دنیا بھر میں کیوں ہورہے ہیں کروڑوں افراد بے روزگار؟

عالمی سطح پر جاری معاشی بحران اور عالمی مالیاتی اداروں کی ناکارہ اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں 20 کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہیں جبکہ دنیا کے 90 سے زائد ممالک کے 900 شہروں میں ناکارہ معاشی پالیسیوں کے خلاف تحریک جاری ہے۔دی نیوز ٹرائب کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی بڑھ کر 7 ارب ہوگئی ہے جس میں سے 20 کروڑ سے زائد افراد بے روزگاری کی وجہ سے سخت مالی پریشانیوں کا شکار ہیں۔دنیا کے ایک ارب سے زائد لوگ غذائی قلت‘ 1 ارب سے زائد لوگ پینے کے صاف پانی جبکہ کروڑوں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔آئی ایل اوکی جانب سے گذشتہ دنوں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں صلاحیتِ کار رکھنے والے بے روزگار افراد کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ بےروزگاری کی شرح حالیہ معاشی بحران سے قبل کی سطح پر لے جانے کیلئے ضروری ہے کہ عالمی معیشت میں ہر سال ملازمتوں کے آٹھ کروڑ نئے مواقع پیدا کئے جائیں۔ادارے نے خبردار کیا ہے کہ عالمی معیشت ایک نئے اور قدرے خطرناک بحران کے کنارے پر کھڑی ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سماجی ابتری پیدا ہوسکتی ہے۔

سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی جسے مختصر طور پر سی آئی اے بھی کہا جاسکتا ہے‘ انٹرنیشنل ان امپلائمنٹ اور انٹرنیشنل کاونسل پیتھالموجی یا آئی سی او سمیت مختلف ممالک کی رپورٹوں کے مطابق دنیا سے بھوک اور غربت ختم کرنے سمیت معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر ہر سال 8 کروڑ نئی آسامیاں پیدا کرنا ہونگی۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں عالمی مالیاتی اداروں کی ناکام پالیسیوں اور بے روزگاری بڑھنے سے حکومت مخالف تحریکیں شروع ہوئی ہیں۔ وال اسٹریٹ تحریک کے تحت دنیا کے 90 سے زائد ممالک کے 900 بڑے شہروں میں ہزاروں پڑھے لکھے اور نوجوان لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔عالمی سپر پاور ملک امریکہ میں 2010 تک بےروزگار ی کی شرح 23.8 فیصد تھی جبکہ افغانستان میں 35 فیصد، البانیہ میں 14 فیصد کے قریب، آسٹریلیا میں5 فیصد سے زائد ، بحرین میں 15 فیصد، بنگلادیش میں 5 فیصد، برازیل میں 6 فیصد سے زائد جبکہ کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح 7 فیصد سے زائد تھی۔ 2010 میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین میں بے روزگاری کی شرح 4.1 فیصد تھی جبکہ فرانس میں 9 فیصد سے زائد اورجرمنی میں 5 فیصد سے زائد تھی، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 10.8 فیصد تھی۔

اہم ترین مسلم ملک انڈو نیشیا میں گزشتہ برس تک بے روزگاری کی شرح 7.14 فیصد تھی جب کہ ایران میں 11 فیصد سے زائد، جاپان میں 4 فیصد سے زائد، نیپال میں 46 فیصد، میکسیکو میں 5.5 فیصد ، نیوزی لینڈ میں 6 فیصد سے زائد اور نائیجیریا میں 4.9 فیصد تھی۔امریکی عنایتوں کے حوالے سے برا عظم ایشیا کے اہم ترین ملک پاکستان میں 2010 کے دوران بے روزگاری کی شرح 15 فیصد تھی جبکہ مسلم دنیاکے اہم ترین ملک سعودی عرب میں 10 فیصد سے زائد ، تاجکستان میں 60 فیصد، ترکی میں 9 فیصد سے زائد ، انگلینڈ میں 7 فیصد سے زائد اور زمبابوے میں 97 فیصد سے زائد بے روزگاری تھی۔اس سلسلے میں معاشی ماہرین اور عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر سے بھوک، بیروزگاری اور معاشی بحران کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پر سالانہ 8 کروڑ نئی آسامیاں پیدا کرنا ہوں گی اور عالمی مالیاتی اداروں کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرکے معاشی اصلاحات کیلئے کردار ادا کرنے پڑے گا۔

