اس بوٹے سے قد کی عنیزہ قدوائی
میں ہے کیا جو وہ مجھ جیسے خوبرو کو لفٹ نہیں کراتی سوائے لمبے بالوں کے۔ان
میں بھی وہ انیس سو ساٹھ اور ستر کی عورتوں کی طرح بل ڈال کر رکھتی ہے،اگر
کھولے تو شائد اپنے ہی بالوں میں الجھ کر گر پڑے۔اتنا سا قد ہوتے بھی وہ اس
قدر اتراتی ہے“، رمیز نے انگوٹھے اور انگلی کے درمیان فاصلہ کرتے ہوئے
آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر خود کلامی کی۔اپنے ہاتھ کا پنچ دوسرے ہاتھ کی
ہتھیلی پر مارتے ہوئے اسے عنیزہ قدوائی پر سخت غصہ آرہا تھا۔
آئینے میں اسی لمحے اسکے عکس کے پیچھے سایہ سا لرزا اور اگلے ہی لمحے معدوم
بھی ہوگیا، بے اختیار رمیز پلٹا تو اس کی نگاہ کھڑکی سے نظر آتے درخت کی
ہوا سے جھولتی شاخوں تک گئی اور فوراً ہی ایک چیخ سنائی دی۔ اس نے بے
اختیار کھڑکی کی جانب دوڑ لگادی،کوئی جسم نیچے میدان میں سوکھے پتوں کے
درمیان چت پڑا تھا۔ہاسٹل کے میدان میں لیمپ پول سے آنے والی مدھم روشنی اور
تیزی سے بھاگ کر جمع ہونے والے لڑکوں کی گنتی سے وہ یہ نہ جان پارہا تھا کہ
کس نے سوپر مین بننے کا شوق کیا تھا اور اب نیچے بے کسی کے عالم میں پڑا
ہے۔”پتا نہیں زندہ بھی ہے کہ نہیں ؟“ اس نے بے اختیار سوچا۔
”زین نے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی ہے!“ زین نے خودکشی کرلی ہے!“ ”زین کو کسی
نے دھکا دیدیا ہے!“۔ تیزی سے سڑھیاں پھلانگ کر نیچے جاتے ہوئے وہ لڑکوں کے
بھاگتے دوڑتے قدموں کے ساتھ گونجتی آوازیں سن رہا تھا۔نیچے اس ہاسٹل کی
گنجائش کے مطابق موجود اسّی نوّے کے قریب لڑکوں میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر
سب ہی یہاں موجود تھے۔سب کی نظریں اس جسم پر تھیں جو سامنے زمین پر پڑا
تھا،کچھ لڑکے اس حادثہ کو سانحہ بننے سے بچانے کے لئے ہر ممکن تدبیر کررہے
تھے ۔رمیز ان لوگوں میں تھا جو صرف تماش بین تھے۔
”یہ کیسے گرا؟“۔”دیکھو کیا لکھا ہے اس کی ٹی شرٹ پر Dare to touch me!
