جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر
پوری دنیا پر یورپی ممالک کا سکہ جما ہوا تھا اور ان کی ایسی دھاک بیٹھی
ہوئی تھی ,بلکہ علم و فن سے لے کر سماج و ثقافت تک ،گویا کہ ہر چیز میں ان
کی نقالی کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا اور بد قسمتی سمجھئے یا خوش فہمی
ہمارے ملک میں غلامانہ ذہنیت آج بھی پروان چڑھ رہی ہے ۔اس کا اندازہ آسانی
سے لگایا جا سکتا ہے کسی بھی شہر کے کسی بھی تعلیمی مرکز کے پاس ہی سہی
کھڑے ہوکر تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کریں تو سوائے بزرگوں کے یا چند ایک کے
ہر مخاطب قومی زبان میں بات کرتے وقت انگریزی کے چند جملے یا چند لفظ ضرور
استعمال کرے گا ۔اگر تو یہ گفتگو شروع سے ہوئی انگریزی میں ہوئی تو چند
جملوں کے بعد یہ گفتگو اپنا تسلسل توڑتے ہوئے واپس اردو کی پٹڑی پر آجائے
گی ۔مگر اس میں انگریزی کا جا بجا استعمال ٹاٹ کے پیوند کی طرح ہر گھڑی
لگتا چلاجائے گا۔اس کے بعد پھر انگریزی کا ایک جملہ سنگ گراں کی طرح آپ کے
حسن سماعت کے لئے لڑھکا رہا جاتا ہے ۔ہم میں سے زیادہ تر حضرات ابلاغ کے
معاملہ میں تقریباًاسی انگریزی اور دوسری زبانوں کے استعمال ہونے لگے ہیں ۔ایک
اور خرابی یہ بھی ہے کہ قومی زبان کے ہوتے ہوئے تمام تر کاغذی کاروائی
انگریزی میں کی جاتی ہے ۔تمام دفتروں میں جو کہ اردو کے ساتھ ظلم و زیادتی
سے کم نہیں ۔جبکہ پوری دنیا میں زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اردو کا
چوتھا نمبر ہے ۔خیر بات دور نکل گئی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی کی اہمیت آج بھی دنیا میں مسلم ہے ۔بحیثیت
مسلمان بلکہ پاکستانی بھی ۔ہمیں عربی زبان پر عبور ہونا چاہیے ۔عربی وہ
واحد زبان ہے جسے یہ سعادت حاصل ہے جس کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے عربوں
سے تین وجہ سے محبت کرو ۔پہلا”میں عربی ہوں “دوسرا یہ کہ ”قرآن بھی عربی ہے
“تیسرا یہ کہ ”جنت کی زبان بھی عربی ہی ہوگی “عربی وہ واحد زبان ہے جو
فصاحت و بلاغت کی انتہاﺅں کو چھوتی ہے ۔اور اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ۔انگریزی
کے تو الفاظ بھی عربی سے کم ہیں ،لغت ایک واضح مثال ہے ۔
پاکستان کی بنیاد جس چیز پررکھی گئی تھی اگر واقعی ایسا ہوتا تو آج منظر
بہت دیدنی و مثالی ہوتا ۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور آج اسی کی بہت بڑی وجہ کہ
ہم باوجود کہ دلی طور پر عربوں سے قریب ہوتے ہوئے بھی بہت دور ہیں ۔جبکہ
نئے دور کی ابتداءعرب سے ہی ہوتی ہے ۔یورپی ممالک سے اگر آج بھی ہمارے
تعلقات بہتر ہیں تو اس کی ایک وجہ دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان و
بیان پر بھی عبورشامل ہے ۔جبکہ ہم عرب کے لیے گرمی سردی برداشت کرنے کے
باجود بھی ان سے بہت دور ہیں اور افسوس ناک ہے ۔
پورے ملک میں اردو کے ساتھ ساتھ اب انگریزی چینل بھی بشریات فراہم کررہے
ہےں اور بہت سارے چینلز اب علاقائی سطح کی زبانوں میں بھی نظر آرہے
ہیں،درجنوں چینلز اپنا ایک وجود رکھتے ہوئے بھی بہت سارے چینلز آزمائشی
نشریات بھی دکھا کر اپنا آپ باور کرواتے رہتے ہیں،ان تمام نجی چینلوں میں
خواہ وہ اردو کے ہوں ،انگریزی،سندھی ،پشتویا سرائیکی اور پنچابی میں ہوں ان
میںنیوز چینل الگ اسپورٹس ،کھیل الگ ،مذہبی چینل وہ بھی خاص اپنے اپنے مسلک
کی بنیادوں پر اور بعض تفریحی چینل ہیں،جو اس وقت اس ملک میں ہیں جو اسلامی
جمہوریہ پاکستان ہے۔اس سے قطع نظر کے ان کے فوائد کیا ہیں اور نقصانات کیا
ہیں اور اس کی بھی فی الحال کوئی بحث نہیں کہ بھارت جو ہمارا روایتی حریف
