بھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ مصیبت و تکلیف پر صبر کرے اور راضی برضا رہے تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ یہ مصیبت اس کے لئے اپنے دامن میں اللہ تعالٰی کی رضا و رحمت لے کر آتی ہے، البتہ اگر کوئی بندہ کسی مصیبت پر صبر و ضبط کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ دے اور ناخوش و خفا ہونے لگے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ مصیبت و بیماری اس کے حق میں رحمت نہیں ہے بلکہ عذاب خدا وندی ہے۔

مومن بیماری سے صحت پانے کے بعد متنبہ ہو جاتا ہے چنانچہ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے بیماری میں مبتلا ہوا تھا اس لئے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر نادم و شرمسار ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے، بلکہ آئندہ بھی گناہوں سے بچتا ہے، اس کے برعکس منافق کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب بیماری سے صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی مثال بالکل اس اونٹ کی سی ہوتی ہے کہ جسے اگر اس کا مالک باندھ دے تو یہ نہ جانے کہ مجھے باندھا کیوں ہے اگر چھوڑ دے تو یہ نہ سمجھے کہ مجھے چھوڑا کیوں ہے۔

چنانچہ منافق بیماری سے نصیحت و عبرت نہیں پکڑتا ہے اور نہ گناہوں پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے، اس لئے اس کی بیماری نہ تو اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ کرتی ہے اور نہ آئندہ زمانے میں اس کے لئے باعث نصیحت و عبرت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے بچ سکے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد کہ “ تم ہم میں سے نہیں ہو “ کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمارے اہل طریقہ سے نہیں ہو، کیونکہ جس طرح بیماری اور بلاؤں میں مبتلا ہوتے ہیں اس طرح تم مبتلا نہیں ہوئے ہو۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے صحت و عافیت عطا فرمائے اور بیماری و پریشانی کی صورت میں صبر کی اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
 
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1439314 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.