بادلوں کا بہاؤ، بجلی کی چمک،
اِس چمک سے پیدا ہونے والی پر شور گرج،پھر ایک ہلکی سی پھوار، پھر اِس
پھوار کا موسلا دھار بارش کی شکل اختیار کرجانا اور آسمان سے پانی کی شکل
میں رحمتوں کا نزول،پھربارش کے تھم جانے کے بعد مردہ زمین کا لہلہا اٹھنا،
پھرسبزے کی چادر کو اوڑھ لینا،چرند وپرند کامسرور ہو اُٹھنا اور انسانوں کے
چہروں پر احساسِ مسرت کی تمتماہٹ، الغرض، نہ جانے ایسے کتنے ہی خوشنما
مناظر موسمِ باراں میں اُبھرآتے ہیںاور مخلوقِ خداوندی کے سرور و انبساط کا
سامان مہیا کر جاتے ہیں۔پانی جیسی نعمت ِ خدا وندی سے وابستہ یہ سارے قدرتی
مناظر اِنسانوں کے لیے اِس قدر عام ہیں کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پانی
کے جس گلاس کو وہ اپنے ہونٹوں سے لگاکر اپنی پیاس بجھا تا ہے ،اُس کے پیچھے
کارفرما، آنکھوں کو خیرہ کردینے والے اِن واقعات کے ایک نادر نظامWater
Cycle سے وہ واقف نہیں ہے۔
قرآن الحکیم کی چوبیسویں سورة النور کی ترتالیسویں آیت قدرت کا یہ حسین
منظر اِن الفاظ میں پیش کرتی ہے: ”....کیاتم نے (یہ منظر)نہیں دیکھاکہ(کس
طرح مختلف سمتوں سے مختلف ) بادلوں کو اللہ چلاتا ہے پھر(وہی توہے جو)
اِن(بادلوں) کے مابین ہم آہنگی(کی فضائ) پیدا کرتاہے، پھر انہیں(ایک مخصوص
خوبصورت) تہہ داری عطا کرتا ہے.... پھر (اُبھرتے ہوئے ایک اور منظر کو بھی)
تم دیکھتے ہو کہ(وہی ) اِن(بادلوں) کے باہمی ارتباط سے بارش نکال لاتا ہے
اور وہ پہاڑوں (جیسے اِن ہی بادلوں )سے جس پر چاہے اولے برسا دیتا ہے
اور(اِن کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے)جس سے چاہے صرفِ نظر کردیتا
ہے، کیا عجب کہ(بادلوں کی اِس منظم نقل و حرکت کے دوران چمکنے والی) بجلی
اُن کی بصارتوں کو اُچک لے جائے....“
موسم باراں کے یہ وہ عام مناظر ہیں جو ہر انسان کی نظر سے زندگی بھر گزرتے
رہتے ہیں۔باشعور انسانوں کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ کے ان عام
واقعات ہی سے،جن کی جانب انسانوں کی توجہ عام طور پر بہت کم مبذول ہوتی ہے
،اپنی ہدایت کے اشارے اخذ کر کے عبرت حاصل کرلیتے ہیں۔ایمان افروز حقیقت یہ
ہے کہ کتاب اللہ میں رب تعالیٰ نے صرف وہ مثالیں پیش فرمائی ہیں،جو قیامت
تک انسانوں کی نظروں کے سامنے رہیں گی، چاہے وہ کسی دور کے انسان کیوں نہ
ہوں۔جیسے یہ بارش،بادل اور پانی،جو ہر زمانے کی حقیقت رہے ہیں، قیامت تک
اِن سے انسان اور انسان سے اِن کی وابستگی مستقلاًرہے گی اور اِن سے وابستہ
سارے منظرانسانوں کی نظر میں ہمیشہ سمائے رہیں گے۔ضرورت بس اِن کی جانب
متوجہ ہونے اوراِن پر غور کرنے کی ہے۔غور فرمائیے کہ بخارات کا اوپر کی
جانب سفر،پھر اِن کا بادلوں کی شکل اختیار کرنا، اِن بادلوں کا مختلف سمتوں
میں مختلف رفتار سے سفر، پھر اِن بادلوں کا تہہ در تہہ اِجتماع، پھر اِن کے
حجم کا گھٹنا بڑھنا اور زمین سے انکے فاصلے کاکم یازیادہ ہونا جیسے واقعات
پر مشتمل یہ سارا نظام کیا ایک خود کار نظام ہو سکتا ہے؟ یا اپنی مرضی کے
یہ خود ہی مالک ہو سکتے ہیں؟ یایہ کسی کے احکام کے پابندہیں ؟ عقلِ سلیم یا
کامن سنس کا حامل کوئی انسان کبھی اِس نظام کو خود کار نہیں کہہ سکتا۔اُس
کی عقل پکار اُٹھے گی کہ یہ سارا نظام بلکہ اِس کائنات کا ایک ایک ذرہ ایک
ناقابلِ تصور قوت و حشمت کی مالک ہستی کے احکام کا پابند ہے، جو اِس کائنات
کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔اُسی خلاق العلیم کا حکم ہر قدرتی نظام کی پشت
پر کارفرما ہے اوراِن نظاموں کی باریکیوں پر غور و فکر انسانوں کو اُس کے
بے پناہ کمالات کی مزید معرفت عطا کرتی ہے۔یہی غور وفکر اُن کے سینوں میں
خوف کی بیداری اور رب سے اُن کی قربت کا باعث بنتی ہے اور وہ دیدہ عبرت
نگاہ سے سرفراز ہوتے ہیں۔رب تعالےٰ خود ہمیں اِس حقیقت کی خبر دے رہا ہے۔
ملاحظہ ہو دوسری سورة کی ایک سو چونسٹھویں آیت:” یقینا ....۱)آسمانوں اور
کرّہ ارض کی تخلیق میں اور ۲)گردشِ لیل و نہار میں اور۳) بحر(کی موجوں )
میں(ڈولتی ہوئی محو سفر) کشتی میں،جوکرّہ ارض کے باشندوں کے لیے منفعت بخش
ہے اور۴)آسمان کی بلندیوں سے اللہ نے جس بارش کو نازل فرمایا،جس کے ذریعہ
اُس نے زمین کو اس کے بے جان ہوجانے کے بعد(دوبارہ) زندگی دی اور۵)زمین میں
حرکت کرنے والے ہر نوع کے جانور پھیلادیے اور۶)ہواﺅں کے(تیز گامی یا سست
گامی کے ساتھ چلنے،رُخ ) بدلنے میں اور۷)آسمان اور زمین کے درمیان (بغیر
کسی ستون کے معلق ہونے والے آب بردوش)بادلوں میں اور تابع ِ فرمان (بن کر
ضرورت مند انسانیت کے لیے پانی کا ایک زبردست منبع )بن جا نے
میں،(الغرض،مذکورہ بالا سات قسم کے عام تجربے کے اِن قدرتی مظاہر
میں)....اُن باشندگانِ زمین کے لیے یقینا نشانیاں(Signs اور
Evidences)ہیںجوعقل سے کام لیتے ہیں(یامنظق، Logic، Reasonin جیسی دولت کا
استعمال کرتے ہیں)۔“
ستونوں کے بغیر ایستادہ اِس بے پناہ آسمان کی موجودگی پرنہ جانے کتنی مدت
گزر گئی، انسانیت کے قافلوں کو اپنی پیٹھ پر لادے ، تیزی سے گھومتی ہوئی یہ
گیند نما زمین نہ جانے کب سے اپنی اطاعت شعاری رب کے منظر انسانوں کے سامنے
پیش کررہی ہے۔ دریاﺅں اور سمندروںکے پانی میں اچھالBouncingکی
خاصیت،انسانوں اور ا نکی ضرورت کی اشیاءکا ایک بر اعظم سے دوسرے براعظم تک
لانے اور لے جانے والی کشتیاں اور سمندری جہاز، آسمان سے نازل ہونے والی
بارش سے مردہ زمین کا دوبارہ جی اٹھنا، سبزہ زار مخملی قالین سے زمین کا
لہلہانا، ہواؤں کا پلٹ پلٹ کر رفتار کی مختلف شرح کے ساتھ بہنا، زمین اور
آسمان کے درمیان بادلوں کے لیے کسی سہارے کی عدم موجودگی، یہ ایسے عام فہم
