کیا تعلیم غریبوں کا حق نہیں ؟؟؟

تعلیم کی اہمیت وافادیت سے کسی کو مجال انکار نہیں ۔ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جس سے اقبال و عروج کی راہ ہموار کی جاتی ہے ۔ تعلیم کے تئیں یہ کہنا مبالغہ آمیزی نہیںکہ تعلیمی باغ میںہی حقوق کی بازیابی ، حق گوئی وبے باکی ، اولو العزمی وبلندہمتی ، ظفریابی وفتحمندی کے گلاب اگلتے ہیں ۔ جس ملک و قوم یامعاشرہ میں علم دوست افراد ہوتے ہیں وہاں کی فضا نغمگی آشنا ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلا تفریق مذہب وملت تعلیم کے فروغ کے لئے لائحہ عمل تیار کئے جاتے ہیں ۔تعلیمی نظام کومعیاری اوراس میں شفافیت پیدا کرنے کے لئے حکمت عملی تیارکی جاتی ہے ۔ معیاری اعلٰی تعلیم کے لئے نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ مرکزی اورریاستی حکومتیں تعلیمی نظام کو چست درست کرنے کے لئے بہت سی اسکیمیں تشکیل دی ہیں ، تاکہ طلباءیکسوئی سے حصول ِ علم میں سرگرم عمل رہیں ۔ بلاشک وشبہ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ بنیادی تعلیم کے حصول میں اگر کجی آجائے تو اعلٰی تعلیم یافتہ ہوکر بھی طلباءسے وہ امیدیں نہیں کی جاسکتی ہیں ، جیسی کہ ان سے وابستہ ہونی چاہئے ۔ آج مرکزی سطح سے لے کرریاستی سطح پربھی بے شمار دانشوران اورعلم دوست افراد اعلی تعلیمی مراکز کے تئیں فکرمند ہیں ۔ اعلٰی ومعیاری تعلیم کے لئے اقدامات کررہے ہیں ۔ لیکن بنیادی یا ابتدائی تعلیم کے لئے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہورہی ہے ، اگر ہوبھی رہی ہے تو وہ بس کاغذی حصار میں ہی مقید ہے ۔ اس ضمن میں ریاست بہار کی مثال انتہائی نمایاں ہے، کیونکہ یہاں کی حکومت نے بنیادی تعلیم کے فروغ کے لئے جو مشن شروع کیا ہے ، اس میں کوئی قابل ذکر فائدہ محسوس نہیں کیاجارہاہے ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ نا اہل اساتذہ کی تقرری اور تعلیمی نظام کا چست درست نہ ہونا بھی ہے ۔

گذشتہ دنوں راقم نے بہارکے متعدد پرائمری اسکولوں کا جائزہ لیا تو بے شمار ایسی باتیں سامنے آئیں ، جو ریاستی حکومت سمیت وہاں کے باشندگان کے لئے باعث شرم وعار ہے ۔

ریاست بہار 38اضلاع پر مشتمل ہے ، ان اضلاع میں سے ضلع دربھنگہ کا نام بھی تاریخی ، علمی اورطبی لحاظ سے قابل ذکر ہے ۔ تاریخ سے ذرا بھی آشنا پر یہاں کے راجامہاراجوں کی تاریخ پوشیدہ نہیں ہوگی ۔ اسی طرح علمی خدمات میں متھلا یونیورسٹی اوردیگر مرکزی یونیورسٹیوں کی شاخوں کی اعلٰی تعلیمی سرگرمیاں قابل تعریف ہے ۔ جہاں تک طبی خدمات کا تعلق ہے تو یہاں سے دانتوں کے تربیت یافتہ ڈاکٹرس ملک کے طول وعرض کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ شعبہ طب میں ان کا منفرد مقام ہے ۔ دربھنگہ کے تعارف میں گندہ پانی اورمچھر کا تذکرہ بھی اہم ہے کہ ذرا سی بوندا باندی میں کیچڑ کی بارات آجاتی ہے اور مچھر توہر موسم میں یہاں کے باشندگان سے رابطہ بنائے رکھتے ہیں ۔ دربھنگہ کے بلاک مغربی کوشیشور استھان کے برنا(برّا)پنچایت کے وارڈ نمبر 5میں بنے عارضی اسکول کاجائزہ لیا تو بہت سی باتیں سامنے آئیں ، جن کی وجہ سے کرب وبلا میں مبتلاءہونا کوئی عجب نہیں ۔گاؤں کے باشندگان محمد عثمان غنی ، نظام الدین ، ہارون الرشید ، معین الدین ، اویس اورڈاکٹر شمیم سے اسکولی تعلیمی سرگرمیوں کے بابت دریافت کیا تو مشترکہ طور پر انہوں نے کہا :”اسکول کی منظور ی حکوت بہار سے مل چکی ہے، اس کی تعمیر کے لئے شاید فنڈ بھی بلاک میں آچکاہے ، مگر اسکول کی زمین نہیں ہونے کی وجہ سے اسکول کی تعمیر نہیں ہوسکی ہے ، جہانتک تعلیمی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو اساتذہ بالعموم ندارد ہی رہتے ہیں ۔ ہفتہ بھر میں کوئی دو تین دن ہی تعلیم ہوپاتی ہے ۔ اکثر ایک ٹیچر آتی ہے تودوسری غائب ، یہی وجہ ہے کہ طلباءکی صحیح تعلیم نہیں ہوپاتی ہے “۔

اسی طرح جب ان سے مڈڈے میل کے تعلق سے گفتگوہوئی تو کہا:”بابو ! ٹیچر پابندی سے آئیں گے تبھی تو پڑھائی ہوگی ، بچے آئیں گے ، ان کو کھاناملے گا ، جب ٹیچر نہیں تو کھانا کیسا ؟“۔

اس وارڈ کے باشندہ ڈاکٹر شمیم سے بات کی تو انہوں نے کہا :”ٹیچر مسلسل نہیں آتی ہیں ، کچھ دنوں قبل میں نے ان دوٹیچروں میں سے ایک سے پوچھا آپ پابندی سے کیوں نہیں آتی ہیں ،انہوں نے جواب دیا ہم ایک لمبی ٹریننگ پر ہیں “۔جب گاؤں کے ایک باشندہ ابوالکلام سے گفت وشنید ہوئی تو انہوں نے کہا ؛”تمہارے پاس اور کوئی کام نہیں ، سب کا ٹھیکہ تم نے ہی لے لیا ہے ، گاؤں کے بڑے لوگ جانے اس اسکول کو “۔

جب طلباءسے متعدد دفعہ تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں گفتگو کی تو انہوں نے کہا :”بھیا ! ٹیچر آتے ہی نہیں تو کیسے پڑھیں گے ، ہم لو گ جب میڈم سے کہتے ہیں کہ آپ پابندی سے کیوں نہیں آتی ہیں ، ان کا جواب ہوتا ہے کہ فلاں میٹنگ میں گئے تھے ، اسکول کے فلاں کام سے بلاک گئے تھے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں بھوجن کیوں نہیںملتاہے تو وہ کہتی ہیں کہ کچھ آئے گا تب ہی تو ملے گا ، آتا کچھ نہیں ، کیا ملے گا (ایک طالبہ نے تویہاں تک کہہ دیا)بھیا !مڈڈے میل کے لئے جوچیزیں آتی ہیں اس کی دو جگہ گٹھری بن جاتی ہے ۔ (کن کن کے لئے )مجھے معاف کردیجئے ، میں نہیں بتاؤں گی آپ کو “۔جب ان طلباءسے پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ باتیں گاؤں کے بڑوں سے بتایا ہے توانہوں نے مسکراتے ہوئے کہا :”گاؤں میں کون بڑا ہے ، کس کے پاس جائیں ، کس سے کہیں ؟اگر گاؤں کے بڑے ہی ایسا کریں تو کیا کریں ، چلئے بھیا ! ہم لو گ آپ کو ہی بڑا مانتے ہیں، ہمارے لئے کچھ کریں گے ، ہم نے سنا ہے کہ بلاک میں کسی سے شکچھا کے بارے میں شکایت کرسکتے ہیں ، کیا آپ ہمیں ان کے پاس لے جائیں گے “۔ان معصوم بچوں کی باتیں سن کر راقم انتہائی متفکر ہوگیا ہے کہ آخر اتنے معصوم بچوں کی زبان پر یہ کیوں آیا کہ بڑے کون ہیں،جب بڑے ہی ایسا کریں تو کس سے کہیں ؟راقم نے ان طلباءسے کہا کہ میںتو آپ لوگو ں کوبلاک نہیں لے جاسکتا ، مگر میں فلاں تاریخ کو ان سے ملنے جاؤں گا ، تم لوگ ان کے نام صرف ایک درخواست دے دو ، تمہاری تما م پریشانیاںدورہوجائی ںگی، لہذا انہوں نے ایک درخواست بی ای او کے نام دی ، جو کہ بدقسمتی سے ان کے پاس نہیں پہنچ پائی ، راقم کے پاس محفوظ ہے ۔

کئی دنوں کی مسلسل غیر حاضری کے تئیں جب ان طلباءسے گفت وشنید کی تو انہوں نے کہا؛”16اکتوبر 2011کو دسہرے کے نام پر تعطیل ہوئی ، تب سے اب تک ہماری میڈم واپس نہیں آئی ہیں “۔یہ واضح ہوکہ طلباءسے گفتگو 9نومبر 2011کو گفتگو ہوئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس اسکول کے ٹیچر سے ملاقا ت نہیں ہوپائی ، اس گاؤں کے باشندہ عثمان سے کہاکہ جس طرح ہو ان کا نمبر ضرور دیں توانہوں نے کئی دنوں بعد ان کا نمبر دیا، اس نمبر پر رابطہ کرپرنسپل سے گفتگو کی کوشش کی گئی ، مگر ہمیشہ ان کے شوہر نامدار سے گفتگوہوئی پر ان سے نہیں ، ہائے میری بدقسمتی !!!

اسکول کی سرگرمیوں کے تئیں گاؤں کے تاثرات کے ساتھ 11نومبر 2011کو راقم بلاک تعلیمی آفیسر سے ملاقات کے لئے گیا ، بلاک اس گاؤں گجبور یا وارڈ نمبر 5سے کوئی سات کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ بلاک کے شمال میں ہائے اسکول واقع ہے ،اس کے ہیڈ ماسٹر جناب اویس سے کہاکہ مجھے بی ای او سے ملاقات کرنی ہے ، انہوں نے ان سے رابطہ کی کوشش کی مگر موبائیل آف تھا ۔ چنانچہ انہوں نے بی آرسی کے کو آڈینیٹر عبدالقادر کو کال کی اورمیرا تعارف کرایا میری طرف سے ملنے کی درخواست دی ، جناب عبدالقادر نے انہیں بتایا کہ بی آر سی بھیج دیجئے ، راقم بی آرسی گیا ، ساڑھے دس بجے سے 12;10تک مقفل بی آر سی کے گیٹ پران کا منتظر رہا ، کوئی نہیں آیا ، نہ عبدالقادر ، نہ بی ای او، اورنہ ہی کوئی اور ۔ لہذا مایو س واپس آگیا ۔ پھر 12نومبرکو بھی بلاک گیا ، بی آرسی پہونچ کر عبدالقادر صاحب کے بارے میں تفتیش کی پتاچلاکہ وہ آج چھٹی پر ہیں ۔ بی آرسی میں موجود منوج نامی شخص سے بی ای او صاحب کا نمبر لیا ۔

جب راقم نے بی ای او سے رابطہ کیا اورگاؤں کے باشندگان اورطلباءسے ملی جانکاری کو ان کے سامنے رکھا تو وہ انتہائی جھلاکر کہا:”ایسا کچھ نہیں ہر اسکول میں ٹیچر پابندی سے پہونچتے ہیں ، جن کی رپورٹ میرے پاس ہے “راقم نے کہا سرکاغذی طورپر حاضری بنے گی ہی ، جو کچھ بھی ہو، مگراس اسکول کا خیال رکھئے گا ۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اسکول کے لئے تعمیری فنڈ آچکاہے ، مگر زمین نہیں ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں بن پایا ہے ، کیاوہاں کے غریب طلباءتعلیم کی پیاس نہیں بجھا پائیں گے ؟ حکومت جس طرح تعمیر کے لئے فنڈ دےتی ہے ، کیا اس طرح کسی انتہائی پسماندہ علاقہ میں زمین کے لئے کچھ نہیں کرسکتی ہے ؟بی ای او موصوف نے جواب دیا ؛”مجھے پتہ نہیں کہ وہاں کے لئے رقم آئی ہے یا نہیں ، کوئی بھی ایسی اسکیم نہیں جس کے تحت کسی اسکول کے لئے زمین فراہم کی جائے ، ابھی میں میٹنگ میں ہوں “۔ انہوں نے کا ل ڈسکنٹ کردی ۔

