ایک بچھو کے ہاں ایک بچھو بچے نے
جنم لیا ۔سنا ہے کہ بچھو کی ڈلیوری کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ بچھو کی آمد کے
ساتھ ہی اس کی ماں دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے ۔شاید اسی بناء پر مادر رحمی کو پھاڑ
کر جنم لینے والا بچھو رحم کے جذبہ سے ناآشنا ہوتا ہے ۔ماں کی ممتا کی تھپکیاں
ہمارے وجود میں موجود نفرت کے زہر کو ختم کر دیتی ہے لیکن بچھو بے چارہ جوں کا
توں پروان چڑھتا ہے ۔بہرحال عام بچھوؤں کی طرح ایک بچھو کے ہاں ایک بچھو نے جنم
لیا ۔محبت کے مفہوم سے عاری ننھا بچھو نفرت کی فضاء میں پروان چڑھنے لگا ۔اسے
ساری دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی۔ لوگ اس سے دور بھاگتے، ہر کوئی اسے جان سے
مارنے اور نفرت سے جوتے تلے کچلنے کو فرض سمجھتا ۔ہر شخص اسے دیکھتے ہی قبل از
جرم سنگ سار کرنا چاہتا ۔ یہ بچھو لوگوں سے جان بچا کر بھاگتا، کونوں کھدروں
میں چھپ کر اپنے بارے میں انسانوں کے نفرت بھرے ریماکس سنتا اور نیم جان ہوجاتا
۔اپنی برائیاں سن کر اس کا زہریلا ڈنک نفرت سے دھہک اٹھتا ۔احساس کمتری کا مارا
بچھو دل ہی دل میں سوچتا کہ کاش لوگ اس سے نفرت نہ کرتے ۔دوسرے جانوروں کی طرح
اسے بھی اپنے گھروں میں جگہ دیتے لیکن ہمیشہ اس کے برعکس ہوتا ۔لوگ اس کی جھلک
دیکھتے ہی نفرت سے ’’بچھو ،بچھو‘‘ کی آوازیں لگاتے ،جسے دیکھو ہاتھ میں پتھر
اٹھائے اس کا سر کچل ڈالنا چاہتا ۔لوگوں کی نفرت اس کے رگ وپے میں اتر جاتی ۔
وہ غصے سے ڈنک اٹھاتا اور پوری شدت سے کسی آدم زاد کے وجود میں نفرت کی آگ
منتقل کر کے بھاگ لیتا۔ لوگوں سے دوسرے جانوروں کی تعریفیں سن کر اس کا دل بہت
ملول ہوتا ۔نفرت کے ماحول میں وہ اپنی تعریف کو ترس گیا تھا ۔ وہ محبت کا بھوکا
تھا ،پیار کی پیاس اسے ہلکان رکھتی ۔ایک روز بچھوزادہ ایک پتھر پر مایوسی سے
اپنا زہر بھرا ڈنک ڈھیلا کئے لیٹا تھا کہ اچانک اس کے وجود میں گدگدی سی ہوئی ۔اس
نے اپنے ڈنک کو نابینا کی لاٹھی کی طرح چاروں طرف ہلا کر صورت حال کو سمجھنے کی
کوشش کی ،اس کے کانوں میں کسی انسان کی پیار بھری آواز گونجی’’میرے اچھے بچھو!
