حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
:۔ “فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہو گیا وہ شخص جس نے اسلام کو اختیار کیا،
رزق بھی بقدر ضرورت اسے ملا اور اللہ نے اسے اس پر قانع (جو تھوڑا ملا ہے
اس پر خوش اور راضی رہنے والا) بھی بنا دیا، جو کچھ اسے عطا کیا۔“ (مسلم
شریف)
اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر مختلف انواع و اقسام کی نعمتیں عطا کی ہیں
اور ان نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ الرحمان میں ارشاد فرمایا:۔ “پھر تم
اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟“
پوری سورۃ الرحمان میں اکتیس (31) مرتبہ اس جملے کا اللہ تبارک و تعالٰی نے
ذکر فرمایا ہے، اللہ تعالٰی نے ہر نئی نعمت کے بیان کے بعد اس آیت کی تکرار
کی ہے، تاکہ بندہ مومن اللہ تعالٰی کی ان گراں قدر نعمتوں کا شکر ادا کرے۔
مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے دین
اسلام جسی نعمت عطا فرمائی اور اسے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا
فرمائی، اور اللہ تعالٰی نے اسے ضرورت کے مطابق رزق بھی عطا کیا اور ساتھ
ہی اسے قناعت جیسی دولت سے بھی مالا مال فرمایا، جو کہ اللہ تعالٰی کی عظیم
نعمتوں میں سے ایک ہے۔
اللہ تعالٰی نے انسان کو جتنی راحتیں اور نعمتیں عطا فرمائیں ان میں ایک
اعلٰی و ارفع نعمت آزادی بھی ہے، آزادی کی حفاظت اور آزادی کے قیام و بقا
کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ فرد اور ملت، دونوں امن قناعت مضبوطی کے ساتھ
پکڑے رہیں اور صبر و شکر اپنائیں، جس قدر ہمارے پاس ہے اس پر صبر کریں،
قناعت کریں، اللہ تعالٰی کا شکر ادا کریں اور یہ فراموش نہ کریں کہ ایسے
بھی لوگ ہیں جن کی پاس ہم سے بھی ہم ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ قناعت جب رخصت ہو جاتی ہے تو دولت کی طلب اس کی جگہ
لے لیتی ہے، پھر یہ طلب جب آزاد ہو جاتی ہے تو معیارات زندگی کو بلند کرنے
کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، اس دوڑ میں قرض، امداد، بھیک سب سامنے آ جایا کرتے
ہیں اور جب قرض کے لئے ہاتھ پھیلتا ہے، امداد کے لئے دل رجوع ہوتا ہے اور
جب کاسہ گدائی ہاتھ میں ہوتا ہے تو آزادی رخصت ہو جاتی ہے، آزادی کی جگہ
بیرونی آقاؤں کی غلامی لے لیتی ہے۔
اگر اس صورت حال کا نمونہ دیکھنا ہے تو دور نہ جائیے، پاکستان کی لاچارگی
کو دیکھئے، افراد پاکستان کی زبوں حالی پر ایک نظر ڈالئیے۔ ملت پاکستان کی
خستہ حالی پر ماتم کر لیجئے، ہائے افسوس ! کہ ہم نے کس قدر لرزاں اپنی
آزادی کو فروخت کر دیا اور کھو دیا ہے، آج ہمارے ہاتھوں میں کاسہ گدائی ہے،
عزت و ناموس کا سودا ہو چکا ہے، خودی اور خود داری رخصت ہو چکی ہے، ہر
شرافت و داقت پر دشمن حملہ آور ہے۔
آج ہر ایک مسلمان کو اور بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کو اپنی فکر و نظر اور
سوچ کے زاوئیے کو بدلنے کی ضرورت ہے، اور جو ذہنی غلامیاں چلی آ رہی ہیں،
اس کے سیلاب پر بند باندھنے کے لئے ہمت کر لینا چاہئیے، یہ فیصلہ کرنا
چاہئیے کہ پاکستان آزاد رہے گا، اہل پاکستان آزاد رہیں گے، مسلمان غلامی کی
زندگی ہرگز نہیں گزار سکتا، ہمیں اللہ تعالٰی کے اوہر کامل بھروسہ کرکے
قناعت جیسی دولت جو کہ ایمان و اسلام کے بعد اہم دولت و نعمت ہے اللہ
تعالٰی سے مانگتے رہنا چاہئیے، اور اپنے اندر سے حرص، طمع، لالچ، معاشرتی
اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کی جدوجہد کرنی چاہئیے۔ |