ہے اس نے کتنے چینلز کے حقوق حاصل کررکھے ہیں،اور انڈیا ان کے ذریعے کیا
پروپگنڈے کرتا رہا ہے اور کرہا ہے اسلام دشمن قوتیں خصوصاً اسلام
وپاکستانگر موسیٰ ؑ کے دور میں اگر سحر عام تھا تو اس وقت موسیٰ کا معجزہ
بھی اسی طرح کا تھا اورعیسیٰ کے دور میں طب عروج پر تھی تو قدرت نے عیسیٰ
کو معجزہ مسیحائی عطا فرمائی تھی علی ھذا القیاس ،اب تو سرائے کی جگہ سیون
سٹاپ نے لی ہے،خطوط کے سلسلوں کی جگہ میسجز اور ای میلز نے لے لی،اتنے فاسٹ
دور میں ہم نے اس اہم ایشو پر اگر آج بھی سرنہ جوڑا تو ہم دریں چہ شک کہ ہم
عرب سے کٹ کر رہ جائین گے،ایران جو کہ اس وقت اپنی قومی زبان فارسی ہے اس
ملک میں عربی کے 9چینل نشریات دے رہے ہیں،جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان....؟
ہم سچے بھی ہیں بہادر اور مخلص بھی لیکن سوچتے پھر بھی نہیں کہ الیکٹرونک
ٹیکنالوجی ہمارے ساتھ کیا کررہی ہے،اور کیا کرسکتی ہے اور ہم عرب میں کس
طرح روز بروز اپنی ساتھ کھو رہے ہیں،کیا یہ خوف نہیں کہ عالم اسلام میں کیا
ہورہا ہے؟لرزہ برآندام تو تب ہے کہ اگر تیو دشمن قادیانی لابی جو عربی زبان
میں بھی اپنا نیٹ ورک رکھتے ہوئے مسلمانوں کے اندر گمراہی پھیلائی میں
مصروف عمل ہے۔اہل نظر خوب جانتے ہیں کہ بھارت اور قادیانی کی مثالیں سامنے
ہیں بھارت جنوبی ایشیاءسے بھی آگے نکل کر بین الاقوامی سطح کے قریب قریب کی
باتیں کرتا سنائی دے رہا ہے اور دوسرا دشمن جو قادیانیت کی صورت میں ہے،وہ
عربی کے لبادے میں اپنے مکروہ عزائم کہاں تک پھیلا رہا ہے ....
وطن عزیز میں ان چینلز کی اور خود میڈیا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے،اور ان
کی ایک بہت ہی خاص بات کہ یہ زیادہ تر اردو چینل ہیں جو ہماری قومی زبان کی
ترویج واشاعت کے سبب کے ساتھ ساتھ عام رائج اغلاط العوام کو بھی صحیح انداز
میں پیش کرتے ہیں۔
اس ساری تمہید کا قصہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت پہلے ایک چینل عربی زبان
کا بھی ہونا چاہیے تھا اور اخبارات کا نام عربی ہے لیکن عربی نام کے علاوہ
کوئی بھی خبر،کام،فیچر،عربی میں نہیں آیا کبھی،علاقائی زبانوں میں
موجودچینل کے آنے کے ساتھ ہی یہ ضرورت شدید تقاضا کرتی ہے کہ عربی چینل کی
ضرورت کس قدر ہے ،یہ وہی لوگ جانتے ہوں گے جو علاقائی ذہنیت کے سرکل سے
نکلیں ،اور شاید علاقائی چینلز سے زیادہ اب عالمی اور عربی چینلز کی ضرورت
ہے تاکہ عرب دنیا سے روابط استوار کیے جاسکیں اور عربی زبان وبیان کی ترویج
واشاعت بھی آسان ہو اگر آج ہماری زبان عربی ہوتی ،انگلش کی طرح عربی پر بھی
کوشش کی جارہی ہوتی تو لا محالہ 2سال میں عجمی بچہ حفظ کرنے والا 6ماہ سے
بھی کم عرسہ میں حفظ کی تکمیل کرسکتا تھا،اور یوں ابتداءسے ہی علم کی دولت
اسے نکھارد یتی۔
ایک بات توصاف ہے کہ پہلے قوموں اور قبیلوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ چند
عشروں کا فاصلہ ہوا کرتا تھا یا انیس بیس کا فرق ہوا کرتا تھا یا خندق کے
مقابل خندق اور گھوڑے اور زرہ بکتر کے مقابل گھوڑے اور زرہ وبکتر ہوتی
تھی،بلکہ اس سے بھی پہلے ار تبدیل نہ ہوئے تو کل کیا ہوگا فیصلہ دیکھا
جاسکتا ہے،اور میں ایک بہت برا کردار علماءبھی ادا کرسکتے ہیں بلکہ علماءپر
ہی اس حوالے سے ذمہ داری عائد بھی ہوتی ہے کیونکہ بنیادی اساس ونظریات کے
موافظ یہی طبقہ ہے رہی وزارت اطلاعات ونشریات تو ان کے خواب وخیالات کبھی
بھی یہ نہیں ہوسکے نہ ہوسکتے ہیں علماءسے عرض کی جاسکتی ہے کیونکہ
نہیں ہے ناامیداقبال اپنی کشتِ ویران سے
ذرا نم ہو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی |