رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے خلیفہ نامزد نھیں فرمایا ؟
آخر کیوں ؟
البزار اپنی مسند میں تحریر فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن وضاح الکوفی نے ابو
یقظان اور انہوں نے ابو وائل اور حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالے سے
یہ روایت بیان کی کہ (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے) بعض حضرات
نے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی یا رسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! ہمارے لئے اپنا ایک نائب منتخب فرمادیں تو
ارشاد گرامی ہوا کہ میں نے کسی کو اپنا خلیفہ نامزد کردیا اور تم نے اس کے
احکامات کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا تو عذابِ الٰہی سے نہیں بچ
سکو گے۔ (حاکم مستدرک میں لکھتے ہیں کہ ابو یقظان ضعیف راوی ہیں۔)
حاکم اپنی کتاب مستدرک میں فرماتے ہیں کہ جب قاتل نے حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ پر حملہ کرکے نیزہ مارا اور آپ کی شہادت یقینی ہوگئی تو لوگوں
نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ کسی کو اپنا نائب
منتخب فرمادیں تو ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین انسان سیّدنا صدیق اکبر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ اپنا جانشین مجھے منتخب فرمایا مگر میں تمہیں
اس طرح چھوڑے جا رہا ہوں جس طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سیّدنا صدیق
اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بغیرجانشین منتخب کئے چھوڑ گئے تھے۔
دلائل النبوۃ میں احمد اور بیہقی نے ’بسند حسن‘ عمرو بن سفیان کے حوالے سے
تحریر کیا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگِ جمل کے دن خطبہ دیا اور
ارشاد فرمایا کہ لوگو! رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خلافت کے
بارے میں ہم میں سے کسی سے کوئی وعدہ نہیں لیا تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو ہم سب نے مل کر اپنی کوشی سے خلیفہ منتخب کیا تھا انہوں نے
اُمورِ خلافت انتہائی خوبصورتی سے انجام دیئے اور پھر وہ اس دنیا سے رُخصت
ہوگئے۔ خلافت کیلئے سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب حضرت
ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کی متفقہ رائے سے کیا اور آپ نے بڑی
خوبی سے اُمورِ خلافت سر انجام دیئے اور اسلام کو استحکام عطا فرمایا۔ اس
جہان فانی سے آپ کی رحلت کے بعد لوگ دنیا کی طرف مائل ہوگئے جس کی وجہ سے
قضا الٰہی جاری ہوگئی اور وہی کچھ ہونے لگا جو کچھ اس نے چاہا۔
مستردک میں حاکم نے اور دلائل میں بیہقی نے ابو وائل سے روایت کیا ہے کہ اس
بات کی اسی طرح تصدیق کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگوں نے
درخواست کی کہ آپ کسی کو اپنا نائب منتخب فرمادیں تو آپ نے ارشاد فرمایا
کہ جب میرے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی کو اپنا نائب منتخب نہیں
کیا تو میں کون ہوتا ہوں کہ اپنا نائب منتخب کرلوں۔ البتہ اللہ تعالیٰ کو
اپنے بندوں کی بہترین اور بھلائی پسند ہوگی تو لوگ میرے بعد اپنے آپ ہی
کسی اچھے انسان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیں گے۔ بالکل اسی طرح جیساکہ رسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد لوگوں نے ایک بہترین انسان کو اپنے
لئے خلیفہ چن لیا تھا۔
ذہبی وضاحت کرتے ہیں رافضی جوکہ ایک باطل فرقہ ہے ان کا یہ کہنا کہ رسولِ
اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا
خلیفہ منتخب فرمادیا تھا بالکل جھوٹ ہے۔ ہذیل بن شرجیل کہتے ہیں، یہ کیسے
ہوسکتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب فرمائیں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ مخالفت کریں اس سے یہ بات واضح طور عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنانائب منتخب
ہی نہیں فرمایا تھا۔