اور عام قسم کے منظر ہیں کہ جو انسان کو روز دکھائی دیتے ہیں اور سوچنے پر
بھی مجبور کرتے ہیں اوریقین بھی دلاتے ہیں کہ اس مکمل نظام کو ایک پر شوکت
و ذی حشمت رب نے ڈیزائن دیا ہے۔ وہ زبردست قوتوں والا، حشمتوں والا ہے، جس
کا کوئی شریک نہیں، پارٹنر نہیں ، ہمسرنہیں، نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔ وہ ایک
اکیلا، وحدہ لا شریک ہے۔ لیس کمثلہ شئی اسکی مثال کسی چیز سے ہرگز نہیں دی
جاسکتی۔سوال یہ ہے کہ ان ساری چیزوں کی تخلیق کا منشا ءومقصد کیا ہے؟اور کب
تک ہم اِس مقصدو منشاءکی جستجو سے گریز کرتے رہیں گے!!یہ نہایت ضروری ہے کہ
ہم اُس مقصد ومنشاءکی جستجو کریں جو اِس کائنات اور کائنات میں موجود جملہ
اشیاءکی تخلیق کے پیشِ نظر رہا ہے اور یہ کہ زمین پر ہم اِنسانوں کی
موجودگی سے اصلاًکیا مطلوب و مقصود ہے؟ پھر اپنی پوری سعی اور لگن سے اسے
پورا کرنے کی جدوجہد میں لگ جائیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ زمین پر انسان سارے
کام کر لیتا ہے ، ایک اِس کام کو چھوڑ کر!!!
بادل اور بارش ہی کے موضوع پر تیسویں سورة کی اڑتالیسویں آیت میں ایک نئے
اسلوب کے ساتھ اس حقیقت کو ہماری ہدایت کے لئے یوں پیش کیاگیا :”وہ اللہ ہی
تو ہے جوبادِ باراں کی ترسیل کرتا ہے اور یہی بادِ باراں( بحکمِ خداوندی)
بادلوں کو چلاتی ہے، پھرجس طرح وہ چاہتا ہے اِن بادلوں کو(اِن ہواﺅں کے
ذریعہ) آسمان میں پھیلا دیتا ہے ، پھر ان بادلوں کو باہم تہہ دار بنا دیتا
ہے۔ پھر تم(یہ منظر بھی) دیکھتے ہوکہ ان بادلوں کے درمیان سے بارش قطروں کی
شکل میں نکل آتی ہے جسے وہ اپنے جن بندوں پر چاہتا ہے، برسادیتا ہے اور
وہ(رب تعالےٰ کے اِس عطیہ پر) خوشیاں منانے لگتے ہیں۔ “
سچ پوچھا جائے تو ہم بارش کے اِس سارے منظر نامے کوبڑی بے دلی کے ساتھ
دیکھتے ہیں اور دیکھتے بھی ہیں تو، وہ بھی تب، جب یہ برسنے لگتی ہے،کیوں کہ
ہمار ے پاس دیدہ عبرت نگاہ نہیں ہے۔ ہم کبھی نظر اُٹھا کر آسمان کی طرف
نہیں دیکھتے کہ چھوٹے بڑے بادلوں کو خالقِ کائنات ، ہواﺅں کے دوش پر چلاکر،
ایک گھنے بڑے بادل میں کس طرح ضم کر دیتا ہے۔ایک گھنے ، بڑے بادل سے مل کر
مزید چھوٹے بادل ایک اجتماعِ سحابات کا کس طرح ماحول پیدا کردیتے ہیں، کیسے
یہ عموداً بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جب پانی کے سالمات انتہائی سردہوکر بھاری
ہونے لگتے ہیں تو یہ سالمات پھر بادلوں کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے بے تاب
ہو جاتے ہیں ۔ اب بادل بھی انہیں سنبھال نہیں پاتے تواِن ہی بادلوں
کےUpdraftسے قطروں کی شکل میں یہ آزاد ہوکر برسنے لگتے ہیں۔پھر یہی بادل جب
سطح زمین سے پچیس تا تیس ہزار فیٹ کی بلندی کو چھو لیتے ہیں توبے پناہ سردی
کے ماحول میں یہ اولوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اورزمین کی سطح تک پہنچنے
تک بھی قطرے نہیں بن پاتے۔
اِن آیتوں میںرب کائنات نے ایک مکمل نظامِ کائنات کے حوالے سے اِنسانوں کے
لیے جو درس ہائے عبرت رکھے ہیں،کیایہ اُس کی عظمتوں کے اعتراف کے لیے اور
اُس کی قوت و حشمت سے لرز جانے کے لیے کافی نہیں؟ایک غیر ذمہ دارانہ زندگی
پر سزا کی وارننگ کیا ہمیں خوفزدہ نہیں کرے گی؟ایک پاکیزہ زندگی پر عطاﺅں
اور بخششوں کی بشارت کیا ہمارے سینوں میں امیدوں کی جوت نہیں جگائے گی؟
بارش کے اِس پورے نظام پر مزید غور و فکر کیجیے تو معلوم ہوگا کہ درس ہائے
عبرت کا یہ سلسلہ بہت دور تک چلا جاتا ہے اور رب تعالےٰ کی عظمت کے کئی
پہلو کھول دیتا ہے۔مثلاً ، یہ تفصیل ملاحظہ ہو:بادل جہاں اِنسانی ذہن کو
پانی اور بارش کے تصور کی طرف لے جاتے ہیں، وہیں بجلی ، کڑک اور چمک کے
بارے میں بھی سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔یہی سوچ ہے جو حقائق پر مبنی
معلومات کے ڈھیر لگا دیتی ہے ، جیسے یہ حقیقت کہ، یہ بادل برقی طور پر چارج
ہوتے ہیں اور منفی برقی بار رکھنے والے اولے بادل کے نچلے حصے میں جمع ہو
جاتے ہیں۔چنانچہ ٹھنڈے پانی سے لبریز بھاری بادلوں کا نچلا حصہ منفی طور پر
چارج ہو جاتا ہے اور کڑک اور گرج کی شکل میں یہ سطح زمین تک پہنچ کر ڈسچارج
ہو جاتا ہے اور اِسی دوران ہمیں آسمانوں میں بجلی کی لپک دکھائی دیتی
ہے،جسےLightningبھی کہتے ہیں۔ خصوصاًمانسون میں آسمان پر چھائے ہوئے گھنے
بادلوں کے درمیان شب کی خوفناک تاریکیوں میں جب اچانک بجلی کوند جاتی ہے تو
خوف کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی بندھتی ہے کہ رب تعالیٰ کی رحمتیں برسنے کو
ہیں۔لیکن ایک دیدہ عبرت نگاہ ، بے پناہ قوتوں اور حشمتوں والے مالک کائنات
کی سزاﺅں کے تصور سے لرز بھی اٹھتی ہے۔ خوف اور فرمانبرداری کی کیفیت پید
اکرتی ہے۔ شب وروز کی زندگی میں ایمانداری کا احساس پیدا کرتی ہے۔ہمارے
اخلاق کے منفی پہلوﺅں کے خاتمے کو یقینی بناتی ہے۔جس طرح بجلیوں کی یہ چمک
بے مقصدنہیں ہے، اُسی طرح ہماری زندگی کو بھی بے مقصد سمجھنا بے معنی
ہوگا۔دراصل بجلی کی چمک محض کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے۔
اِس سلسلے کی ایک حقیقت اوربھی ہے کہ جب بجلی چمکتی ہے تو نائٹروجن اور
آکسیجن کے سالمات Moleculesکے جدا جدا ہونے کا عمل بھی شروع ہو جاتا
ہے۔نائٹروجن کے آزاد سالمات سے نائٹرک آکسائیڈاورنائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی
تخلیق عمل میں آتی ہے۔ نائٹروجن کے یہ بیش قیمت مرکبات Compounds بارش کے
پانی کے ساتھ زمین میں جذب ہوجاتے ہیں اورہر سال تقریباً پانچPound
نائٹروجن،Lighteningکے ذریعے زمین کو حاصل ہوتی ہے۔ جس سے زمین کی زرخیزی
