1857ئ ايك قيامت خيز تحريك تھي،
جس نے برطانوي افراد كو متزلزل كر ديا تھا۔ انگريز هندستان ميں افيون كي
گولي كھا كر نهيں آئے تھے، بلكه نهايت شعور اور چابك دستي كے ساتھ اپنے
مقاصد كي تكميل كے ليے انھوں نے يهاں قدم جمائے تھے۔ وه آئے تو تجارت كي
غرض سے تھے مگر جوں جوں اپني تجارت كو فروغ و ارتقا كي منزل پر ديكھتے رهے،
مسلمانوں كي عظمت و شوكت كا بھي مشاهده كرتے رهے۔ انھيں يقين هو گيا كه اس
ملك ميں حكومت و سلطنت كے استحكام كے ليے سب سے پهلے هميں قومِ مسلم كو ختم
كرنا هوگا۔ اپنے ان مقاصد سيئه كو پورا كرنے كے ليے انھوں نے مسلمانوں كي
تهذيب و تمدن اور مذهبي شعائر كو مجروح كرنا شروع كيا۔ اس طرح بغاوت و
عداوت كے شعلے ان كے دلوں ميں بھڑكنے لگے تو حالات كے پيش نظر علمائے حق
اهلِ سنت و جماعت نے ان كے ظلم و استبداد سے اهلِ اسلام كو بچانے كے ليے
تحريك چلائي اور ان سفيد چمڑي والوں كو سات سمندر پار واپس بھيجنے پر مجبور
كر ديا۔ حالات كے تقاضوں كے پيشِ نظر مجاهدينِ اسلام نے انگريزوں كے ناپاك
عزائم كو خاك ميں ملا ديا۔ علامه فضل حق خير آبادي نے فتوي جهاد ديا، علما
نے اس كي تصديق كي۔ اس طرح ملك بھر ميں هنگامه هوا، مسلمان بيدار هوئے،
انگريزوں كے تئيں ان كے جذبات ميں تيزي آئي ، اس طرح انقلاب كا آغاز هوا
اور آزاديِ هند كے ليے ملك بھر سے چھوٹے بڑے اپني طاقت بھر قربانياں ديتے
رهے، بالآخر 1947ئ ميں بھارت آزاد هوا اور ساكنانِ هند نے چين كي سانس لي،
مگر 1857ئ كے بعد بدله لينے كي غرض سے انگريزوں نے جو ظلم كيے وه قابلِ
مذمت هيں ۔
دهلي اور اس كے اطراف پر قبضه كے بعد انگريزوں نے جو روح فرسا اور انسانيت
سوز مظالم ڈھائے وه تاريخ كا ايك شرم ناك اور سياه ترين باب هے۔ اس كا صفحه
صفحه خون ميں شرابور اور سطر سطر فريادي هے۔ يهاں پر يه بات ذهن نشين رهے
كه 1857ئ كے خوني معركه سے پهلے انگريزوں كا هيڈ كوارٹر كلكته تھا، مگر
1857ئ كي جنگ ميں كاميابي كے بعد دهلي تبديل هو گيا اور دهلي پر قبضه كے
بعد انگريزوں نے دهلي كي كل آبادي كو شهر سے نكال ديا تھا۔ ايك ماه بعد
هندوو ں كو اپني دولت كا دس في صد حكومت كو دينے كے بعد داخله كي اجازت ملي،
جب كه مسلمانوں كا داخله سات ماه بعد اپريل1858ئ ميں اپني دولت كا پچيس في
صد ادا كرنے پر هي هو سكا۔ بهت سوں كي جائداديں ضبط كر لي گئيں ۔ لال قلعه
كي ديوار سے چار سو گز تك كي عمارتيں حفاظتي نقطه نظر سے مسمار كرنے كي وجه
سے سيكروں اپنے آشيانوں سے محروم هو گئے۔٬٬
﴿جنگ آزادي اور وطن كے جاں باز،ص:53﴾
دهلي جيسے بڑي آبادي والے شهر كے هنسي خوشي رهنے والے انسانوں پر انگريزوں
نے ظلم و جبر كے جو پهاڑ توڑے، اس كي ناقابلِ بيان داستان هے۔ مسرت و
شادماني كے ساتھ جو محلے آباد رهتے تھے، اب وهاں خوف اور دهشت كا عالم طاري
