قارئین محترم ہماری ویب آج میں
آپ کی خدمت میں نصیحت سے بھرپور ایک ایسی حدیث پاک پیش کر رہا ہوں کہ جس پر
عمل پیرا ہونے کی سعادت، حقیقتاً صرف سعادت مندوں کا حصہ ہے۔ کاش ! ہم بھی
اس سعادت مندی سے حصہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
ہمارے پیارے آقا، مدنی مصطفٰی، حبیب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
نے اپنے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پانچ سے پہلے پانچ
چیزوں کو غنیمت جانو۔
تندرستی کو بیماری سے پہلے مالداری کو تنگدستی سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے
پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ (ترمذی شریف)
مذکورہ فرمان میں پوشیدہ حکمت اور ہمت کے حصول کا طریقہ
پیارے اسلامی بھائیوں !
اس حدیث پاک کو سن کر اب ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ مذکورہ پانچ چیزوں کو
غنیمت جاننے کی حکمت جاننے کی بھی کوشش کریں تاکہ مکمل طور پر استفادہ کی
سعادت حاصل ہوسکے۔ چنانچہ
(1) تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جاننے میں حکمت:۔
انسان حالت صحت میں جو کام سر انجام دے سکتا ہے، یقیناً بیماری میں ان کو
پایہء تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل ہے۔ بلکہ اگر مرض شدید ہو تو بسا اوقات وہ
کسی کے کام کے قابل ہی نہیں رہتا۔ اور بعض اوقات اگر مرض شدید ہو تو بسا
اوقات وہ کسی کام کے قابل ہی نہیں رہتا۔ اور بعض اوقات تو یوں بھی ہوتا ہے
کہ مبتلائے مرض ہونے کے بعد انسان کو کسی نیک اعمال کی توفیق ہی نہیں ملتی
کیونکہ یہ مرض دنیا سے رخصتی کا پروانہ دلوا کر ہی جان چھوڑتا ہے۔
لٰہذا نیک اعمال کے معاملے میں بھی صحت کو غنیمت تصور کرتے ہوئے زیادہ سے
زیادہ نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے رہنی چاہئیے تاکہ اگر اچانک
کوئی بیماری حملہ آور ہو جائے تو بستر مرگ پر بے بسی کے ساتھ لیٹے ہوئے
پچھتاوے کا شکار نہ ہونا پڑے۔
یوں ہی اگر کوئی بدنی عبادت مثلاً۔ ۔ ۔ نماز ۔ ۔ ۔ یا روزہ وغیرہ کی قضا
ذمہ میں لازم تھی تو اب بیماری کی وجہ سے ان کی ادائیگی سے محروم ہو کر ان
کا وبال سر پر لے کر جانا پڑے گا۔
ان تمام امور کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ حالت صحت
عموماً غفلت کا سبب بنتی ہے، لٰہذا آپ نے اس غفلت سے بیداری کی خاطر خاص
طور پر اس کے بارے میں ارشاد فرمانا پسند فرمایا۔
اس معاملے میں عمل کی اہمیت حاصل کرنے کا طریقہ
اس کے لئے بہتر ہے کہ انسان کبھی کبھار اسپتال میں جاکر مریضوں کو دیکھے
اور اپنی صحت پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے سفر آخرت کے لئے زاد راہ اکٹھا
کرنے میں سنجیدگی اختیار کرے۔
(2) مالداری کو تنگدستی سے پہلے غنیمت جاننے میں حکمت:۔
فی نفسہ مال کوئی بری چیز نہیں، کیونکہ اس کے ذریعے بے شمار نیک کام سر
انجام دے کر اخروی لحاظ سے عظیم الشان خزانہ جمع کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً
اللہ تعالٰی نے اس مال کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کے بدلے میں بے شمار ثواب
کا وعدہ فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے،
“مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ اذبتت سبع سنابل فی کل
سنبلۃ مائۃ حبۃ واللہ یضاعف لمن یشاء۔ ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ
میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہر بال میں
سودانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے۔ (ترجمہ
کنزالایمان۔ پ3۔ البقرۃ 261)
بلکہ بعض نیک اعمال کے لئے تو اس کی موجودگی لازم و ضروری ہے، ورنہ انسان
کبھی بھی ان کے ارتکاب کی سعادت حاصل نہیں کر سکتا۔ مثلاً فی زمانہ حج،
عمرہ اور قربانی وغیرہ۔ چنانچہ جب من جانب اللہ تعالٰی یہ نعمت حاصل ہو تو