حضرت حسن سے ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
ارشاد فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وصال فرما گئے تو ہم
نے اس بات پر غور کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میری
بجائے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا امام بنایا تھا لہٰذا وہی
شخص جو دِینی امام بنایا گیا وہی ہمارا دنیاوی امام بھی ہونا چاہئے تو ہم
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتخاب پر راضی ہوگئے۔
تاریخ بخاری میں امام بخاری حضرت سفینہ سے اور وہ ابن جمہان سے زبانی بیان
فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت ابو
بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) میرے بعد خلیفہ ہوں
گے لیکن خود امام بخاری نے اس روایت کو ردّ کیا اور فرمایا کہ ابن جمہان کی
اس روایت کو کسی ایک آدمی نے بھی قبولیت کا درجہ نہیں دیا اس لئے کہ حضرت
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنا نائب نامزد نہیں
فرمایا۔
ابن حبان نے اس حدیث کو ابو یعلی اور بعض دوسرے راویوں سے کچھ اس طرح بیان
کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مسجد کی بنیاد رکھتے
ہوئے اپنے ہاتھ مبارک سے پہلا پتھر رکھا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو فرمایا کہ میرے پتھر کے برابر ایک پتھر رکھو۔ پھر حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا کہ تم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے پتھر کے برابر پتھر رکھو۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے ارشاد فرمایا کہ اب تم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پتھر کےبرابر
پتھر رکھو۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میرے بعد یہی لوگ میرے نائب ہوں گے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سندات میں کوئی
عیب نہیں ہے۔ حاکم نے اپنی مستدرک میں بھی یہ حدیث بیان فرمائی ہے اور
دلائل میں بیہقی نے اس حدیث کو صحیح حدیث کہا ہے۔ میرے خیال میں اس حدیث
میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
فرامین میں کوئی تعارض اور تضاد نہیں ہے کہ ان حضرات کے بیانات کا مقصد یہ
ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وصال شریف کے لمحات میں کسی کو
نائب مقرر نہیں فرمایا تھا۔ لہٰذا یہ فرامین آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کے وصال مبارک سے پہلے کے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے کہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اختیار کرو۔
عرباض بن ساریہ رحمۃ اللہ علیہ سے حاکم نے بیان کرتے ہوئے یہ حدیث روایت کی
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد
ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اطاعت کرنا اور ان احادیث کے سوا
اور بھی کئی احادیث موجود ہیں کہ جن میں خلافت کے بار ےمیں اشارے موجود
ہیں۔
خلافت و امامت صرف قریش کیلئے ھے
ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند میں بحوالہ سکین ابن عبد العزیز و سیار بن
سلامہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ امامت
قریش ہی کا حصہ ہے۔ ان کی حکومت عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ وعدہ پورا کرتے
ہیں۔ کوئی مہربانی کا طلبگار ہو تو مہربانی کرتے ہیں۔ اسی حدیث کو ابو یعلی
اور طبرانی نے اپنی اپنی مسند میں بیان کیاہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو امام ترمذی نے بیان کیا ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشادِگرامی ہے کہ حکومت قریش
کیلئے قضاء انصار کیلئے اور اذان اہل حبشہ کیلئے ہے۔ اس حدیث کی تمام اسناد
صحیح ہیں۔
امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مسند میں حاکم بن نافع عتبہ بن عبد
اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ خلافت قریش میں رہے گی۔ حکم انصار کا حصہ
ہے اور دعوت حبشہ میں رہے گی۔ تمام راوی ثقہ ہیں۔
البزار نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ آپ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حکمران قریش سے ہوں گے۔ نیک نیک
لوگوں کیلئے اور بر ےبرے لوگوں کیلئے حکمران ہوں گے۔
مدت خلافتِ اسلامیہ
امام احمد نے حماد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعید بن جمہان اور سفینہ سے
بیان کیا ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا
کہ خلافت کی مدت تیس (۳۰) سال ہوگی ۔اس کے بعد ملوکیت کا آغاز ہوجائے گا۔
تمام اصحاب سنن نے نقل کیاہے۔ ابن حبان نے اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے۔
علمائے کرام کا بیان ہے کہ چاروں خلفاء رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور امام حسن
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے پر مدتِ خلافت ختم ہوگئی۔ یعنی تیس سال کا
عرصہ پورا ہوگیا۔ بزار نے محمد بن سکین اور یحییٰ بن حسان اور دیگر محدثین
سے بیان کیا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ اسلام کا آغاز نبوت اور رحمت سے ہوا۔ اس کے بعد خلافت رحمت ہوگی اور اس
کے بعد ملوکیت اور ظلم کا دور دورہ ہوگا۔ (یہ حدیث حسن ہے) ۔
بارہ خلفاء قریش سے ھوں گے
حضرت جابر بن ثمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عبد اللہ بن احمد نے روایت کیا
ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے اسلام کا
غلبہ قریش کے بارہ خلفاء تک رہے گا۔ اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم
نے اپنی صحیحین میں بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے محدثین نے بھی الفاظ کے
تغیر کے ساتھ اسے بیان کیا ہے۔
امام احمد اپنے الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ نیک علم (خلافت) تا ابد
رہے گا۔ خلافت کا معاملہ جاری و نافذ رہے گا جب تک بارہ خلفاء اپنی مدت
پوری نہ کریں۔ ان بارہ خلفاء کے دورِ اقتدار میں اسلام کو استحکام حاصل رہے
گا۔ ترقی حاصل کرے گا۔ اور البزار حدیث پیش کرتے ہیں جن کے الفاظ یہ ہیں۔
میری اُمت مستحکم رہے گی، جب تک بارہ خلفائے قریش حکومت کرتے رہیں گے‘۔ ابو
داؤد نے حدیث بیان کرتے ہوئے اس طرح ارشاد فرمایاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم اپنے درِ اقدس سے واپس تشریف لائے تو قریش حاضرِ خدمت ہوئے اور
عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! جب یہ بارہ خلفاء
اپنا عرصہ مدت گزار لیں گے تو پھر کیا حالات بنیں گے؟ تو آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فتنہ و فساد سر اُٹھائیں گے۔ قتل و
غارت کا بازار گرم ہوگا۔ ایک روایت میں اس طرح بھی آیا ہے کہ اتفاقِ اُمت
کے ساتھ بارہ خلفاء منتخب ہوتے رہیں گے۔ ان کے دورِ خلافت میں اسلام کو
استحکام حاصل رہے گا۔ یعنی دینِ اسلام پر زوال نہیں آئے گا۔
بہ سند حسن امام احمد اور امام بزار نےاس حدیث کو اس طرح بیان کیا کہ حضرت
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اس اُمت پر
خلفاء کی تعداد کتنی ہوگی تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے یہی سوال پیش کیا تھا تو آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ جتنی تعداد بنی اسرائیل کے نقیبوں
کی تھی (یعنی بارہ)۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ان
تمام احادیث یا ان جیسی اور احادیث کا مطلب شاید یہ ہے کہ یہ بارہ خلفاء
خلافت کی شان و شوکت اسلام کی عظمت اور استحکام کے دور میں گزریں گے اور ان
خلفاء کے دورِ خلافت میں سے ہر ایک کی خلافت پر اُمت کا اتفاق ہوگا۔ اور
بالکل اسی طرح ہوا کہ ان بارہ خلفاء کے دورِ خلافت میں امن و آشتی اور
استحکام رہا اور ان کے بعد بنو اُمیہ کا زمانۂ خلافت آیا۔ ولید بن یزید
کے زمانے سے اضطراب و انتشار شروع ہوا اور بنی عباس کی خلافت کے قیام تک یہ
سلسلہ جاری رہا۔ بنو عباس کی خلافت کے قائم ہوتے ہی بنو امیہ کا کلیۃً
استیصال ہوگیا۔ |