حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔
“مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اسے (بے یار و
مددگار چھوڑ کر دشمن کے) سپرد کرتا ہے، جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری
کرنے میں لگا ہو، اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری فرماتا ہے، جو کسی مسلمان سے
کوئی پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی
پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور فرما دے گا اور جس نے کسی مسلمان کی
پردہ پوشی کی، اللہ تعالٰی قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔“ (بخاری
و مسلم شریف)
اس حدیث مبارکہ سے جو اہم پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک
خاندان کے افراد کی طرح رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں، کہ جس طرح ایک شخص اپنے
باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ پر کوئی ظلم کرنا، مدد کے وقت اسے بے یارو مددگار
چھوڑنا پسند نہیں کرتا، اسے کوئی حاجت پیش آئے تو پوری کرنے کی، کسی مشکل
اور تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے دور کرنے کی اور اگر اس سے کوئی
کوتاہی یا غلطی ہو جائے تواس کی پردہ پوشی کی کوشش کرتا ہے، بالکل یہی
معاملہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ ہونا چاہئیے، اس سے اللہ تعالٰی
خوش ہوتا ہے اور اس کا بہترین صلہ اسے دنیا و آخرت میں عطا فرماتا ہے، گویا
یہ ایک اجتماعی کفالت کا ایک بہترین نظام ہے، جس پر اگر مسلمان عمل کریں تو
آخرت کی بھلائی کے ساتھ ان کی دنیا بھی جنت نظیر بن سکتی ہے، اللہ تعالٰی
اپنے بندوں سے اس طرح مخاطب ہے :۔
“(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔“ (الحجرات۔ 10)
یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس
لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس
میں نہ لڑیں بلکہ اگر کوئی دشمن ان میں سے کسی سے برسر پیکار ہو تو وہ ایک
دوسرے کے دست و بازو، ہمدرد و غمگسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں، اور
مل کر باطل قوتوں کا مقابلہ کریں۔
اس حدیث میں اس بات کا بھی خاص حکم دیا گیا ہے کہ بغیر کسی دنیاوی فائدے
اور مقاصد کے صرف رضائے الٰہی کے لئے مسلمانوں کی حاجات و ضروریات پوری کی
جائیں بالخصوص اس وقت جب کہ کافر قوتیں اس کو ختم کرنے پر تل ہوئی ہوں، یہ
نہایت فضیلت والا عمل ہے، ایسے شخص کی جو دوسرے مسلمان کے مشکل میں اس کے
کام آتا ہے اس کی حاجات و ضروریات خود اللہ تعالٰی پوری فرماتا ہے اور آخرت
میں اس کا جو اجر عظیم ملے گا وہ الگ ہے، کاش کہ مسلمان جو کہ اپنے دین کے
ان روشن تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں اور صرف کفار اور گمراہ قوموں کے نقش
قدم پر چل رہے ہیں، اگر آج بھی قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے بتائے ہوئے احکامات پر چلیں تو اس دنیا کے حکمران بن سکتے ہیں، وہ عروج
حاصل کر سکتے ہیں جو کہ ہمارے اسلاف کا خاصہ تھا اور پوری دنیا پر حمکرانی
کر سکتے ہیں جس کے لئے اسے اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔ |