حیات انسانی میں وقت ایک عظیم
دولت اوربیش قیمت نعمت ہے اور دین اسلام میں عبادات کا نظام وقت کے ساتھ
مربوط ہے ،نمازپنجگانہ کی ادائیگی ،وقت ہی سے متعلق ہے ،اسی لئے کتب حدیث
وفقہ میں اوقات نماز سے متعلق ایک مستقل بیان رکھا گیا ہے ،سحروافطار کے
لئے باریک بینی کے ساتھ وقت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ،اس میں کمی بیشی
ہوجائے توروزہ رائیگاں ہوجاتا ہے ،زکوۃ کی فرضیت کےلئے سال گزرنا شرط ہے،
حج مخصوص ایام میں ادا کیاجاتاہے، قربانی کےلئے ایام مقرر ہیں، ان تمام
عبادات میں وقت اس درجہ اہمیت رکھتا ہے کہ اگر عبادات کی ادائیگی میں ان کے
مقررہ اوقات کالحاظ نہ رکھاجائے تونوبت اساءت وکراہت تک ہی نہیں بلکہ فساد
و بطلان تک آجاتی ہے ،عبادات کے نظام میں وقت کا ارتباط وتعلق ،احکام اسلام
میں اس کی اثرانگیزی امت مسلمہ کے ہرہرفرد سے وقت کی قدردانی وقدر افزائی
کا مطالبہ کررہی ہے۔
حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کےلئے اپنے مبارک ارشاد ات
ومقدس فرمودات میں وقت کی اہمیت بیان فرمائی ہے،عن ابن عباس رضی اللہ عنہما
قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعمتان مغبون فیہماکثیرمن الناس
الصحۃ والفراغ رواہ البخاری۔
ترجمہ:سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضرت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اس سے
غفلت میں رہتے ہیں؛ تندرسی اور فرصت۔ (زجاجۃ المصابیح ،ج4،کتاب الرقاق
،ص148)
جن دونعمتوں کی جانب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کومتوجہ
فرمایا ہے وہ اوقات زندگی سے عبارت ہیں۔
نیزایک روایت کے مطابق حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ حالات کوغنیمت
جاننے اور انکی قدردانی کرنے کی تاکیدفرمائی ہے، عن عمرو بن میمون الاودی
قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اغتنم خمساقبل خمس شبابک قبل ھرمک
وصحتک قبل سقمک وغناک قبل فقرک وفراغک قبل شغلک وحیوتک قبل موتک۔
ترجمہ:حضرت عمرو بن میمون اودی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم پانچ چیزوں
کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو؛ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ،تندرستی
کو بیماری سے پہلے ،تونگری کو محتاجی سے پہلے ،فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور
زندگی کو موت سے پہلے۔ (مشکوۃ المصابیح ص 443)
سال ٢٠١١کے آغاز کے وقت کتنے لوگ ہماری معیت میں تھے جو،اب ہمارے ساتھ
موجود نہیں ہیں،موت کے پنجہ نے انہیں آ دبوچا، اللہ تعالٰی کا صد شکرہے کہ
اس نے ہمیں مہلت عطافرمائی ،ہمیں چاہئے کہ اس فرصت کوغنیمت جانیں ،زندگی کے
ان لمحات کے قدرشناس بنیں، عالم شباب کواطاعت الہی میں صرف کریں اس سے پہلے
کہ ضعف وکمزوری لاحق ہوجائے ،حالت صحت وتندرستی میں دین کے وہ کام کرلیں
جومرض وبیماری کی کیفیت میں صحیح طورپرانجام نہیں دئے جاسکتے۔
زندگی کا ایک ایک لمحہ اس قدر بیش بہا،گراں قیمت اور قابل قدر ہے کہ اہل
جنت کوجنت میں داخل ہونے کے بعد بھی لمحات حیات کے بے فائد ہ گزرجانے
پرحسرت ہوگی ،کنزالعمال شریف ،کتاب السلام وفضائلہ،حق المجالس والجلوس میں
حدیث پاک ہے(حدیث نمبر:25454) ماقعد قوم مقعدا لایذکرون اللہ فیہ ویصلون
علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الاکان علیہم حسرۃ یوم القیامۃ وان دخلوا
الجنۃ للثواب۔ حب عن ابی ہریرۃ۔
ترجمہ:کوئی قوم ایسی محفل نہیں سجاتی جس میں وہ اللہ کا ذ کر نہیں کرتی اور
حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقد س میں درود شریف نہیں پڑھتی
مگر وہ محفل ‘قیامت کے دن ثواب کی وجہ سے ان کےلئے حسرت کاسبب ہوتی ہے
اگرچہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں۔
اعمال کے حساب وکتاب کا معاملہ وقت ہی سے متعلق ہے ،عمر کے اوقات کے بارے
میں بروزقیامت سوال کیا جائے گا۔
کنزالعمال شریف میں حدیث پاک ہے: لاتزول قد ما عبد حتی یسأل عن اربع:عن
عمرہ فیماافناہ،وعن علمہ مافعل فیہ ،وعن مالہ من این اکتسبہ وفیماانفقہ
،وعن جسمہ فےماابلاہ۔ ت عن ابی ہریرۃ۔
ترجمہ: انسان کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک کہ چار چیزوں کے بارے
میں سوال نہ کیا جائے:اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں لگایا ہے،اس کے
علم کے بارے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا،اس کے مال کے بارے میں کہ اسے
کہاں سے کمایا ہے اور کہاں خرچ کیا ہے،اس کے جسم کے بارے میں کہ اس کی
توانائیوں کو کہاں خرچ کیا ہے۔
(کنزالعمال شریف ،کتاب القیامۃ من قسم الاقوال،الباب الاول فی امورتقع
قبلہا،الحساب ،حدیث نمبر:38982)
حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ راہنما مقد س ارشادات وقت کی قدردانی
کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں،غفلت وکوتاہی اورتضییع اوقات سے منع کررہے ہیں۔
وقت اپنی رفتا رکے ساتھ گزررہا ہے، ہم نے سال 2008 کے بارہ مہینے بسر کئے
،52 ہفتے گزارے،366 دن دیکھے،کامل ایک سال کا سفر طئے کیا، سال 2008 کا
اختتام ہم سے سوال کررہا ہے کہ جس سال کوتم رخصت کررہے ہواس کے لمحات
وساعات کی تم نے کیا قدردانی کی؟ لیل ونہار کی رفتاراستفسار کررہی ہے کہ
گذشتہ سال کے صبح وشام تم کس حدتک احکام اسلام پرعمل پیرارہے؟آخری دن کا
آفتاب ڈوبتے ڈوبتے دریافت کررہا ہے کہ تم نے حدودشریعت کی کس حدتک پاسداری
وپاسبانی کی؟
اس موقع پر ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے فرمایاہے :عن عمرانہ قال فی خطبتہ:حاسبواانفسکم قبل ان تحاسبوا،فانہ
اہون لحسابکم ،وزنوا انفسکم قبل ان توزنوا،وتزینواللعرض الاکبریوم (تعرضون
لاتخفی منکم خافیۃ)۔
ترجمہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: تم اپنے آپ کا