تھا، خموشي چھائي هوئي تھي، باهر نكلنے والوں كو تعفن آميز لاشيں نظر آتي
تھيں، انگريزوں كے كمانڈر لارڈ رابرٹس نے اس وقت كے دهلي شهر كي منظر كشي
ان الفاظ ميں كي هے:
٫٫صبح كي ابتدائي روشني ميں دهلي سے كوچ كا وه مرحله بڑا هي درد ناك تھا۔
لال قلعه كے لاهوري دروازے سے نكل كر هم چاندني چوك سے گزرے۔ دهلي حقيقتاً
شهرِ خموشاں معلوم هوتا تھا۔ همارے اپنے گھوڑوں كي سموں كي آواز كے سوا
كوئي آواز كسي سمت سے نه آتي تھي۔ ايك بھي زنده مخلوق هماري نظر سے نه گزري۔
هر طرف نعشيں بكھري پڑي تھيں، هر نعش پر وه حالت طاري تھي جو موت كي كش مكش
نے طاري كر دي تھي۔ هر نعش تجزيه و تحليل كے مختلف مراحل ميں تھي۔ هم چپ
چاپ چلے جا رهے تھے، يا سمجھ ليجيے كه بے اراده زيرِ لب باتيں كر رهے تھے
تاكه انسانيت كے ان دردناك باقيات كي استراحت ميں خلل نه پڑے۔ جن مناظر سے
هماري آنكھيں دو چار هوئيں وه بڑے هي رنج افزا تھے۔ كهيں كوئي كتا كسي نعش
كا برهنه عضو جھنجھوڑ رها تھا، كهيں كوئي گدھ همارے قريب پهنچنے پر اپني
گھناو ني غذا چھوڑ كر پھڑپھڑاتے پروں سے ذرا دور چلا جاتا، ليكن اس كا پيٹ
اتنا بھر چكا تھا كه اڑ نه سكتا تھا۔ اكثر حالتوں ميں مرے هوئے زنده معلوم
هوتے تھے۔ كسي كے هاتھ اوپر اٹھے هوئے تھے، جيسے كسي كو اشاره كر رها هو۔
در اصل يه پورا منظر اس درجه بھيانك تھا كه بيان ميں نهيں آسكتا۔ معلوم
هوتا تھا كه هماري طرح گھوڑوں پر بھي خوف طاري تھا، اس ليے وه بھي بدك رهے
تھے اور نتھنے پھلا رهے تھے۔ پوري فضا ناقابلِ بيان حد تك بھيانك تھي جو
بڑي مضر بيماري اور بدبو سے لبريز تھي۔٬٬
﴿جنگ آزادي اور وطن كے جاں باز،ص:54﴾
انگريزوں كے مظالم ناگفته به تھے۔ آج بھي ان كو پڑھ اور سن كر كليجه منه
كو آتا هے۔ جنگ آزادي كا پر جوش انتقام لينے كے ليے ان كے كرتوتوں كي ايك
طويل داستان هے ۔ چوں كه انگريزوں كو معلوم تھا كه اس انقلاب ميں اهلِ
اسلام پيش پيش هيں، اس ليے مسلمانوں پر ان كا غصه اور تيز تھا اور اس درجه
وه جلال ميں تھے كه كثير تعداد ميں لاشوں كو ديكھ كر بھي ان كے دل ميں رحم
كا جذبه پيدا نه هوسكا بلكه وه برابر نئے نئے طريقوں سے قتل و غارت گري سے
نه چوكے۔ انگريز فوجي افسر هنري كوٹن لكھتا هے:
٫٫دهلي دروازه سے پشاور تك گرينڈ ٹرنك روڈ كے دونوں هي جانب شايد هي كوئي
خوش قسمت درخت هوگا جس پر انقلاب 1857ئ كے رد عمل اور اسے كچلنے كے ليے هم
نے ايك يا دو عالمِ دين كو پھانسي پر نه لٹكايا هو۔ ايك اندازے كے مطابق
تقريباً بائيس هزار علمائے كرام كو پھانسي دي گئي۔٬٬﴿ايسٹ انڈيا كمپني اور
باغي علما، ص:23﴾
دهلي ميں خوں ريزي كے عادي انگريز سپاهيوں نے جوش انتقام كوتسكين دينے كے
ليے پھانسي دينے والے جلادوں كو رشوت دے كر اس بات پر آماده كيا تھا كه وه
پھانسي كے تختے پر مجرم كو زياده دير لٹكتا رهنے ديں تاكه لاش تڑپنے كي درد