Fertilityمیں اضافہ ہوتا ہے۔بادل ، بجلی،کڑک اور بر سات کا یہ مکمل نظام
،انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ کیسے اس کے رزق کی فراہمی کا تعلق بادِ
باراں کے اِس منظم نظام سے ہے۔بلکہ اللہ کی مخلوق کی زندگی کا امکان اِسی
نظامِ بادِ باراں پر منحصر ہے۔ اگر زمین پر یہ حالات نہ گذریں، بخارات زمین
سے اوپر نہ اٹھیں،بادلوں کی شکل میں وہ یکجا نہ ہوں،قطروں کی شکل میں وہ
بارش بن کر نہ برسیں،تو کیاہم اس زمین پر زندہ رہ سکتے ہیں؟اگر پانی سے لدے
یہ بادل ایک ساتھ ہی زمین پر ٹوٹ پڑیں،تو کیا آبادیاں اپنی مادی ترقی کے
تمام تر وسائل کے باوجود باقی رہ سکتی ہیں ؟ہمیں اُن انسانوں سے پوچھنا
چاہیے جو کائنات کو بے خدا سمجھتے ہیں کہ کیا اِن قطروں کی شکل میں برسات
کے برسنے کا نظام خود بخود چل سکتا ہے؟ کیااس نظام کا کوئی خالق نہیں ہونا
چاہیے ؟ کیا یہ نظام خود انسانوں کے قابو میں آسکتا ہے یا لایا جا سکتا ہے؟
کیا اس نظام میں ہمارا بھی کوئی عمل دخل ممکن ہے؟سب سے بڑا سوال تو یہ ہے
کہ ، بلا لحاظ ِ نکوکار و خطاکار، نعمتوں کی یہ عمومی بارش کیا بس یوں ہی
ہے کہ جس کا کوئی حساب نہ لیا جائے.... اِن نعمتوں سے متمتع ہونے والی
مخلوق سے، خاص طور سے انسانوںسے....؟؟
پھر ہم کو اِس حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ کڑکڑاتی ہوئی بجلیاں اکثر
و بیشتر ویران زمینوں ہی میں کیوں بھیجی جاتی ہیں!! کیا یہ اِس خوش کن
حقیقت کا مظہر نہیں کہ اللہ تعالےٰ بارش کی اپنی اِس رحمت کوبڑی حفاظت کے
ساتھ انسانوں کے سپرد کرنا چاہتا ہے!!مبادا، یہی بجلیاں اگر اپنی حدود کو
پھلانگ کرشہری آبادیوں پر گرنے لگتیں تو سوچئے کہ انسانیت کے اِن قافلوں کی
، اِن کی بستیوں کی اور اِن کی اِن فلک بوس عمارتوں کی کیا درگت بنتی!!اور
اِن کی عافیت کی کون گارنٹی دیتا!!!
رب تعالےٰ کا اپنے بندوں پر یہ کس قدر عظیم کرم اور فضلِ خصوصی ہے کہ اُس
نے ہماری حفاظت کا کتنا خیال رکھا ہے ،لیکن ہم ہیں کہ کبھی اُس کی اِن
رحمتوں کا اعتراف کرنے کو یادرکھتے ہیں، نہ اِس حقیقت پرغور کرتے ہیں کہ
پانی کی بارش کے ذریعہ فراہمی کے دوران یہ کڑک، یہ چمک اور دل دہلادینے
والی آوازوں کی موجودگی کس بات کا پتہ دیتی ہے۔دراصل یہ سب منظر ہمیں خواب
خرگوش سے جگانے کے لیے ہوتے ہیں،بعض مرتبہ یہ آوازیں اِس قدر شدید ہوتی ہیں
کہ زمین ہلتی محسوس ہوتی ہے، عمارتوں کے شیشے بجنے لگتے ہیں۔ گھن گرج اور
ہیبت ناک شور یہ پیغام دے جاتا ہے کہ وہ انسانوں کو پانی بھی فراہم کرتا ہے
اور اُس کی سختی سے باز پرس بھی کرنے والا ہے۔انسانوں تک یہ پیغام پہنچ
جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی بے بضاعتی کو تسلیم کرلیں، اللہ کی بارگاہ میں
اپنے آپ کو سپرد کردیں۔دل دہلادینے والے یہ سارے منظر اُس کے لیے وارننگ