اس رابطہ کے کئی دنوں بعد کسی دوسرے نمبر سے متعدد مس کال آئی ،رابطہ کرنے پر پتہ چلا کوئی اور نہیں بی ای او محترم ہی ہیں ، چنانچہ ان سے گفتگو کی ، اس مرتبہ انہوں نے انتہائی نرم لہجے میں گفتگو کی ،ایسا محسوس ہورہاتھا کہ شاید ان سے پہلے کبھی گفتگو ہوئی نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا :”آپ نے پوچھا تھا کہ حکومت زمین فراہم نہیں کرسکتی ہے تو سنئے ! اب تک ایسی کوئی اسکیم نہیں بن پائی ہے ، ہوسکتاہے چند دنوں میں بہار حکومت اس مدعے پر گفتگو کرے “۔

بہار کے متعدد اضلاع میں ایسی پریشانی ہے کہ اسکول کو منظوری مل گئی ہے ، تعمیر کے لئے فنڈ بھی آچکا ہے ، مگر زمین کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں بن پایا ہے ، چنانچہ یہ سوال ہوتا ہے کہ آخر تعلیم غریبوں کا حق نہیں ہے ؟ کیا پسماندہ علاقہ کے افراد زمین نہ دے سکیں تو وہاں کی نسلوں کوتعلیم سے محروم رکھا جائے گا ؟ کیا ایسے علاقوں میں حکومت زمین مہیا کرواکے اسکول تعمیر نہیں کرواسکتی ہے ؟حکومت اگر تعمیر کے لئے فنڈ دے سکتی ہے توکیازمین مہیا کرواکے اسکول تعمیر کروانا حکومتی سرمایوں کی بربادی ہوگی ؟بی ای او سے گفتگو کے بعد شش وپنچ میں ہوں کہ زمین کے متعلق کوئی اسکیم ہے کہ نہیں ؟اگر ہے تو حکومت کے افراد حلقہ کا جائزہ لیں اور زمین فراہم کرواکے اسکول کی تعمیر کروائیں ۔ اگر ایسی اسکیم نہیں ہے تو مرکزی و ریاستی حکومت کو ذرا ٹھنڈے دماغ سے اس مدعے پر غوروخوض کرناچاہئے ، زمین فراہم کرنے کے تعلق سے اسکیم بنانی چاہئے ۔ ہاں ! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گاو ¿ں کے افراد زمین دینے کے لائق تو ہوں مگر کسی وجہ سے نہیں دے رہوں ،ایسے لوگوں سے حکومت زبردستی زمین لے کر اسکول تعمیر کروائے ،تاکہ بنیادی تعلیم کا بھی صحیح نظم ہوسکے ۔ آج اعلی و معیاری تعلیم کے لئے مرکزی سطح پر نہ جانے کیسی کیسی اسکیمیں شروع ہورہی ہیں ، بے شمار منصوبے بن رہے ہیں ، انتہائی کم قیمت پر لیپ ٹاپ کی فراہمی ، آن لائن امتحان کی سہولت ،کلاسک اسکول کی طرف پیش رفت اوراعلی تعلیمی اداروں کی تعمیر کا مسئلہ ، سبحان اللہ !! مگرابتدائی تعلیم کو معیاری بنانے کے لئے نہ کوئی قابل ذکر پیش رفت اورنہ ہی کوئی اعلی کو شش ، سبحان اللہ ،سبحان اللہ !!

سب سے زیادہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ جب گاؤں کے باشندگان سے تعلیمی سرگرمیوں پر گفتگو ہوتی ہے تووہ مسائل بتاتے ہیں ، اسکول کے مدعے کو سامنے رکھتے ہیں ،جن سے انہیں تکلیف ہوتی ۔ اگر واقعی ان کا دل تعلیمی نظام کے مضمحل ہونے سے دکھتا ہے تووہ بلاک تعلیمی آفیسر یا ان سے اعلی عہدیداران کے سامنے ان مسائل کو کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ فی الواقع گاؤں کا ہرفرد اپنی ذمہ داری محسوس کرکے مسائل کو اجاگر کریں اور اعلی عہداران کو ان سے مطلع کریںتو بعید ازامکان نہیں کہ تمام مسائل حل ہوجائیں ، تعلیمی پریشانیاں دور ہوجائیں ،جی بولئے باشندگان محلہ بیدارہوں گے نہ اب آپ ؟ آپ بول سکتے ہیں ، آپ کا حق ہے ، بولیں گے نا اب ؟ جی جی بولا کیجئے ، تھوڑا وقت نکال کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کیجئے ، انشاءآپ کامیاب ہوں گے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100748 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More