اسے آخرت کے لئے عظیم الشان ذخیرہ بنانے میں دیر نہیں کرنی چاہئیے۔ کیونکہ
بسا اوقات ناگہانی آفات کی بناء پر اچانک مال و دولت سے محروم ہونا پڑ جاتا
ہے۔ اور اس محرومی کے بعد شدید خواہش کے باوجود پھر مال سے وابستہ نیک
اعمال کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہو پاتی۔ اور پھر سوائے پچھتانے کے اور کچھ
نہیں کیا جا سکتا۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ مالی عبادات فرض یا واجب ہو گئیں تھیں، لیکن
مال کی موجودگی کےو قت ان کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتے رہے پھر جب اچانک
مال ہاتھ سے نکل گیا تو اب فکر لاحق ہوئی کہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں جا
کر کس طرح حساب و کتاب دیا جائے گا۔ چونکہ ادائیگی پر قدرت تو حاصل نہیں،
لٰہذا اب ہمہ وقت اخروی گرفت کا خوف راتوں کی نیند حرام کرتا رہے گا۔
ان تمام امور کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ مال و
دولت کی فراوانی عموماً غفلت کا سبب بنتی ہے، لٰہذا آپ نے اس غفلت سے
بیداری کی خاطر خاص طور پر اس کے بارے میں ارشاد فرمانا پسند فرمایا۔
اس معاملے میں عمل کی اہمیت حاصل کرنے کا طریقہ
ایسے لوگوں کا گہری نظر سے مشاہدہ کریں کہ جن کے پاس پہلے مال تھا لیکن پھر
کسی سبب سے ان پر تنگدستی طاری ہوگئی اور اب وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی
میں کوتاہی اور کثیر نیک اعمال سے محرومی پر کف افسوس ملتے نظر آتے ہیں۔
نیز ان لوگوں کو بھی بغور دیکھیں کہ جو صحیح مقام پر مال کو خرچ کرنے کی
بناء پر نہایت مطمئن و خوش و خرم ہیں۔ اور اخروی لحاظ سے کوئی اندیشہ ان کی
راتوں کی نیندیں برباد نہیں کرتا۔
(3) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جاننے میں حکمت:۔
چونکہ جوانی میں عموماً نفسانی خواہشات کا غلبہ رہتا ہے جس کے باعث نیکیوں
پر استقامت اور گناہوں سے دوری کا حصول بے حد مشکل تصور کیا جاتا ہے نیز
بڑھاپا طاری ہونے کے بعد انسان جوانی میں بآسانی ادا کی جانے والی عبادت کی
مثل عبادت سے محروم ہو جاتا ہے، لٰہذا پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم نے خاص طور پر جوانی کو بڑھاپے سے قبل غنیمت جاننے کا حکم ارشاد
فرمایا۔
پھر بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ جوانی میں عبادات میں کوتاہی سرزد ہوئی
تھی اور اب بڑھاپے میں موجودہ عبادت کو ادا کرنے کی ہی ہمت نہیں ہوتی تو
سابقہ حساب و کتاب کس طرح چکا سکتا ہے ؟ انجام کار یہ ہوتا ہے کہ کثیر
عبادات کے معاملے میں کی گئی کوتاہیوں کو بوجھ عظیم لیکر اللہ تعالٰی کی
بارگاہ میں پہنچنا پڑتا ہے۔
فی زمانہ اکثر مقامات پر یہ منظر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئی حضرات
بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے کے باوجود مختلف قسم کے کھیلوں اور دیگر حرام
کاموں میں سامان لذت تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ جوانی تو
پہلے ہی غفلت میں ضائع کردی، بڑھاپے میں بھی توفیق خیر حاصل نہیں ہوئی، تو
اب زندگی کے اور کون سے لمحات ایسے ملیں گے کہ جن میں آخرت کی تیاری ممکن
ہو سکے ؟
ان تمام امور کے پیش نظر رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے
مذکورہ تلقین ارشاد فرمائی۔
اس معاملے میں عمل کی اہمیت حاصل کرنے کا طریقہ
اس کے کئی طریقے ہیں۔ مثلاً
(1) اپنے اطراف میں باعمل، عبادات پر مسستقیم اور گناہوں سے کنارہ کشی کرنے
والے نوجوانوں کو بار بار دیکھیں، کیونکہ نفس عموماً اس بات کو ذہن نشین
کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ جوانی میں باعمل بننا، پابندی سے نیکیاں کرنا
اور مکمل طور پر گناہوں سے بچنا بے حد مشکل ہے۔ لیکن جب مذکورہ اوصاف کے
حامل نوجوانوں کا دیدار کیا جائے تو نفس کے اس خیال فاسد کا فساد جاننا