،مسخرہ ہے پورا مسخرہ!“
”مسخرہ ہے یا مسخرہ تھا؟“ ”ابے یہ کچھ دیر بعد پتہ چلے گا کہ ”ہے“ یا
”تھا“۔ اس نے ارد گرد سے ابھرتی آوازیں سنتے ہوئے بے اختیار خواہش کی کہ
کاش کچھ دیر بعد پتہ چلے کہ ”زین تھا“۔ کمینہ تھا جذبہ لیکن دل میں پوری
ایمانداری کے ابھرا تھا،یہی تو وہ رقیب تھا جس کی وجہ سے عنیزہ قدوائی کسی
کو لفٹ نہ کراتی تھی۔
زین اقبال کے رنگ ڈھنگ اس قدر رئیسانہ تھے کہ کتنے دل بے اختیار سوچتے ” اس
کا باپ آخر کرتا کیا ہے؟ “ اس سوال کے جواب میں وہ شانِ بے نیازی سے کندھے
اچکاتا اور Benson & hedges کے کش میں جواب دیتا ” بحرین میں ہوتے
ہیں،کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں “۔ سننے والا رشک کم اور حسد زیادہ محسوس
کرتا لیکن ارد گرد جھمگٹا ضرور لگا رہتا۔ اس جمگھٹے میں عنیزہ قدوائی کی
حیثیت سب سے مختلف تھی ،اس کے والد شہر کے ائر پورٹ میں کسٹم آفیسر تھے یہ
بات سب جانتے تھے ”ہٰذا من فضل ربی “ اس کے بنگلہ کی بیرونی دیوار پر خطاطی
کے دلکش انداز میں جلی حروف کے ساتھ واضح تھا۔
یونیورسٹی کی چھٹیوں میں عنیزہ کے فار ایسٹ ٹرپ اس کے لئے بڑے فائدہ مند
تھے۔ معلوماتی،مشاہداتی اور تجزیاتی سطح اس کی بتدریج بڑھتی ہی رہتی تھی جس
کے اثرات اس کے بنائے گئے اسائمنٹس میں واضح نظر آتے ،اور تو کوئی کیا
مستفید ہوتا سوائے زین اقبال کے ،مگر جس سال اسٹوڈینٹ ایکس چینج پروگرام کے
تحت گرمیوں کی چھٹیوں میں امریکہ گئی تو زین اقبال اپنی فیملی کے ساتھ
تھائی لینڈ کے ٹرپ پر گیا ہوا تھا ورنہ سب کو امید تھی کہ وہ بھی اس بہتی
گنگا سے محروم نہ رکھا جاتا۔ایسے مواقع بھی بالا ہی بالا با اثر لوگ اپنی
اولاد کا نصیب بناتے ہیں۔عوام تو صرف اخبار کی سرخیوں میں پڑھ کر جان پاتے
کہ ایسا کوئی پروگرام کبھی بنایا گیا تھا ،ایک آدھ نادار مسکین کبھی کبھار
زور آور قسمت کی بدولت ایسے پروگرام میں اگر جگہ پا بھی جاتا تو بھی طبقہ
امرا ءکی اولاد کے ساتھ بے چارگی کی تصویر ہی لگتا۔
عنیزہ قدوائی پورے پینتالیس دن کے ایسے ہی پروگرام سے فیض یاب ہوکر امریکہ
سے لَوٹی تو اس کے ڈھیر سارے لمبے بال گردن پر بن کی شکل میں رول ہوئے دھرے
تھے۔انجینئرنگ یونیورسٹی کے آئی ٹی کے شعبہ میں بات ہوتی اگر نیٹ ورکنگ کی
عنیزہ قدوائی اس پر بات کرتے کرتے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ تک پہنچ جاتی جو ایک
ایسا طریقہ ہے جس میں کسی شئے میں کاربن کی موجودگی سے اس کی عمر کا پتہ
لگایا جاتا ہے
”اف کتنا شو آف کرتی ہے،نیٹ ورکنگ میں کاربن کا کیا عمل دخل؟“ خورشید نثار
تلملا کر ٹیچر کی آنکھوں میں ستائش کی لہریں محسوس کرتا تو جل بھن کر اشفاق
نعیمی سے کہنا نہ بھولتا۔ایسے میں مہدی اسے زین اقبال کی صدقے واری ہوتی
نظریں دکھانا نہ بھولتا،اور رمیز کا بس نہ چلتا کہ وہ کیسے زین اور عنیزہ
کے درمیان کی نیٹ ورکنگ کو منقطع کردے۔لیکن وہ ایسا محض سوچ سکتا تھا ،کرنا
اس کے لئے ناممکن۔پرائیوٹ انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے وہ اندرون
سندھ سے کراچی آیا تھا۔ اس کے والد نواب شاہ کے کسی سرکاری کالج کے پرنسپل
تھے،والدہ بھی ایک زمانے میں کسی کراچی کے کسی عمدہ تعلیمی ادارے میں تدریس
سے منسلک رہ چکی تھیں۔ایسے تعلیمی ماحول میں عمدہ سوچ والے والدین کے گھر
پرورش نے رمیز کے شعور کی سطح عموی سطح سے بلند کردی تھی،نوجوانوں کی
اکثریت جن طور اطوار کو باعث فخرو شان سمجھتی رمیز کے لئے وہ کبھی مسئلہ نہ
بنی لیکن جیسے ہی اس نے اپنے مخصوص ماحول سے ہٹ کر ہاسٹل میں رہائش اختیار
کی، اپنے مخصوص حلقہ احباب سے رابطے کمزور پڑے فوراً ہی کراچی شہر میں اسے
اپنی شخصیت میں بے شمار خامیوں کا احساس ستانے لگا۔ اس کی کلاس فیلو عنیزہ
قدوائی کا اس کو نظر انداز کرنا اس کے لئے خاصا تکلیف دہ بننے لگا اور زین
اقبال جو اتفاق سے رمیز کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا ،خوامخواہ رقیب روسیاہ
سا لگنے لگا۔”زین اقبال اس دنیا میں سانس لینا بند کردے تو کیا ہی اچھا ہو“
رمیز نے ہاسپٹل کی طرف رواں دواں ایمبولینس کی سرخ بتی کو دیکھ کر دل سے
خواہش کی۔
”لو جی ہیروئین بھی پہنچ گئی“ کسی لڑکے کی آواز میں معنٰی خیز قہقہہ شامل
ہوا۔رمیز کو اندازہ ہوگیا کس کی بات ہو رہی ہے ،ناگواری سے قدم بڑھاتے ہوئے
اس نے پاﺅں کی ٹھوکر سے زمین پر پڑے کنکر کو لڑھکایا اور اپنے کمرے کا رخ
کیا۔
سہہ پہر ہوچلی تھی ہلکی ہلکی بارش نے موسم کی حدت ختم کردی تھی۔ ارد گرد
لگے درختوں اور ہریالی کی خوبصورتی محسوس کرتے ہوئے وہ دلچسپی سے ارد گرد
موجود رہائشی اور تجارتی عمارات کی بناوٹ کو بغور دیکھتا ہوا جارہا
تھا۔اسٹاپ سے دس منٹ کی مسافت کے بعد وہ اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ کر رک گیا
جیسے تذبذب میں ہو ،با لاخر اس نے قدم بڑھا دیئے۔
کچھ دیر بعد اس کا نام پکارا گیا تو وہ جو اپنی نشست کے قریب رکھے رسالہ کی
ورق گردانی میں مصروف ہوچکا تھا ،پر سکون انداز سے اٹھا اور سامنے والا
دروازہ دھکیلتا اندر داخل ہوگیا۔
”ہاں نوجوان کیا مسئلہ آگیا ہے جو تمہیں مجھ سے ملاقات کرنی پڑی ؟“ ڈاکٹر
ظہیر افضل نے شگفتہ لہجے میں سوال کیا” میرا خیال ہے کہ میں نارمل نہیں
ہوں“
”ہوووںں“ ڈاکٹر نے مزید سننے کی منتظر نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”میں کسی کی کھنچائی نہیں کرسکتا،لمبی لمبی باتیں کرکے شو آف نہیں کرسکتا
،کسی کو دھونس دھمکی نہیں دے سکتا ،کسی سے کام نکلوانا مجھے نہیں آتا،جب
کوئی مجھ پر طنز کرے تو میں پلٹ کر اس پر طنز نہیں کرپاتا۔سب سمجھتے ہیں کہ
میں الّو ہوں کیونکہ حد یہ ہے کہ میں کسی لڑکی کو بھی دوست نہیں بنا پاتا“
اپنے آپ سے شاکی وہ اکیس بائیس برس کا لڑکا گہری سیاہ آنکھوں والا تھا جن
میں شرافت اور ذہانت دونوں نمایاں تھے۔ڈاکٹر ظہیر فضل چند لمحے رکے مگر وہ
مزید بولنے کے موڈ میں نہیں تھا۔وہ شائد اپنے ذاتی خیالات کسی کے سامنے
آواز کے ساتھ اظہار کرکے بے چینی محسوس کررہا تھا۔
(جاری ہے ) |