عالمی سطح پرلڑکیوں کی کم عمری
میںشادیاںمسلسل بحث کا موضوع رہی ہیں۔ایک طبقہ اگر اس کے حق میں ہے تو
دوسرا اس کے خلاف دعوت دیتا رہا ہے ۔ہند-پاک میں رائج قانون کے مطابق شادی
کے لئے لڑکی کی کم سے کم عمر سولہ سال جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال مقرر کی گئی
ہے نیز لڑکے اور لڑکی کی رضامندی حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کم عمری
میںشادیوں کا تجربہ دنیا کے کئی خطوں میں رہنے والی لڑکیوں میں ایک
جیسانہیں ہے۔ بعض لڑکیوں کی مرضی معلوم کئے بغیر اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے
شادی کر دی گئی تو ایسی لڑکیوں کی بھی کمی نہیں ہے جنھوں نے اپنی رضا اور
رغبت سے اسے لبیک کہا ۔اسے حق تسلیم کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ کم
عمری کی شادی کے خلاف بات کرتے ہیں یا تو وہ نادان دوست ہیں یا عیار دشمن۔
جو ادارے لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کے خلاف لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں ان
کو مغرب کی تیرہ سالہ غیر شادی شدہ حاملہ لڑ کیاں نظر نہیں آتیں؟ذرائع پر
یقین کریں تو پاکستان نے بچوں کے حقوق کے اقوام متحدہ کے کنونشن پر 1990میں
دستخط کئے تھے جس کے تحت بچپن کی شادی پر پابندی ہے لیکن پاکستان ہی نہیں
دنیا کے کئی ملکوں میں اب بھی کم عمری میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج موجود
ہے۔
اس سلسلے میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی پاکستانی کی غیر
سرکاری تنظیم ’سپارک‘ کا کہنا تھا کہ ملک میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان
بدستور بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا موجب بنا ہوا ہے جس سے خاص طور
پر نوجوان ماؤں اور ان کے بچوں کی جسمانی وذہنی صحت بری طرح متاثر ہو رہی
ہے۔میڈیاسے انٹرویو میں تنظیم کے نیشنل پروگرام مینیجر امتیاز احمد نے
اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں ایک تہائی بچوں کی شادیاں کم عمری میں کی جا
رہی ہیں۔تنظیم کے مطابق اس کی وجوہات میں غربت اور کم علمی کے علاوہ
’سووَرہ‘ یعنی شادی کیلئے لڑکی دے کر کسی جھگڑے کو نمٹانا ’وٹا سٹا‘ یعنی
ادلے بدلے کی شادی اور ’ولوار‘ یعنی پیسوں کے بدلے دلہن خریدنے کی رسوم
شامل ہیں۔امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادیاں جہاں بچوں کے
بنیادی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے وہیں یہ مختلف طویل اور قلیل مدتی
مسائل کو بھی جنم دیتی ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان میں زچگی کے
دوران ہلاک ہونے والی حاملہ ماؤں میں اکثریت ایسی لڑکیوں کی ہے جن کی عمریں
اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہیں اور وہ بہت چھوٹی عمر میں ہی حاملہ ہو جاتی
ہیں۔تنظیم کے سربراہ ارشد محمود کا کہنا تھاکہ پاکستان میں کم عمری کی
شادیوں کے خلاف موجودہ قانون میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر سولہ جبکہ
لڑکے کی اٹھارہ سال ہے تاہم انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ
قانون پر سختی سے عمل در آمد نہیں ہو رہا اور چار سے چھ سال تک کی عمر کے
بچوں کی شادیاں بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
یہ صرف ترقی پذیر ملکوں میں ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ حال ہی میں ریاست کیلی
فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں اسی موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔جو لوگ لڑکیوں
کی کم عمری کی شادی کے خلاف ہیں ان کو شاید لڑکیوں کی نفسیات کا علم نہیں۔
لڑکیاں جب 12 یا 13سال کی ہوتی ہیں تو ان کے اندر چاہنے اور چاہے جانے کی
خواہش بیدار ہو جاتی ہے۔ یہ عمر جس کو ٹین ایجTeen Age کہتے ہیں لڑکیوں کی
زندگی میں سب سے زیادہ خطرناک عمر ہوتی ہے۔ یہ وقت ان لڑکیوں کی مائیں
پھونک پھونک کر گزارتی ہیں۔ جو لڑکے لڑکیاں دوستی کرتے ہیں ان میں کافی
تعداد اسکولوں میں زیر تعلیم لڑکیوں کی ہوتی ہے جن کی عمر تیرہ سے سولہ سال
ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ حلال دروازہ یعنی شادی کاانعقاد بند کیا جائے گا تو
لوگ حرام دروازہ کھولنے کی کوشش کریں گے۔ اس لئے بہتر نہیں کہ معاشرے سے بے
حیائی اور بچوں کو بے راہ روی سے بچانے کیلئے ان کی کم عمری میں شادی کردی
جائے۔جو لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی کم عمری کی شادی پر تنقید کرتے ہیں
وہ بھول جاتے ہیں۔ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہ کے ساتھ برتاؤ کیسا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عا ئشہ
