میرا سفر انقلاب۔۔۔۔ قسط دوم

میں نے کہا نا کہ نوکر اور ملازم کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ جس نام سے صاحب بلالے وہی نام ہوتا ہے ۔ عزت ِنفس پہلے مجروح ہوتی ہے اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ حالات سے سمجھوتہ اور پھر مکمل بے حسی۔ مگر میری خوش قسمتی کہ بے حسی کی سطح پر پہنچنے سے پہلے میں اس کشمکش میں مبتلا ہوچکا تھا کہ کروڑوں مزدوروں کی محنت کی قیمت پر عیاشی ہورہی ہے مگر پھر بھی مقدر میں محض ذلت و رسوائی؟لقمے لقمے کو ترسیں ؟بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ؟ علاج کی سہولتیں ناپید ؟ میری تعلیم میں بھی تو میری مفلسی ہی آڑے آئی ، میں کوئی سکول سے بھاگا ہوا بچہ تو نہیں تھا ۔ میری مرحومہ بیوی ماریہ سے میری ایک چار سالہ بیٹی تھی ۔ باپ کو بیٹیوں سے بہت محبت ہوتی ہے ۔ مگر ماں جیسی پرورش باپ کے بس کی بات نہیں ۔ میں نے ایک بیوہ عورت ماریسہ، جسکے تین بیٹے تھے، 1974میں شادی کرلی اور یوں یہ رشتہ آج تک قائم ہے ۔ میری بیٹی کو بھی ماں کی طرح محبت کرنے والی ایک ماں مل گئی ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ میں بے حسی کی سطح پر نہیں پہنچا تھا ۔ اس میں میرے بھائی کا بہت نمایاں کردار تھا۔ وہ بذات خود مزدور یونینوں میں حصہ لیتا تھا ۔ ایک لمبی داستان ہے مگر مزدور یونین میں مجھے اعلیٰ ترین سطح تک پہنچانے میں میرے بھائی کا بہت زیادہ حصہ ہے۔ محنت سے کبھی جی نہیں چرایا۔۔۔ یہ فوجی آمریت کا زمانہ تھا۔ میں نے مختلف کارخانوں میں کام کرنے والی یونینوں کے درمیان رابطے بڑھائے ۔ مزدوروں کو منظم کیا اور بالا آخر اپنے حقوق کے لیے ہڑتالیں شروع کروادیں ۔ آمریت کے سائے میں چلنے والی لیبر کورٹ نے ہڑتالوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مجھ سمیت بے شمار دیگر لوگوں کو جیل بھیج دیا۔ جیل بھی میرے لیے سیکھنے کا ایک اورموقع تھا ۔ نظام ِ جبرو استحصال کو سمجھنے کا ۔۔۔۔ میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ مزدوروں، غریبوں کے حقوق محض یونین کی ہڑتالوں سے حاصل کرنا ممکن نہیں ۔اس کے لیے سیاسی قوت حاصل کرنا ناگزیر ہے ۔یہاں سے میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ 1980کے آغاز میں ماہرین تعلیم، دانش وروں اور تمام یونین لیڈروں کو اکٹھا کیا اور ایک سیاسی جماعت کی بنیادرکھی اور1982میں اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر ہار گیا یا ہروا دیا گیا۔ 1986میں کانگریس کی سیٹ پر منتخب ہوگیا ۔ ہم نے موجودہ استحصالی آئین کی اصلاح کی کوششیں شروع کیں ۔ ہم نے مطالبہ کیا کہ صدر کا الیکشن برائے راست عوام کے ذریعے ہونا چاہیے کیونکہ آمریت کے زیرِ سایہ طاقت اور دولت کے بل بوتے پر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی ریٹائر جرنیل ہی صدارت کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے ۔ ہماری پہلی سیاسی کامیابی یہ تھی کہ بالآخر ہم اس مطالبے کو منوانے میں کامیاب ہوگئے کہ صدر کا انتخاب برائے راست عوام کے ووٹوں سے ہی ہوگا ۔ یہ ایک بڑی عظیم کامیابی تھی ۔ آمریت کے 29سالوں میں پہلی بار 1989میں صدر کا انتخاب برائے راست عوام کے ووٹوں سے ہوا جسمیں میں نے بھی حصہ لیا ، مگر کامیابی نہ ہوئی ۔تاہم 1994اور 1998کے انتخابات میں مجھے باقاعدہ ہروادیا گیا ۔ استحصالی نظام کے پروردہ سارے کار پرزے خوف زدہ تھے ۔ لہٰذا فراڈ الیکشن کے ذریعے راستہ روکنے کی کوششیں کی گئیں ۔ تین دفعہ الیکشن ہارنے کے باوجود مجھے اپنی کامیابی کا یقین تھا کیونکہ میں مزدورں ، غریبوں اور افلاس زدہ لوگوں کی جنگ لڑ رہا تھا ۔ میری ذاتی غرض ، لالچ اور دولت مند بننے کی خواہش میری جدوجہد کا محرک ہرگز نہیں تھی ۔ بالآخر 2002کے الیکشن ہوئے اور میں کامیاب ہوگیا ۔میرے ملک کے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں آئیں؟ میرا ملک کہاں کھڑا تھا؟ پھر کہاں پہنچا؟ کیا سماجی تبدیلیاں آئیں ؟ بین الاقوامی دنیا ہمیں اب کس نظر سے دیکھتی ہے؟ یہ ایک مکمل تبدیلی تھی ۔ تعمیر نو کے سفر کے نتیجے میں ایک نیا ملک ایک نئی شناخت کیساتھ خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے ۔غریبوں اور مزدوروں کے مسکراتے چہرے ایک خوشحال مستقبل کے یقین کیساتھ ان خوش کن تبدیلیوں سے مخصوض ہورہے ہیں ۔ میں اپنا نام بھی بتاﺅں گا اور کام بھی کیونکہ میرے کام نے ہی میرا نام بنایا ہے ۔ (جاری ہے۔۔۔۔)
Syed Abid Gillani
About the Author: Syed Abid Gillani Read More Articles by Syed Abid Gillani: 24 Articles with 20359 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.