آج تم کیوں اداس ہو؟۔ مایوس کیوں ہو؟۔
پیارے بچھو،میں محبت سے تمہارا نفرت بھرا زہر ختم کردوں گا۔تمہاری خدمت گھریلو
جانوروں کی طرز پر اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔ بچھو جان،میں تمہیں بہت پسند کرتا
ہوں۔ تم کو بنانے والے نے کتنا حسین ،کیسا پیارا بنایا ہے ۔‘‘بچھو اپنی تعریف
سن کر دیوانہ ہوگیا ۔اُس کے دل میں انسان کے لئے پہلی مرتبہ احترام کا جذبہ
ابھرا۔اُس کے دل میں خواہش مچلنے لگی کہ کاش ہم موزیوں سے محبت کرنے والا
انوکھا انسان اُسے دست بوسی یا قدم بوسی کا شرف بخشے کہ وہ بھی محبت کا جواب سے
دے سکے ۔انسان کے ساتھ اظہار عقیدت کرسکے ۔ بچھو زادہ انسان کے قدموں میں فرطِ
عقیدت سے اپنا ڈنک جھکائے مودب کھڑا تھا ۔اُس نے آدم زادسے التجا کی کہ وہ اُسے
اپنے دامن میں سمیٹ لے۔نرم خو انسان نے بچھو کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا اور
بولا ’’ا س سنگلاخ چٹان نے تم کو سنگ دل بنا دیا ہے،تم میری ہتھیلی کو بچھونا
بنا کر سوجاؤ ۔میرے بچے ،تمہیں پیار سے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر سیر کرائیں
گے‘‘۔بچھو ،آدم زاد کے محبت بھر ے جملوں سے پگھلا جارہا تھا۔ بچھوزادے نے سہمے
ہوئے انداز میں سوال کیا ’’کیا ایسا ممکن ہے کہ میں آپ کی دنیا میں عزت پاؤں،
آپ کے گھر کا ممبر کہلواؤں؟۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ لوگ مجھ سے نفرت نہ کریں
؟‘‘۔بچھو نے کہا کہ ’’لوگ نفرت سے مجھے مارنے کی بجائے اپنی محبت سے میرا زہر
کیوں نہیں مارتے۔ میں بھی جان رکھتا ہوں، میں بھی محبت بھرے دو بول کا بھوکا
ہوں۔ میرے اندر دھکنے والی نفرت اور زہر کی وجہ کس کو معلوم ۔آپ میں سے کتنے
جانتے ہیں ہیں کہ میں ماں کو مار کر پیدا ہوا ہوں میں اپنی ممتا کا قاتل ہوں،
مجھ سے کون اور کیوں کوئی محبت کرے ۔انسان ،انسان کو مارے تو مجرم، بچھو کسی کو
تکلیف نہ دے ،تب بھی مارا جائے۔ انسان اپنے لئے انصاف کی بات کرتے ہیں، خون کا
بدلہ خون، جان کا بدلہ جان اور ہمارا لیے کہتے ہیں ’’قتل الموذی قبل الیذا‘‘۔یہ
کہاں کا انصاف ہے ۔ ہم ڈنک نہ ماریں تب بھی مارے جائیں۔ لیکن آپ جیسے انسان
صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کسی انسان نے کسی بچھو سے پیار
کیا ہو ۔آپ نے مجھ سے پیار کیا ہے تو مجھے بھی دست بوسی کا موقع دیں ۔‘‘ بچھو
کی غم بھری کہانی سن کر نرم دل انسان نے جلدی سے بچھو کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی
پر بٹھالیا ۔بچھو پہلی دفعہ محبت کا لمس پاکر چکرا سا گیا ۔ایک لمحے کو سنبھلا
اور دیوانہ وار اپنے مہربان انسان کی ہتھیلی پر پوری شدت کے ساتھ اپنا ڈنگ گاڑ
دیا۔ وہ نیک انسان ڈنک لگتے ہی درد کی شدت سے تڑپ اٹھا ۔ بچھو نے حیران ہو کر
انسان سے تڑپنے کی وجہ پوچھتے ہوئے بڑی شرمساری سے کہا ’’میں نے تو آپ کے ہاتھ
کو بوسہ دیکر اپنی محبت کا اظہار کیا ہے اور آپ رو رہے ہیں ،اگر آپ کو میری ذات
سے تکلیف پہنچی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں‘‘۔نرم دل انسان نے درد بھری آواز میں
کہا ۔’’انسان ہو یا حیوان، محبت سے کسی کی فطرت نہیں بدلی جاسکتی۔ |