آسان ہو جاتا ہے۔
(2) مذکورہ اوصاف کے حامل نوجوانوں کی صحبت اختیار کریں کہ اچھوں کی صحبت
انسان کو اچھا بنا دیتی ہے۔
(3) ایسی روایات کا مطالعہ کرے کہ جن میں خصوصاً جوانی میں عبادت اختیار
کرنے پر عظیم انعامات کی بشارت دی گئی ہو۔ مثلاً پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “سات اشخاص بروز قیامت، عرش کے سائے میں
ہوں گے جب کہ کہیں بھی سایہ نہ ہوگا۔ ان میں سے ایک وہ نوجوان جو ابتدائے
جوانی سے ہی عبادت الٰہی میں مشغول ہو جائے۔“ (مشکوٰۃ)
(4) اپنے اطراف میں بے بسی اور پریشانی کی زندگی گزارنے والے بوڑھے حضرات
کو بار بار دیکھیں اور خود سے سوال کریں کہ اگر جوانی ضائع کرکے بڑھاپے میں
یہ حال ہوا تو پھر آخرت کی تیاری کس طرح ممکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
(4) فراغت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جاننے میں حکمت:۔
بسا اوقات انسان کے پاس بہت سے نیک اعمال کرنے کے لئے کثیر وقت موجود ہوتا
ہے لیکن سستی، غفلت اور دیگر فضول کاموں میں مشغولیت اس راہ میں آڑے آ جاتی
ہے اور انسان آئیندہ “ہمت و وقت“ ملنے کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہو
کر موجودہ ساعتوں کی برکات سے خود کو محروم کروالیتا ہے۔ پھر جب وہ “آئندہ“
آتا ہے کہ جس کے بارے میں خواب دیکھے گئے تھے تو کثیر مصروفیات اسے اپنے
گھیرے میں لے لیتی ہیں، جن کے باعث دیگر عبادات تو کیا حاصل کرتا، بلکہ ان
سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے کہ جن پر ا سے پہلے کبھی کبھار عامل ہوا کرتا
تھا۔
اگر اس کا عملی نمونی دیکھنا ہو تو کسی طالب علمی کے دور سے گزرنے والے
نوجوان اور اس کے بعد نوکروی، کاروبار اور رشتہ ازواج میں وابستہ ہو جانے
والے اشخاص کا بغور مشاہدہ فرمائیں۔
انہی امور پر توجہ دلوانے کے لئے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
نے مذکورہ بالا تلقین ارشاد فرمائی تاکہ جو امتی خود ان باتوں کا مشاہدہ
کرکے عبرت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ اس فرمان عالیشان کی برکت
سے اس مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
اس معاملے میں عمل کی اہمیت حاصل کرنے کا طریقہ
اس کے لئے ایسے افراد کی صحبت میں رہنے کی کوشش فرمائیں کہ جو اپنا کوئی
بھی لمحہ ضائع نہیں کرتے۔ ۔ ۔ اگر صحبت میسر نہ ہوسکے تو کم از کم ان کے
عمل کا بار بار مشاہدہ کریں تاکہ خود میں بھی وقت کی قدر کرنے کا جذبہ
بیدار ہو سکے۔ نیز ایسے افراد کہ جنہوں نے اپنے وقت کو صحیح اور بر وقت
استعمال کرکے ترقی و کامرانی حاصل کی ان کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ
فرمائیں اور ان کی جہد مسلسل کو اخروی تیاری کے سلسلے میں مشعل راہ بنائیں۔
خصوصاً اپنے اکابرین کرام (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے حالات زندگی ضرور
پڑھیں۔
(5) زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جاننے میں حکمت:۔
اللہ تعالٰی نے ہر انسان کے لئے اخروی تیاری کے سلسلے میں ایک حد مقرر
فرمائی ہے۔ اس حد کے بعد کوئی بھی شخص اپنی ذاتی محنت سے اس سعادت کو حاصل
نہیں کر سکتا بلکہ اس معاملے میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ اور وہ حد موت
ہے۔
اللہ تعالٰی کے مقبول بندوں کے علاوہ دیگر حضرات عموماً خواب غفلت میں
گرفتار رہتے ہیں، جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب دنیا میں نیک اعمال
سے دور رہ کر موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو نہ صرف سابقہ زندگی پر شرمندگی
و ندامت دامن گیر ہو جاتی ہے بلکہ آئندہ حالات کے بارے میں شدید خوف بھی
جان نہیں چھوڑتا۔ اب خود تو کچھ کرنے پر قادر نہیں رہتے، لٰہذا دنیا میں
موجود لوگوں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نیکیوں کی بھیک کی
