احتجاج مگر احتیاط سے

احتجاج کسی بھی قوم،فرد کا ایک بنیادی ،اخلاقی،شرعی اور قانونی حق ہے،احتجاج تب کیا جاتا ہے کہ جب کسی قوم یا کسی فرد کو موجودہ گورنمنٹ ،نجی ادارے یا کسی شخص سے کوئی تکلیف ہو۔اپنی تکلیف کے ازالے کے لیے وہ شخص مجبوراً احتجاج کرتا ہے اور پھر یہ احتجاج بھی مختلف طریقوں کا ہوتا ہے،افراد اپنی آزادی وبساط کے مطابق اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہیں اور کرنا چاہےے بھی ۔ظاہر ہے جب کوئی شخص اتنے اخلاص اور تمناﺅں کے ساتھ ووٹ جیسی قیمتی چیز اپنے حلقہ کے امیدوار کی امید پر وارتاہے اور پھر اس کے بعد اگر اسے اپنے متعلقہ ایم این اے یا وزیر سے شکایت ہوگی یا گورنمنٹ سے شکایت ہوگی علیٰ ہذا القیاس تو وہ اپنے آخری آپشن(خیر اب تو اس کے بعد بھی بہت سارے آپشن بن گئے ہیں کسی وقت تک احتجاج ہی آخری آپشن ہوا کرتا تھا)کو استعمال کرے گا،احتجاج کے بے شمار طریقے ہیں۔

ایک احتجاج وہ ہے جو پر امن ہوتا ہے اس میں کسی بھی شہری کی جان ومال کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔املاک بھی محفوظ رہتی ہیں اور یوں یہ احتجاج بھی مکمل ہوجاتا ہے اور دوسرا وہ طریقہ احتجاج ہے کہ جس میں انسان اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھے بغیر سیل رواں کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں،چاہے اس میں کسی مزدور کی دہاڑی جائے،کسی مریض کی جان جائے،کسی کی خوشی تارتار ہو،کسی کے گھر کا چولہا بجھے،کسی کی نوکری کا مسئلہ بنے،کسی کی پائی پائی سے جمع شدہ رقم سے خریدی گئی گاڑی شعلوں کی نذر ہوجائے یا اس سے بھی بڑھ کر کسی کی جان بھی محفوظ نہ رہے ،یہ دوسری قسم کے احتجاج میں ہوتا ہے۔سب سے بڑھ کر تعجب خیز بات یہ ہے کہ شکوہ وشکایت تو آپ کو سرکار سے ہو اور نقصان پہنچے آپ کے احتجاج سے مزدور کو ،نوکر کو،کسی لاچار پریشان کو یا کسی غریب شہری کو ایسے احتجاج کا مقصد ناقابل فہم ہے ۔ ایسے احتجاج سے اس مریض کا کیا تعلق ،جو ایمبولینس میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے مگر متعلقہ روڈ بند ہوتا ہے، احتجاج کی وجہ سے یا ایسے احتجاج سے ان غریب لوگوں کا کیا واسطہ جو بیچارے دہاڑی لگا کر بمشکل گھر کا چولہا گرم کرتے ہیں۔

یہ بات تو اخلاقیات کی روح سے بھی اور فطرتی اصولوں کے لحاظ سے بھی طے ہے کہ ظلم و زیادتی کسی بھی صورت میں انسانیت کے کسی بھی فرد سے ہو وہ ظلم اور زیادتی ہی کہلائے گا ،مگر اس کے خلاف آواز اٹھانا بھی ،اخلاقاً،قانوناً اور شرعاً حق ہے،اب دیکھنا اور سوچنا یہ ہے کہ اس حق کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے،اگر ہم اس ظلم کے خلاف احتجاج کے پہلے والے طریقے پر عمل کرتے ہیں تو صورت حال بہتر ہوتی ہے اور نتائج بھی امید افزاءہوتے ہیں،مگر جب احتجاج کا دوسرا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو پھر یہ وہی بات بن جاتی ہے کہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان سنانے نکلے نکلتے ہیں تو یہ طریقہ کا اپنا کر آپ خود بھی تو کسی کے مال کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں ،کسی کو اسی قدر تکلیف دے رہے ہوتے ہیں حالانکہ جن کے لیے احتجاج کیا جارہا ہوتا ہے وہ خود بڑے آرام وسکون کے ساتھ اے ،سی رومز میں مزے کررہے ہوتے ہیں۔انہیں اس سے کیا غرض کہ باہر چوکوں،چوراہوں اور سڑکوں پر کیا ہورہا ہے....؟ہماری نظر میں اپنے حصولِ مطالبات کے لیے احتجاج کرنے سے پہلے روڈ بلاک کرنے یا جلاﺅ گھیراﺅ سے پہلے ان لوگوں کے گھروں اور دفتروں کا رخ کرنا چاہیے،جنہیں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ہم نے خود اسمبلیوں میں بھیجا ہوتا ہے۔کم از کم ایسا احتجاج ہونا چاہیے تاکہ ان نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں کو بھی علم ہوکہ ہمیں یہاں تک لے کر آنے والے خود بھی یہاں تک آسکتے ہیں۔

