کربلا ،شہادت گاہ سے دانش گاہ تک

عارف بہار

حسینؓ ایک انسان کانام ہے اور نہ کربلاایک مقام کانام۔حسینؓ ایک کردارہے اور کربلا ایک درسِ مسلسل۔حسینیت ایک انسان کا رویہ نہیں ایک مکمل انسانی رویہ اور فلاسفی ہے۔حسینؓ ،حسینیت اور کربلامیں جو بھی نام سامنے آئے حریت کا ایک سیل رواں ذہن و دل میں گھومنے لگتا ہے خالق کی طرف سے آزاد پیدا کیے گئے انسانوں کواپنے حکمران مشاورت سے چننے کی آزادی۔کبھی قلندرانہ ادا دکھائی دیتی ہے ہجوم اور بھیڑ جمع ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے جیسے ہوجہاں ہو ہلکے ہو یا بوجھل خالق کے راستے میں نکل پڑو۔کبھی اس میں مجاہدانہ تب و تاب جھلکتی ہے کہ مقابل کے لشکریوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔کبھی ایک عاشق زار کی شبیہ بنتی ہے کہ جو سید المرسلین ﷺ کے دین کی قدار کو بچانے کے لئے اپناتن من دھن ہی نہیں گھرانہ نذر کردیتا۔ کربلا محض ایک شہادت گاہ نہیں ایک مکمل دانش گاہ بھی ہے جہاں انسان کے سیکھنے اور سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔کربلا میں امام عالی مقام کی شہادت آب ِزر سے لکھی گئی ورق در ورق کتاب ہے۔سانحہ کربلاکا سبق یہ ہے کہ اقتدار کی بجائے اقدار اہم ہو تی ہیں۔خلافت مسلم معاشرے کی ایک قدر اور روایت تھی۔مشاورت اس ابتدائی معاشرے کا پہلاپہلا حسن۔جب یہ روایت یہ قدر اور ادارہ ملوکیت کی راہوں پر چل پڑا تو امام عالی مقام سے رہا نہ گیا۔انہوں نے مسلم معاشرے کاراستہ ہمیشہ کے لئے بدل جانے کے اندیشے سے تاریخ انسانی کی بے مثل اور مظلومانہ قربانی پیش کی۔اپنی ذات کو ہی نہیں اپنے اعلیٰ نسب خانوادے کے شیر خواروں تک کو امڈنے والے بگاڑ کی راہ میں اسپیڈ بریکر کے طور استعمال کیا۔انہوں نے مسلم معاشرے کی ایک مضبوط قدر کو بچانے کے لئے اقتدار کو ٹھوکر مار دی۔امام عالی مقام چاہتے تو جمے جمائے نظام سے شراکت اقتدار کا راستہ اختیار کرتے۔آپ اقتدار کے کیک میں شراکت کر کی” جیو اور جینے دو “کا اصول اپنا لیتے۔اس کے لئے آج کی طرح بہانوں کی کیا کمی تھی۔امت کا وسیع تر مفاد،عظیم مقصد کے لئے مفاہمت وغیرہ وغیرہ رنگ برنگی تاویلات اور بہانوں کی اس عہد میں بھی کیا کمی تھی۔مصلحت اور مصالحت کے نام پر جال ،پھندے اورپند و نصائح غرضیکہ امام کا دل لبھانے کا ہر سامان اس وقت موجود تھا۔لیکن وہ امام ہی کیا جو اپنے پیچھے کھڑے لوگوں کے لئے مثال قائم نہ کرے اور امام بھی خانوادہ رسول کا حصہ ہو تو اس کے فرائض دو چند ہوجاتے ہیں۔امام نے اعلیٰ اقدار کو بچانے کے لئے صرف اقتدار کو ہی نہیں ،پرسکون شب وروز کو ہی نہیں اپنی جان اور گھرانے کو قربان کر کے مسلم معاشرے کے لئے یہ مثال قائم کی کہ اقدار ،اصول اور ادارے ہر شے پر مقدم ہوتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال نے اسی امامت کے مقام و مرتبہ کی تصویر کشی یوں کی ہے

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحب ِاسرار کرے ہے
وہی تیرے زمانے کا امام ِبرحق جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ ِدوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے

امامِ عالی مقام ؓکی شہادت کا ایک اور نمایاں درس کامیابی اور ناکامی کے ظاہری معیارات اور پیمانوں کا استرداد ہے۔جسے دنیا بظاہر کامیاب اور ظفر مند سمجھتی ہے وہ ان کی وقتی کامیابی ،ان کا داؤ لگنا تو ہو سکتا ہے کامیابی ہر گز نہیں۔ایسے لوگ جیت کر ہار جاتے ہیں۔آنے والے زمانوں کے لئے اپنی ساکھ کا مقدمہ ،اپنے مقام و مرتبے کامقدمہ وہ عملاََ ہار چکے ہوتے ہیں۔ان کے گلے کا ہار اور سر کاتاج دراصل ذلت اورمسکنت کا نشان ہوتا ہے اور پھر ذلت کا یہ بھوت ان کے نام کے ساتھ چمٹ کر رہ جاتا ہے۔بظاہر ناکام دکھائی دینے والے رہتی دنیا تک فاتح کے نام سے یاد رکھے جاتے ہیں۔معرکہ کربلا میں قافلہ حسینؓ کے بہتر افراد نے بظاہر ناکامی کو گلے لگایا لیکن تاریخ اور وقت نے ثابت کیا کہ کربلا کے مظلوم فاتح تھے اورانہیں شہادت سے ہمکنار کرنے والے ناکام و نا مراد ہیں۔عہد حاضر میں طاقت کو معیارِحق سمجھنے کا رواج و رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔لیکن امام عالی مقام کی قربانی نے ثابت کیا کہ طاقت حق نہیں ہوتی۔طاقت کاہونا اس کی سچائی کا ثبوت نہیں ہوتا۔طاقت کسی رسہ گیر ،فاسد ،فاسق اور فاجر کو بھی حاصل ہو سکتی ہے اوریہ حقیقت تو ہو سکتی ہے صداقت نہیں۔اسے صداقت سمجھ کر سر جھکانا نہیں سر کٹانا لازم ٹھہرتا ہے۔آج کے مسلم معاشرے کو قدم قدم پر کرب وبلاکا سامناہے لیکن المیہ ہے کہ آج قافلہ حجاز میں ایک حسین ؓبھی نہیں۔ ک سے فلسطین تک ہر گام پر کربلاہے مسلم معاشرہ کربلا کی دانش گاہ سے کچھ سیکھنے کو تیار ہے نہ کربلا کی قربان گاہ کونشانِ منزل سمجھنے میں سنجیدہ ہے۔اس لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ طاقت مظلوموں کے لیے سفاک اور ظالم بنتی جا رہی ہے۔عزت،عروج،آزادی اور حمیت ان کے گھر سے رخصت ہو چلی ہے۔آج کے مصلحت کوش مسلم سماج کے لئے کربلا کا پیغام یہی ہے
نہ خلاوں میں مجھے ڈھونڈ تو نہ ہی مقبروں میں تلاش کر
جو سجے ہوئے ہیں صلیب پر مجھے ان سروں میں تلاش کر
Ayaz Al Shaikh
About the Author: Ayaz Al Shaikh Read More Articles by Ayaz Al Shaikh: 13 Articles with 10679 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.