امید میں برزخی زندگی کے دن گن گن کر گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب اگر کسی
محبت کرنے والے کو توفیق ہوگئی تو کچھ نیکیاں ایصال ثواب کے ذریعے ان کے
نامہء اعمال میں پہنچا دیتا ہے ورنہ عام لوگوں کے ایصال ثواب پر ہی گزارا
کرنا پڑتا ہے۔ اور بسا اوقات تو وہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔
حضرت صالح (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ
“میں ایک مرتبہ شب جمعہ کو جامع مسجد کی طرف جا رہا تھا تاکہ صبح کی نماز
وہاں پڑھوں۔ چونکہ صبح ہونے میں ابھی دیر تھی چنانچہ میں راستے میں ایک
قبرستان میں داخل ہوکر ایک قبر کے پاس بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی میری آنکھ لگ
گئی، میں نے دیکھا کہ سب قبریں پھٹ گئی ہیں اور ان میں سے مردے باہر نکل کر
آپس میں ہنسی خوشی بات کر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک نوجوان بھی قبر سے باہر
نکلا، اس کے کپڑے میلے تھے، وہ غمگین حالت میں ایک جانب بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں آسمان سے بہت سے فرشتے اترے جن کے ہاتھوں میں تھال تھے جن پر
نورانی رومال ڈھکے ہوئے تھے۔ وہ ہر مردے کو تھال دیتے جاتے تھے اور جو مردہ
تھال لیتا، وہ اپنی قبر میں واپس چلا جاتا۔ جب سب تھال لے چکے تو وہ نوجوان
خالی ہاتھ قبر میں واپس جانے لگا تو میں نے اس نوجوان سے دریافت کیا کہ،
“تمہارے غمگین ہونے کی کیا وجہ ہے اور یہ تھال کیسے تھے ؟“ اس نے جواب دیا
کہ، “یہ تھال ان ہدیوں کے تھے جو زندہ لوگوں نے اپنے مردوں کو ایصال ثواب
کیا۔ میرا ایک ماں کے علاوہ کوئی نہیں جو ہدیہ بھیجے گا اور خود ماں بھی
دنیا میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اس نے دوسری شادی کرکے اپنی مشغولیت بڑھا لی
ہے، اب وہ مجھے یاد نہیں کرتی۔“
میں نے اس سےا س کی ماں کا پتہ معلوم کیا اور دوسرے دن جاکر اسے پردے میں
بلا کر تمام معاملہ بیان کیا۔ اس عورت نے کہا کہ، “بے شک وہ میرا بیٹا تھا،
میرا لخت جگر تھا۔“ پھر اس نے مجھے ہزار درہم دئیے اور کہا کہ، “یہ میرے
بیٹے کی طرف سے صدقہ کر دینا اور میں آئندہ ہمیشہ اسے دعاء و ایصال ثواب
میں یاد رکھوں گی۔“
میں نے حسب ہدایت وہ رقم نوجوان کی طرف سے صدقہ کردی۔ کچھ عرصہ بعد میں نے
خواب میں اس مجمع کو اسی طرح دیکھا۔ اب کی مرتبہ وہ نوجوان بھی اچھی سی
پوشاک پہنے ہوئے خوش تھا، وہ تیزی سے میری جانب آیا اور کہنے لگا کہ، “اے
صالح ! اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ کا ہدیہ مجھ تک پہنچ
گیا۔“ (روض الریاحین)
پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اسی وجہ سے زندگی کی قدر کرنے
کا حکم ارشاد فرمایا کہ بعد موت نہ تو انسان نیک اعمال پر قادر ہوتا ہے اور
نہ ہی اللہ تعالٰی اور بندوں میں سے کسی کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق مل
سکتی ہے، لٰہذا مذکورہ نصیحت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے موت سے پہلے پہلے
نیکیوں پر استقامت کے ساتھ ساتھ سابقہ گناہوں سے توبہ اور تمام حقوق کی
ادائیگی کا اہتمام کرنا بے حد ضروری ہے۔
اس معاملے میں عمل کی اہمیت حاصل کرنے کا طریقہ
اس کے لئے ایسے مسلمان بھائیوں کی صحبت میں رہنے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ جو
اپنا کوئی بھی لمحہ ضائع نہیں کرتے اور اپنی آخرت کے بارے میں فکر مند رہتے
ہیں۔
نیز اپنے اسلاف کرام کے حالات زندگی کا مطالعہ بھی اس معاملے میں بے حد
معاون ثابت ہوگا۔
اس کے علاوہ ایسے واقعات بار بار پڑھیں کہ جن سے مر جانے والے غافل حضرات
کی بے بسی عیاں ہوتی ہو۔
اللہ تعالٰی ہمیں خواب غفلت سے جاگنے اور خصوصاً اس نصیحت رسول صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
الانبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم |