جنت جس کے قدموں میں

ٓٓایک بوڑھی عورت جوکہ رات کو اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور اس میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکے۔وہ عورت اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ پانی کا ایک گلاس لا کرمیرے بستر کے پاس رکھ دو اگر رات کو پیاس محسوس ہوئی توپی لوں گی۔وہ بیٹا جاتا ہے اور پانی کا ایک گلاس لا کر اپنی ماں کے پاس رکھ دیتاہے۔رات کے وقت ماں کو پانی کی طلب محسوس ہوتی ہے ا ور وہ پانی پینے کے لئے اٹھتی ہے تو وہ جان بوجھ کر تھوڑا سااپنے بیٹے کے بستر پر بھی گرا دیتی ہے اور دوسری طرف منہ کر کے سو جاتی ہے ۔ بستر گیلا ہونے کی وجہ سے بیٹے کو کافی پریشانی اٹھانا پڑتی ہے اوربیٹا کروٹ بدل کر سو جاتا ہےجب صبح ہوتی ہے توبیٹا ماں سے کہتا ہے ماں میں تیری وجہ سے رات بھر نہیں سو سکا۔ ماں جواب میں مسکراتی ہے اور کہتی ہے کہ تجھے یاد بھی نہیں کہ تجھے پالنے کی خاطر کتنی راتیں میں نے بن سوئے گزار دی تھیں۔ پوری پوری رات تیرا گیلا بستر اور گیلے کپڑے تبدیل کرتی تھی اور خود اسی گیلے بستر پر ہی سو جاتی تھی اور کبھی تمہاری طرف پیٹھ کر کے نہیں سوئی تھی ۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اپنی ماں کو ایک دفعہ پیار اور شفقت سے دیکھنے کا ثواب ایک حج کے برابر ہے۔ یہ ہے ماں جس کے رتبے کا ذکر قرآن مجید میں بھی بہت زیادہ ہے اور نبی کریم ﷺکی زندگی میں بھی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ”جنت تمھاری ماں کے قدموں تلے ہے“۔ ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت نبی کریم سے ملنے کے لیے آتی ہے اور آپ ﷺان کو دور سے دیکھ کر احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی چادر مبارک اس کے لیے بچھا دیتے ہیں۔ اس کے جانے کے بعد جب پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ میری رضا ئی ماں حلیمہ سعدیہ ؓ تھیں۔ ایک انسان چاہے دنیا کے کسی کونے میں ہو اس کے والدین کا عکس اس میں نمایاں دکھائی دیتا ہے اور خاص طور پر اس کی پرورش وتربیت میں سب سے اہم ترین کردار اس کی ماں ادا کرتی ہے اس کے رہن سہن، ہم آہنگی،رحمدلی غرض ہر چیز میں اس کی ماں کا روپ جھلکتا ہے۔

کائنات میں ماں ایک ایسی شکل میں موجود ہے جس کا رتبہ نہ تو کسی آسمانی مخلوق کو حاصل ہے ا ور نہ ہی کسی زمینی مخلوق کو ایک انسان جب اس دنیا سے مایوس ہو جاتا ہے اور اسکا حل تلاش کرنے کے لئے محنت شروع کرتا ہے تو اسکے سامنے اسکے والدین کا چہرہ آ جاتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جب وہ اس دنیا میں آیا تھا تو وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر تھا صرف اسکے والدین ہی اسکا واحد سہارا تھے جو کہ اس کے دل کی آواز سن سکتے تھے۔ بچے کی بھوک پیاس، گرمی، سردی اور بیماری کا احساس صرف والدین کو ہی ہوتا ہے۔ اور جب اس نے چلنا شروع کیا تو بار بار گر جاتا تھا تو اس دنیا میں صرف اس کے والدین ہی تھے جنہوں نے اسے چلنا سکھایااور گرتے کو سنبھالا۔

ذرا سوچئے! اگر آج ہم اپنے والدین سے تلخ کلامی کرتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو کہ اپنی اولاد کی اصل طاقت کو پہچان سکتی ہے اور اگر کسی جگہ اولاد بھٹک بھی جاتی ہے تو ماں ہی اس کو راہ راست پر لانے میں اہم کردار سر انجام دیتی ہے۔

اگر آج میں آپ کے ساتھ ہوں تو صرف اور صرف اپنی ماں کی دعاﺅں کی وجہ سے۔اگر آپ کے ساتھ کچھ share کر رہا ہوں اور میری قلم میں طاقت ہے تو یہ میری ماں کی دعا اور بے پناہ بھروسے کا نتیجہ ہے۔

میری اتنی اوقات کہاں کہ اس عظیم ہستی کے بارے میں کچھ کہہ سکوں۔ ماں ایک سمندر ہے اور میں ایک قطرہ بھی نہیں۔ میرا ان کی شان کچھ کہنا آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہے۔ماںجو کہ بچے کو جنم دیتی ہے ۔ اسے گرمی سردی سے بچاتی ہے ، اپنے بچے کی ہر خواہش پوری کرتی ہے اور ہر مشکل گھڑی میں اسکا ساتھ دیتی ہے۔ غوروفکر والی بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنی ماں کے تابعدار ہیں ؟ کیا ہم انہیں وہ عزت و احترام دے رہے ہیں جس کی وہ مستحق ہے؟ کیا ہم ان کے خواب پورے کرتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب ہماری ماں ہم کو آواز دیتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ آتا ہوں تھوڑا مصروف ہوں۔ کیا ہمیں وہ یاد نہیں کہ جب ہم روتے تھے تو ہماری ماں اپنا سارا کام چھوڑ کر بھاگی چلی آتی تھی۔ المختصر ہم سب کا اولین فرض ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیارکریں جیسے وہ ہمارے ساتھ بچپن میں کرتے تھے۔ قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے جس کا مفہوم کچھ یہ ہے کہ ”جب وہ دونوں(والدین)برھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہا جائے“۔
جنے اپنی ماں نوں ستایا
اونہے کدی سکھ نہ پایا
muhammad sajjad virk
About the Author: muhammad sajjad virk Read More Articles by muhammad sajjad virk: 16 Articles with 18882 views I am student of master in mass communication.. View More