بابل کی دعائیں لیتی جا

اللہ کے رسول ﷺ نے بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔ جس گھر میں بیٹی نہ ہو اس میں ایک عجیب طرح کی اداسی ہوتی ہے، بیٹیاں والدین کو بیٹوں سے زیادہ پیاری ہوتی ہیں، خصوصاً باپ کے لئے بیٹیوں کی بیٹوں کی نسبت ایک ممتاز حیثیت ہوتی ہے۔ بیٹیاں بھی شائد کسی حد تک باپ سے زیادہ انسیت رکھتی ہیں، اس کا کچھ کچھ اندازہ تو اپنے والد گرامی مرحوم اور اپنی بہنوں کو دیکھ کر ہوجاتا تھا لیکن اس کا تجربہ دو بیٹیوں کا باپ بننے کے بعد ہوا۔ جس طرح شام کو گھر واپس پہنچنے پر مجھے میری بیٹی ملتی ہے، اس طرح کا والہانہ پن بیٹے کے ملنے میں کبھی محسوس نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور بیٹی کی ”نیچر“ میں فرق رکھا ہے۔ بیٹی کی پیدائش سے ہی اس کے والدین کو اس بات کی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ نہ جانے اس کی قسمت کیسی ہو، کس طرح کے لوگ ہوں گے جہاں یہ بیاہ کر جائے گی، نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، اسے بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں یا ساس اور بہو کا روائتی پن اس کا منتظر ہوتا ہے۔ ان گنت وسوسے، لاتعداد سوچیں بیٹی کے جوان ہونے تک والدین کو پریشان کرتی رہتی ہیں، والدین دن رات بیٹیوں کی اچھی قسمت کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان کو آزمائشوں سے دوچار کردیتا ہے اور ان کی مانگی گئی دعائیں ان کی آخرت کے لئے ذخیرہ کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب بیٹیوں کی قسمت اچھی کرے ۔(آمین)

چھوٹی بہنیں بھی بیٹیوں کی طرح ہی ہوتی ہیں، بلکہ بعض اوقات تو بڑی بہنوں کو بھی ایک باپ کی نظر سے دیکھنا، ایک باپ کی طرح محبت کرنا اور ایک باپ کے فرائض پورے کرنا ضروری ہوجاتا ہے خصوصاً جب والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہو۔ چند دن پہلے میری چھوٹی ہمشیرہ کی شادی تھی اور تقریباً تین چار ماہ سے اس کی شادی کی تیاریاں آہستہ آہستہ ہورہی تھیں، حالانکہ اس کی شادی بہت قریبی عزیزوں میں ہوئی ہے لیکن اس کی رخصتی کے تصور سے جہاں ایک فرض کی ادائیگی کے بعد طمانیت کا احساس ہوتا تھا وہیں ایک عجیب قسم کی اداسی بھی دل کو گھیرے میں لئے رہتی تھی، دل کے چین کاچار ماہ پہلے ہی ”کاﺅنٹ ڈاﺅن“ شروع ہوچکا تھا۔ مجھ سمیت سب گھر والوں کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔ اللہ کی رحمت اور اس کی مدد سے میری بہن، میری بیٹی اپنے گھر جاچکی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اور سب کی بیٹیوں کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے، اچھی قسمت اور بہترین زندگی عطا فرمائے۔اس موقع پر کچھ بہت قریبی ”اپنوں“ نے ”غیروں“ کی طرح شرکت کی جبکہ اکثر دوست احباب نے بالکل بھائیوں کی طرح شمولیت اختیار کی۔اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور میری والدہ کی دعاﺅں سے ایک بہت اہم فرض ادا ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کو آنے والی زندگی میں خیر و برکت عطا فرمائے، اس کے مقدر کی جھولی کو ہمیشہ خوشیوں سے بھرا رکھے، اس کو کبھی کوئی غم نہ ملے، کوئی مصیبت اس کے گھر کا راستہ نہ دیکھ پائے، کوئی بھائی کبھی والد کی جگہ تو نہیں لے سکتا، لیکن بہن کو بیٹی سمجھنے اور ایک بیٹی کی طرح اس پر اپنی شفقت کا سایہ کرنے کی کوشش تو کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں ہمیشہ اسے اپنی بیٹی سمجھوں۔ جا بیٹی تیرا رب راکھا۔ تیرا بابل اللہ کے پاس ہے لیکن اس کی دعائیں ہمیشہ تیرے ساتھ ہوں گی۔ جا تجھ کو سکھی سنسار ملے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222535 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.