جہاں حالت ایسی ناگفتہ بہ ہوجائے کہ ان میں درجنوں افراد کے خون سے ہولی کھیلی جائے ،اور پتہ بھی نہ چلے تو (جیسا کہ یہ تسلسل سے جاری ہے)مجرمین کے خلاف حکومتی کاروائی بھی ہوتی ہوئی نظر نہ آئے تو پھر یونہی ہوگا اور جہاں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہی سہی ملک میں 37لاکھ افراد انتہائی غریب اور کسمپرسی کی حالت گزارنے پر مجبور ہوں،اور جہاں اسمبلی کے اخراجات55ہزار روپے فی گھنٹہ سے متجاوز ہوں اور سارے خسارے کے باوجود وزیر اعظم سیکٹریٹ کے اخراجات میں 1.39فیصد کا اضافہ ہوا ہو تو وہاں ایسے حالات پر صرف احتجاج ہی کیا جاسکتا ہے یا اپنی قسمت پر ماتم!ووٹ لینے کے بعد کانوں میں رﺅئی کے پھاپے ٹھونس لینے والے اصحاب ِاقتدار تک بجز احتجاج کے آواز پہچانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اگر آپ انہیں تحریراً اپنے مسائل سے آگاہ کرنا چاہیں گے بھی تو ان کے درباری جو دن رات ان کی خوشامد کے فرائض سر انجام دیتے ہیں،آپ کا مکتوب ان تک پہنچنے سے قبل ہی ٹھکانے لگادیں گے۔اگر آپ ان کو کال کریں تو ان کا پرسنل اسسٹنٹ فون ریسیو کرنے کے بعد آپ سے پوچھے گا کہ آپ کا ان سے کام کیا ہے؟نہ بتانے پر وہ آپ کو شرم جتلائے گا ،احتجاج کوئی نئی چیز نہیں،جمہوری روایات کے حامل معاشروں میں بھی بعض مواقع ایسے آتے ہیں جب صدائے احتجاج بلند کرنا ناگریز ہوجاتا ہے لیکن وہاں کوئی بھی شخص جذبات کی رو میں بہہ کر اعصاب کو بے لگام نہیں چھوڑ دیتا،اور نہ ہی وہاں احتجاج کسی توڑ پھوڑ اور تخریب کاری کا سبب بنتا ہے۔وہ مہذب انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں اور انتہائی سلیقہ مندی اور معاملہ فہمی سے حکومت پر دباﺅ دال کر اپنے جائز حقوق اور مطالبات منواتے ہیں۔

حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے دست بدستہ عرض ہے کہ اپنے منصب اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود اورتعمیر وترقی کے لیے کردار ادا کریں اور احتجاج کرنے والے عوام کو چاہیے کہ دوران احتجاج کسی بھی ایسے فعل سے اجتناب کریں جس سے ریاست کی املاک یاعام شہریوں کو کسی بھی قسم کے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو گواحتجاج کے وقت اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھنا مشکل ہوتاہے لیکن عقل مند لوگ عام حالات میں معاشرے کے لیے تعمیری کردارکرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں احتجاج بھی مثبت جہت میں ارتقا کا باعث بنتا ہے،سلیم العقل کبھی بھی احتجاج کی باز گشت کے لیے غیر قانونی ذرائع کواستعمال نہیں کرتا نہ ہی قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے اور ہمیشہ منفی سرگرمیاں ناداں یا کسی کے منفی ایجنڈے کے نقشے میںرنگ بھرنے والے عناصر کرتے ہیں ان سے اتنی سی عرض ہے کہ ....ع
وطن کی فکر کرنا داں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں پر
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 59298 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.