محاسبہ کرواس سے پہلے کہ تم سے محاسبہ کیا جائے کیونکہ وہ تمہارے حساب کے
لئے آسانی کا باعث ہے اور تم اپنے نفسوں کا جائزہ لو اس سے پہلے کہ تمہارا
جائزہ لیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار رہوجس دن تمہیں بارگاہ رب العزت
میںپیش کیا جائے گا تمہاری کوئی پوشیدہ چیزچھپی نہیں رہے گی۔
(کنزالعمال،کتاب المواعظ والرقائق والخطب والحکم من قسم الافعال،خطب
عمرومواعظہ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:444203 )
حدیث پاک پرعمل کرتے ہوئے ہم رخصت ہورہے سال کے شب وروزپر نظردوڑائیں،ہم نے
حقوق اللہ کس حدتک اداکئے،نمازوں کی ادائےگی کا کیا معاملہ رہا،کیا ہم نے
نمازیں برغبت وشوق باجماعت اداکی ہیں یا آخری وقت تک ٹالتے اورمؤخر کرتے
رہے؟ کیاہم نے فریضۂ زکوۃ کےلئے صحیح طور پراموال کا حساب کیا یا تنگدستوں
اورناداروں کا حق لے لیا؟ کیا ہم نے رمضان المبارک کے روزوں کا تقوی
وپرہیزگاری کے ساتھ اہتمام کیا ،ماہ رمضان کے ذریعہ ہم نے پرہیزگاری کے
سلسلہ میں کتنی ترقی کی۔
ہم اپنے رات ودن کودیکھیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی کس طور پرہوئی ،ہم نے
والدین کی اطاعت و فرمانبداری کی یا ان کی خدمت میں تساہل برتا؟ اولاد کی
تربیت کاحق اداکیا یاکوئی کسرباقی رہ گئی؟ رشتہ داروں سے حسن سلوک اور
پڑوسیوں سے اچھابرتاؤقائم رکھا یا بے تعلقی وبدسلوکی نے سلسلہ منقطع کردیا؟
ملنے جلنے والوں کے ساتھ محبت ومودت کے ساتھ پیش آئے یانفرت وعداوت کی آگ
بھڑکائی؟ قرابتداروں ،ہمسایوں اوردیگراحباب کے ساتھ نشست وبرخاست ،مجالست
ومخالطت میں ہمارا اخلاقی معیار کتنابلندرہا؟
ہمارا محاسبہ زندگی کے ہرشعبہ اور ہرگوشہ سے متعلق ہو،نہ صرف محاسبہ بلکہ
آئندہ کےلئے منصوبہ بندی کی جائے کہ سال گذشتہ جوکوتاہی اور سہل انگاری
ہوئی وہ دہرائی نہیں جائےگی،حصول تعلیم کی بات ہویاکاروباروتجارت کامعاملہ
،احکام شریعت کے مطابق مکمل نظم ونسق،انتظام وانصرام کے ساتھ کیاجائےگا۔
شخصی وانفرادی ،ملی واجتماعی،سماجی ومعاشرتی ،معاشی واقتصادی ،سیاسی ومذہبی
،ملکی وبین الاقوامی ہرجہت میں اور ہرسطح پرہمیں غورکرناچاہئے کہ ہم نے
ترقی کے کتنے زینے طے کئے،پستی وزوال سے کتنا دوچار ہوئے، ترقی کی راہیں
کےارہیں،پستی وزوال کے وجوہ واسباب کیاتھے۔
ہم اس سال کوخیرآباد کہتے ہوئے غورکرلیں جس شخص نے یہ بارہ مہینے اسلامی
احکام پرعمل پیرارہ کرگزارے،شریعت اسلامیہ پرکاربندرہ کربسرکیا ،حدودشریعت
پھلانگنے اورقانون الہی کوپائے مال کرنے کی جرأت وجسارت نہیں کی تو وہ خوش
نصیب بارگاہ الہی میں شکرگزاررہے خود اپنے لئے اور تمام عالم اسلام کےلئے
اطاعت واتباع کاجذبہ لئے ہوئے ،دل کے آشیانہ میں محبت رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی شمع جلاتے ہوئے استقامت واستقلال کے ساتھ آئندہ برس وتمام عمر
گزارنے کی دعاکرے۔
اور جس شخص کی حالت اس سے جداگانہ ہو،جس کا سالِ گذشتہ اللہ اور اسکے حبیب
صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف گزراہو،اس سے کوتاہیاں سرزدہوگئی ہوں
اسے چاہئے کہ اپنے اعمال سیئہ پرکف افسوس ملے ،ندامت کے آنسو بہائے اوریہ
محکم اراد ہ کرلے کہ میں آئند ہ زندگی کا ہرلمحہ اس طرح گزاروں گا جس طرح
زندگی بخشنے والے کا حکم ہے ،ہرساعت حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت
شعاری ووفاداری کے جذبہ سے سرشار رہونگا، ہرگھڑی د ل آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی محبت سے شادوآبادرہے گا۔
سال نو کاآغاز یقینا اللہ کی نعمت ہے ،ایک مد ت کا اختتام اور دوسری مدت کا
آغاز عطاء الہی ہے ،اس انعام خداوندی اور عطاء الہی پر پیش گاہ ذ والجلال
میں نذرانۂ شکر پیش کرنا چاہئے لیکن اس موقع پرباہم مبارکبادی دینا، تہنیت
پیش کرنا سلف صالحین وبزرگان دین کاطریقہ نہیں رہا، ان نفوس قدسیہ نے ہمیشہ
ماحول اوررسم ورواج سے بالاتر ہوکر مقاصد کوپیش نظر رکھا، دینی اغراض کو
اپنا مطمح نظربنایا۔
اسلامی سال کا آغاز توخلیفۂ دوم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت سے
اوراختتام حج اورقربانی کے مہینہ پرہوتا ہے ،سال کا آغاز واختتام اس جانب
اشارہ کررہاہے کہ اہل اسلام کے شب وروز،ماہ وسال خالص اللہ تعالی کے لئے
ہونے چاہئے ،لیکن وائے برحال مسلماناں کہ مقاصد سے دور رسم ورواج میں
مبتلٰی ہوچکے ہیں اور رسم ورواج بھی ایساکہ ہماری مسلمانی کوداغدارکررہا
ہے، سڑکوں پرhappy new year کے الفاظ لکھنا، رقص وسرود اورشراب نوشی کرنا
وغیرہ وغیرہ۔
کیا انگلش زبان اللہ تعالٰی کی آیات ونشانیوں سے نہیں ہے؟ ومن ٰایاتہ
اختلاف السنتکم والوانکم۔ کیا انگریزی الفاظ وکلمات ذریعۂ تعلیم نہیں ہیں؟
کیاشریعت نے حروف کا اہتمام کرنے کی ہدایت نہیں دی ہے؟ کیا دین اسلام میں
رقص وسرود کاکوئی جواز نکالاجاسکتا ہے؟ کیا شراب میں،جوام الخبائث ہے،
مدھوش ومجنون کردینے کااثرباقی نہں رہا؟
پھرکیا وجہ ہیکہ مسلمان اپنے تقدس کوخود پائے مال کرکے اِن اخلاقی رذائل
کواختیارکرچکے ہیں،ان
افعال کے کرگزرنے سے ان کے لئے نہ شریعت مانع رہی اور نہ اخلاق،جب کہ قوم
مسلم تووہ قوم ہے جس نے گذ شتہ صدیوں میں تجارت وکاروبار، سیاست وحکومت
،اخلاق وکردار، امانت وصداقت ،تہذیب وتمدن ہر گوشۂ عمل میں دنیا کی امامت
کی اور آج ہرپستی وزوال اس کے دامن سے وابستہ ہے، اس کسمپرسی کے عالم میں
ہم مسلمان اگر عزت ووقار اورترقی وعروج چاہتے ہیں تواسلامی تعلیمات پرپھرسے
عمل کرنے لگیں ،قرآن کریم کودوبارہ مضبوطی سے تھام لیں،سنت نبوی علی صاحبہ
الصلوۃ والسلام کواپنا دستور عمل بنالیں، صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان
کاطریقہ اختیارکریں ،اہل بیت نبوت سے وابستگی رکھیں ،سلف صالحین واہل اللہ
کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے رہیں، کامیابی وکامرانی ہمارے قدم چومے
گی،فتح ونصرت ہمارا مقدرہوگی- |