امریکہ میں بےروزگاری کی موجودہ صورت حال پر نیویارک ٹائمز ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 9 فیصد ہے اور کل ایک کروڑ 39 لاکھ افراد کو روزگار نصیب نہیں۔ امریکی معیشت بحالی کے رواں دور میں بےروز گاری کی اونچی شرح ا ور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں سست روی کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے صارفین کے خرچ کرنے کے انداز اور اقتصادی نمو دونوں کو نقصان پہنچا لیکن حکومت سے یہ توقّع نہیں کرنی چاہئے کہ وہ روزگار پیدا کرنے کے لئے مداخلت کرے گی۔اخبار کہتا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جیسے جیسے روزگار کی کمی زور پکڑتی جا رہی ہے‘ کانگریس بے عملی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ اخبار کے بقول جہاں ری پبلکن یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ڈگمگاتی ہوئی معیشت کے ہوتے ہوئے صدر اوبامہ 2012 میں اپنے عہدے سے محروم ہو جائیں گے۔ اخبار کہتا ہے۔ کہ ملک کے بگڑتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کی مرمت کرنے اور اسے بہتر بنانے کی غرض سے صدر اوبامہ نے 60 ارب ڈالر کی لاگت کی روزگار پیدا کرنے والی جو تجویز پیش کی تھی۔ اس کو ری پبلکنوں نے سینیٹ میں فلی بسٹر کر کے ناکام بنا دیا۔ انہیں شکایت تھی کہ اس پر آنے والی لاگت کو پورا کرنے کیلئے10 لاکھ ڈالر سے زیادہ کمانے والو ں پر اعشاریہ 7 فی صد سر ٹیکس لگایا جائے گا۔اخبار کہتا ہے کہ حالات شاید اس سے بھی بد تر ہونے والے ہیں۔ بے روزگاروں کو وفاق کی طرف سے دی جانے والی ان مراعات کی رقم جسکی ادائیگی ریاستوں کی طرف سے 26 ہفتوں تک ایسی ہی مراعات ملنے کے بعد شروع ہوتی ہے‘ سال کے آخر میں ختم ہونے والی ہے اور یہ ان 35 لاکھ امریکیوں کے لئے تباہی کا موجب ہوگی جنہیں یہ امداد 295 ڈالر ہفتہ وار کی شرح سے ملتی ہے۔ اور اخبار کا خیال ہے کہ ری پبلکنوں نے انسانی ضروریات اور معاشی منطق کو نظر انداز کرنے کا جو مظاہرہ کیا ہے‘اس سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ بے روزگاروں کی ان مراعات پر آنے والے مہینوں کے دوران بڑا دنگل ہوگا۔امریکہ کی بے روزگاری کی شرح میں کمی آنے اور اس کا 9 فی صد کی سطح پر پہنچنے پر واشنگٹن ٹائمز کہتا ہے کہ یہ ایک مثبت اقتصادی خبر ہے اور خوشیاں منانا جائز ہوتا لیکن یہ کمی اتنی معمولی ہے کہ اس سے بےروز گاری کے بھار ی مسئلے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔صدر اوبامہ نے بے روزگاری دور کرنے کا جو حل پیش کیا ہے وہ اخبار کے نزدیک کوئی حل نہیں ہے۔ اخبار کے خیال میں اس سے نجی شعبے میں روزگار کے مواقع پر منفی اثر پڑے گا۔ واشنگٹن کے PHOENIX CENTER کے 50 سالہ اعدادو شمار کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے 50 سال کے ضابطوں کے بوجھ نے نجی شعبے میں مجموعی قومی پیداوار کو اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔اسی موضوع پر ویب پر شائع ہونے والے روزنامہ ڈیلی بِیسٹTHE DAILY BEASTنے ایک اداریہ میں سینیٹ اور ایوان میں ری پبلکن لیڈر سینیٹرم مکانلMITCH MCCONELLاورمکی کینٹرMICKY CANTORکو طنزاوبامہ کے گماشتے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیٹکل سائیسنٹسٹوں کو اپنی تھیوری میں یہ ضمنی نتیجہ شامل کرنا ہوگا کہ اگر معیشت خراب ہو توبرسراقتدار صدر ہارے گا۔ ماسوائے اس صورت کہ لوگوںنے بری معیشت کا الزام کانگریس میں مخالف پارٹی پر لگانے کافیصلہ کر لیا ہو ۔اخبار کہتاہے کہ فلوریڈا میںSUFFOLKیونیورسٹی نے حال میں ایک عوامی جائزہ لیا جس میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ آیا ان کی دانست میں ری پبلکن جانتے بوجھتے ہوئے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی کوششوں میں روڈے اٹکا رہے ہیں تاکہ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ اوبامہ دوبار ہ منتخب نہ ہوںتو اس کے جواب میں 49 فی صد نے کہا کہ ہاں اور صرف 39 فی صد نے کہا نہیں۔ اعتدال پسندوں میں سے 75 فی صد نے اثبات میں رائے دی۔ اخبار کہتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اب بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ معیشت کی حالت کی ذمہ داری جارج بش پر آتی ہے،اخبار مزید کہتا ہے کہ اگلے سال نومبر تک اگر معیشت میں بہتری آئی تواس کا کریڈٹ بھی اوبامہ کو جائے گا، اخبار کہتا ہے کہ ڈیموکریٹ اس سلسلے میں قدم اٹھا رہے ہیں اور اگر معیشت آج بھی گرداب میں ہے تو اکثریت اس کا الزام ری پبلکنوں پر ڈالے گی۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126263 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More