اسی حالت میں ناگہاں حضور صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ اے عائشہ! تمہارے
بارے میں ایسی ایسی خبر اڑائی گئی ہے۔ اگر تم پاکدامن ہو اور یہ خبر جھوٹی
ہے تو عنقریب خداوند تعالٰی تمہاری برات کا بذریعہ وحی اعلان فرما دے گا
ورنہ تم توبہ و استغفار کرلو۔ کیونکہ آج کوئی بندہ خدا سے توبہ کرتا ہے اور
بخشش مانگتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ حضور
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی یہ گفتگو سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ
تعالٰی عنہا کے آنسو بالکل تھم گئے اور انہوں نے اپنے والد حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم کا جواب دیجئے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نہیں جانتا
کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو کیا جواب دوں ؟ پھر انہوں نے
ماں سے جواب دینے کی درخواست کی تو ان کی ماں نے بھی یہی کہا۔ پھر خود حضرت
بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
سے یہ عرض کیا کہ لوگوں نے جو ایک بے بنیاد بات اڑائی ہے اور یہ لوگوں کے
دلوں میں بیٹھ چکی ہے اور کچھ لوگ اس کو سچ سمجھ چکے ہیں اس صورت میں اگر
میں یہ کہوں کہ میں پاک دامن ہوں تو لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور اگر
میں اس برائی کا اقرار کر لوں تو سب مان لیں گے۔ حالانکہ اللہ تعالٰی جانتا
ہے کہ میں اس الزام سے بری اور پاک دامن ہوں۔ اس وقت میری مثال حضرت یوسف
علیہ السلام کے باپ (حضرت یعقوب علیہ السلام) جیسی ہے لٰہذا میں بھی وہی
کہتی ہوں جو انہوں نے کہا تھا یعنی فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون
یہ کہتی ہوئی انہوں نے کروٹ بدل کر منہ پھیر لیا اور کہا کہ اللہ تعالٰی
جانتا ہے کہ میں اس تہمت سے بری اور پاک دامن ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ
تعالٰی ضرور میری برات کو ظاہر فرما دے گا۔ |