ناك كيفيت ديكھ كر ، جسے وه ٫٫ناچ٬٬ كهتے هيں، اپني خوں خوار طبائع كے ليے
دلچسپي كا سامان بنا سكيں ۔جھجھر كے نواب صاحب كو جان دينے ميں بهت عرصه
لگا۔٬٬
پھانسياں دينے كے ليے رضاكارانه ٹولياں بنائي گئي تھيں ، جنھوں نے اس مقصد
كي تكميل كے ليے ديهات كا دوره كيا، اس حالت ميں كه ان كے پاس پھانسي دينے
كا سامان بھي مكمل نه تھا اور نه پھانسي دينے كے طريقے سے پوري طرح واقفيت
تھي۔ چنان چه ان ميں ايك ٫٫شريف٬٬آدمي اپني كاميابي كا فخريه اظهار كرتاتھا
كه ٫٫هم پھانسي ديتے وقت عام طور پر آم كے درخت اور هاتھي كو استعمال كرتے
تھے ۔ يعني ملزم كو هاتھي پر بٹھا كر درخت كے نيچے لے جاتے اور رسه ڈال كر
هاتھي كو هنكايا جاتا تھا ۔ يهاںتك كه ملزم اس طرح تڑپتا اور جانكني كے
عالم ميں اكثر اوقات انگريزي زبان كے حرف Sيا هندسه8كي دلچسپ شكل بن كر ره
جاتا۔٬٬
﴿جنگ آزادي نمبر، راشٹريه سهارا، دهلي،ص:9﴾
دهلي ميں انگريزوں كے مظالم كي منظر كشي كرتے هوئے ايك اور انگريز لكھتا
هے:
٫٫ميں نے دهلي كي گليوں ميں چلنا پھرنا ترك كر ديا هے كيوں كه كل جب ايك
افسر اور ميں خود بيس جوانوں كو گشت كے ليے باهر لے گئے تو هم نے چوده مرده
عورتوں كو ديكھا ، ان كے شوهروں نے ان كے گلے كاٹ ديے تھے اور انھيں شالوں
ميں لپيٹ كر لٹا ديا تھا ۔ هم نے وهاں ايك آدمي كو پكڑا، جس نے هميں بتايا
كه ان عورتوں كو اس ڈر سے قتل كيا گيا هے كه كهيں يه انگريزوں كے چنگل ميں
گرفتار نه هو جائيں۔ پھر اس نے ان كے خاوندوں كي لاشيں هميں
دكھائيں۔٬٬﴿اداريه ماه نامه اشرفيه، مبارك پور، جنوري2007﴾
انگريز جنرل لكھتا هے:
٫٫هم نے ايك بڑے گاؤں ميں آگ لگا دي، جب گاؤں كے باشندے آگ سے بچنے كے ليے
بھاگے تو هم نے انھيں گوليوں سے اڑا ديا۔٬٬
سر جان نے اعترافِ حقيقت كرتے هوئے لكھا:
٫٫انگريزوں نے انتقام كے جوش ميں اندھے هو كر نه عورتوں كو بخشا نه بچوں
كو بلكه بے گناهوں كا اس طرح قتل عام كيا گيا ، جس طرح ان كو تهِ تيغ كيا
گيا جو اس بغاوت كے ذمه دار تھے۔ كالے هندستانيوں كو گولي سے اڑانے ميں
انتقام پسند انگريزوں كو ايك لطف سا آتا تھا۔٬٬﴿جنگ آزادي اور وطن كے جاں
باز،ص:56﴾
1857ئ ميں انگريزوں كے جوشِ انتقام كے نتيجے ميں علما سے لے كر عوام تك
سيكڑوں هزاروں نهيں بلكه لاكھوں انسانوں كے خون بهائے گئے، جن كو الگ الگ
تحقيقات سے تاريخِ آزادي ميں بيان كيا گيا هے۔ ان گورے جسم والوں كے
بهيمانه اور سفاكانه انداز كو ديكھ كر اور پڑھ كر آج بھي آنكھيں اشك بار هو
جاتي هيں۔ عوام الناس تو تھے هي ، علماے كرام كے ساتھ ان كے قابلِ مذمت و
حقارت سلوك كے بارے ميں پڑھنے كے بعد جسم كے رونگٹے كھڑے هو جاتے هيں۔
جهاد حريت ميں جو علما شريك هوئے يا جن پر كسي طرح سے شركت كا شبهه هوا،
انھيں تخته دار پر لٹكا ديا گيا۔ ان كي جائداد اونے پونے نيلام كي گئي ،
املاك تباه كيے گئے۔ مكانات زمين بوس كروا كے هل چلوائے گئے، جلا وطني،
كالا پاني كي قيد بامشقت برداشت كرني پڑي۔ جيل خانه كي آهني سلاخوں ميں
جكڑے گئے، ته خانوں ميں بے آب و دانه تڑپا تڑپا كر مارے گئے ، دهكتے هوئے
انگاروں پر لٹائے گئے، گرم گرم تيل كے كڑاهوں ميں ڈالے گئے، گھوڑوں كي
ٹاپوں سے روندائے گئے، غرض كه مصائب و آلام كے تمام حربے ان پر آزمائے گئے
۔ مگر واه رے همت مومنانه ، ان ميں سے ايك بھي قدم پيچھے نهيں هٹے۔ ان روح
فرسا مناظر كا چشم ديد گواه انگريز مورخ ايڈورڈ ٹامسن اپنا مشاهده بيان
كرتے هوئے لكھتا هے:
٫٫1864ئ سے 1867ئ تك انگريزوں نے علما كو ختم كرنے كا فيصله كيا اور يه
تين سال هندستان كي تاريخ كے بڑے الم ناك سال هيں۔ ان تين سالوں ميں
انگريزوں نے 14 هزار علما كو تخته دار پر لٹكا ديا۔ دلي كے چاندني چوك سے
خيبر تك كوئي ايسا درخت نه تھا جس پر علما كي گردنيں نه لٹكي هوں۔ علما كے
جسم كو تانبے سے داغا گيا، سور كي كھال ميں لپيٹ كر جلتے هوئے تندور ميں
ڈالا گيا، هاتھيوں پر كھڑا كر كے درختوں سے باندھ كر هاتھيوں كو نيچے سے
چلا ديا گيا۔٬٬ ﴿حواله مذكور﴾
ايك اندازے كے مطابق اس جنگ ميں پانچ لاكھ مسلمانوں كو پھانسياں دي گئيں۔
جو بھي معزز مسلمان انگريزوں كے هاتھ لگ گيا، اس كو هاتھي پر بٹھايا گيا
اور وهي سلوك اس كے ساتھ كيا گيا جو مندرجه بالا سطور ميں آپ ملاحظه كر
چكے۔ ظلم و بربريت كا يه ننگا ناچ چشم اشك بار نے ماضي ميں كبھي نه ديكھا
هوگا۔
امريش مشرا اپني كتاب٫٫War of Civilization: India, South Asia, Europe
and the World 1857-1867٬٬ ميں لكھتا هے:
٫٫1857ئ ميں جب انگريزوں كو پته چلا كه ان كي شكست يقيني هے تو انھوں نے
اپنے قتل عام كے پلان كو انجام ديا۔ ان كي فتح كا واحد راسته پورے شهروں
اور گاؤں كو نيست و نابود كرنا تھا۔ بڑے پيمانے پر هندستاني مرد و خواتين
اور بچوں كا قتل كرنا تھا۔٬٬
﴿بحواله روز نامه اردو ٹائمز ممبئي، يكم جون 2007ئ﴾
مجاهدينِ آزادي نے ظلم و استبداد برداشت كرنے كے جو نمونے پيش كيے وه ان
هي كا حصه تھا۔ انگريزوں كے جبر و استبداد كي يه هلكي سي جھلك تھي ورنه
انھوں نے اس سے بھي دردناك مظاهرے كيے تھے ۔ وطن عزيز كي آزادي كے ليے
علمائے اهلِ سنت كي قربانياں فراموش نهيں كي جا سكتيں۔ آج اس انقلاب كو
ڈيڑھ سو سال پورے هو چكے هيں، اس ليے ضرورت اس بات كي هے كه هم تحريكِ
آزادي كے شهدا كو ياد كريں اور ان كے زريں كارناموں اور جاں نثاريوں سے
عوام الناس بطور خاص نوجوان نسل كو واقف كرائيں۔ آج هماري وفاداريِ وطن كو
شك و شبهه كي نگاه سے ديكھا جا رها هے ۔ ايسے حالات ميں اور زياده ضرورت هے
كه هم آزادي كي تحريك كے تئيں مسلمانوں كے جذبات كو تاريخ كے حوالے سے
متعارف كرائيں اور ثابت كر ديں كه
عزت سے هم بھي جينے كے حق دار هيں يهاں
شامل همارا خون بھي قربانيوں ميں هے |