رضی اللہ عنہ کو نہ صرف بے پناہ محبت دی بلکہ ان کی خواہشات جو ان کی عمر
کا تقاضا تھی کو پورا کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ خود فرماتیں ہیں کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر وہ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کے درمیان دو مرتبہ دوڑ کا مقابلہ
ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ کو حبشیوں کا
نیزہ بازی کا کرتب دکھایا۔ان سب باتوں کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے حضرت عائشہ کی تعلیم و تربیت خود فرمائی جبکہ ہمارے معاشرے میں
شادی کو محض ذمہ داری اور بوجھ بنادیا گیا ہے اور شادی کے بعد لڑکیوں پر بے
جا ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کو اپنی پڑھائی کو خیر
باد کہنا پڑتا ہے۔ بیوی محبت کرنے اور کروانے کیلئے ہوتی ہے محض کھانا
پکانے اور کپڑے دھونے کیلئے نہیں۔ شادی کے بعد لڑکیوں کے اوپر ان کی عمر
اوران کی صلاحیتیوں کے مطابق ذمہ داریاں ڈالیں۔ ان کو پڑھائی مکمل کرنے
کیلئے مواقع فراہم کریں اور ان کی تربیت کریں۔ ان کی خواہشات جو ان کی عمر
کا تقاضا ہوں ان کو پورا کریں۔ایسی صورت میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی
خود ان کیلئے اور معاشرے کیلئے مفید ثابت ہونگی۔
ان تمام حقائق کے باوجود لاس اینجلس میںمنعقد کانفرنس کے دوران ہندوستان سے
تعلق رکھنے والی برطانیہ کی شہری جسویندر سنگھارانے یہ تجربہ اپنی بڑی
بہنوں کے ساتھ دوہرائے جاتے دیکھا ہے جنہیں پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے تک
اسکول سے نکال کر ایسے اجنبیوں سے بیاہا گیا جنہیں انہوں نے پہلے کبھی
دیکھا تک نہیں تھا۔جسویندر کا کہنا ہے کہ میں چودہ سال کی تھی ، جب میری
والدہ نے مجھے ایک شخص کی تصویر دکھا کر کہا کہ اس کے ساتھ تمہاری شادی آٹھ
سال کی عمر میں طے کر دی گئی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا۔اپنی بہنوں کے
بر عکس جسویندر نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کوہی چھوڑ دیا۔سنگھارا نے
اپنے ان تجربات پر ایک کتاب لکھی ہے اور وہ لوگوں کو بتا رہی ہیں کہ ترقی
پذیر ملکوں میں ہی نہیں ترقی یافتہ ملکوں میں بھی روایتی سوچ کے حامی اب
بھی جبری شادیوں کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ
برطانیہ میں جنوبی ایشیا ءسے آکر آباد ہونے والے تارک وطن خاندانوں میں یہ
کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ کم عمر لڑکی کی شادی اپنے ملک کے کسی شخص سے
اس لئے کر دی جائے تاکہ اسے برطانوی شہریت مل جائے گی۔پاکستان سمیت جنوبی
ایشیا ، لاطینی امریکہ اور افریقی ملکوں میں ، جہاں ایسے رواج اب تک موجود
ہیں ، ماہرین کے مطابق عزت اور غیرت کا تصور عورت ذات تک محدود کر نے کے
باعث لڑکیوں کو کم عمری میں بیاہنے کی روایت اب تک ختم نہیں کی جا سکی۔
چائلڈ فنڈ انٹرنیشنل سے منسلک این گاڈرڈ کا کہناہے کہ لوگوں کو اپنی لڑکیوں
کی وجہ سے اپنی عزت خطرے میں پڑنے کے خدشات رہتے ہیں ۔انہیں ڈر ہوتا ہے کہ
لڑکی کوئی ایسی حرکت نہ کر دے جس سے خاندان کی بدنامی ہو ، تو اس کی شادی
کرنا ہی بہتر ہے۔وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر معاشروں میں کم عمری میں لڑکیوں
کی شادی کی ایک وجہ غربت ہوتی ہے۔ اگر لڑکیوں کو لازمی تعلیم کے حصول تک
بھی اسکول میں رکھنا ممکن ہو تو جبری شادیوں کارواج ختم یا کم کیا جا سکتا
ہے ۔ان کا یہ بھی کہناہے کہ جتنے سال لڑکی اسکول میں گزارتی ہے ‘اتنا ہی اس
کی اور اس کی اولاد کی صحت اچھی ہوتی ہے ۔ لڑکیاں جتنی تعلیم حاصل کرتی ہیں
‘اتنا ہی اپنے گھر کی آمدنی میں حصہ بٹاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب افریقی
ملکوں میں بھی ایسے پروگرام شروع کئے جا رہے ہیں جن کے تحت لڑکیوں کیلئے
تعلیم جاری رکھنا ممکن ہوا ہے۔انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن ویمن کی این
وارنر کے مطابق حکومتوں اور بنیادی سطح کے مقامی اداروں کے درمیان تعاون
بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کم عمری کی جبری شادیوں کو روکنے کیلئے اپنے اب
تک کئے گئے کام کو جاری رکھ سکیںجبکہ جسویندر سنگھار کا کہناہے کہ برطانیہ
ہی نہیں دنیا کے کئی حصوں میں اب بھی کئی لڑکیوں کی مرضی کے بغیر شادی کر
دی جاتی ہے اور اسے معمولی بات سمجھا جاتاہے جسے روکنے کیلئے ان کے مطابق
صرف والدین کوہی آگاہی دینا ضروری نہیں بلکہ لڑکیوں کو معاشی خودمختاری کے
راہ پر ڈال کر انکار کی ہمت بہم کروانا بھی ضروری ہے جبکہ اسلام کی حقیقی
روح کے ساتھ امور کو انجام دیا جائے تو لڑکیوں کی کم عمری میںشادیاں کم از
کم اسلام کے ماننے والوں میں بحث کا موضوع نہ بنیں۔ |