ہیں ۔ رب تعالےٰ اگر چاہے تو فرحت بخش پانی سے لدے ہوئے یہ بادل انسانوں کے
لیے رحمت کے بجائے زحمت بن سکتے ہیں۔لیکن بجلی ،کڑک اور چمک میں یہ طاقت
نہیں کہ وہ اپنے رب کے حکم سے سرتابی کرے اور کسی ذی روح کو نقصان پہنچا
سکے۔ کسی مخلوق کی کیا مجال کہ وہ اپنے خالق کی نافرمانی کرے اور کسی اور
مخلوق کے لیے زحمت بن جائے۔لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ انسان خود ایسا ہے کہ
وہ اپنے رب کی اتنی واضح نشانیوں کے باوجوداُسے پہچان نہیں پاتا،نہ اپنی
روش میں کوئی تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے، نہ دیگر مخلوقات کو ضرر پہنچانے
سے باز رہتا ہے۔یہ کبھی اپنے رب کے جلال سے لرزتا نہیں، نہ اُسے رب تعالےٰ
کی سزاکا خوف بے تاب کرتا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں بہت کم انسان ہدایت سے فیض یاب نظر آتے
ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہدایت کے لیے وہ کتاب اللہ سے کسی تعلق کے بغیر بھی
دینداری کے دعویٰ دار ہیں۔ رب تعالیٰ اپنی نورانی کتاب کی ساتویں سورة کی
ستاونویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:”وہی ربِّ کائنات ہی تو ہے جو ( بارانِ
رحمت کی) خوشخبری دینے والی ہواﺅں کی ترسیل کرتا ہے، یہاںتک کہ جب (یہ
ہوائیں اپنے دوش پر) سحابِ ثقیل کو اُٹھا لیتی ہیں تو ہم اِسے مردہ
اوربنجرزمین کی طرف دھکیل لے جاتے ہیں اور اِسی سے ہم(مردہ زمین پربارش کا)
پانی برساتے ہیں۔(پھر اِس پورے سسٹم کے ذریعہ انسانوں اور مویشیوں کی غذا
کے لیے جس طرح )ہم ہر نوع کے ثمرات نکالتے ہیں،(اُسی طرح) ہم مُردوں کو
نکالیں گے ۔(یہ سارا تذکرہ اِس لیے ہے ) تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے (
اور تم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاﺅ)۔“
پانی کی فراہمی کا یہ عظیم الشان سائیکل جو ہر سال انسانوں کی آنکھوں کے
سامنے رونما ہوتا رہتا ہے،کیا اِس حقیقت کی یاددہانی کے لیے کافی نہیں کہ
جس طرح مردہ زمین کو بارش کے ذریعے مالکِ کائنات دوبارہ زندگی عطا کرتا
ہے،اُسی طرح،وہی رب اس بات پر بھی قادر ہے کہ زمین میں دفن شدہ تمام قدیم و
جدید مردہ انسانوں کو.... اُن کے ویران قبروں کے اندھیروں سے یااُن چتاﺅں
کی راکھ سے جن میں اُن کے جسم جلائے گیے یا کسی حادثے میں جل گیے یا پانی
کی اُن لہروں سے جن میں مردہ انسانوں کے جسم بہا دیے گیے.... دوبارہ اُٹھا
لائے اور حشر برپا کردے اور اُن کی زندگیوں کا حساب لے کہ انہوں نے اللہ کی
نعمتوں کے ساتھ کیساسلوک کیا....ذمہ دارانہ کہ غیر ذمہ دارانہ....؟ اور
زمین پر کیسی زندگی گزاری....!!
کہاں ہیں وہ دِل جو آیاتِ اِلٰہی کے بجلیوں اور کڑاکوں سے دہل جائیں....!!!
تلاش کوچہ جاناں کی چھوڑ دی میں نے
دماغ و دل میں چمکنے لگی ہے حق کی کرن |