2003میں جب میں نے اقتدار سنبھالا تو سب سے
پہلے ”بھوک کے خاتمے کا پروگرام“ دیا۔ اس سارے کام کی نگرانی کے لیے دس
وزرا ءمقرر کیے ۔ جن کا کام مال بنانا نہیں بلکہ پروگرام کو کامیاب اور
نتیجہ خیز بنانا تھا۔ اس دوران جس نے بھی معمولی سی کرپشن کی ، اس کو فارغ
کردیا گیا ۔ میرے دیئے گئے پروگرام کو اس درجہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ جب
2010میں میری صدارت کی مدت پوری ہوئی ۔ میرے بارے میں سروے ہوئے اور بتایا
گیا کہ 80فی صد مقبولیت رکھنے والا صدر اپنے اقتدار کوطول دینے کے لیے آئین
میں تر میم کرسکتا ہے ۔ لیکن ان کے خدشات غلط ثابت ہوئے ۔ یاد رہے کہ میرا
عرصہ ءاقتدار صرف آٹھ سال ہے ۔ مسلسل تیسری دفعہ آئین مجھے الیکشن لڑنے کی
اجازت نہیں دیتا تھا ۔ ایک جوتے پالش کرنے والے نیم خواندہ کو دنیا آج کیا
کہتی ہے:
-ورلڈ اکنامک فورم نے مجھے گلوبل سٹیٹس مین کا ایوارڈ دیا۔
-ٹائم میگزین نے اپنے زمانے کا سب سے کامیاب ترین سیاست دان قرار دیا۔
-اپریل 2009میں لندن میں جی 20کانفرنس کے دوران صدر باراک اوبامہ نے
کہا”میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں ، یہ اس وقت دنیا کا سب سے ہر دلعزیز
سیاستدان ہے“۔
-فنانشل ٹائم اور دوسرے بہت سے یورپی اخبارات اور میگزینز نے مجھے 50منتخب
افراد میں دنیا کی سب سے نمایاں اور بااثر شخصیت قرار دیا۔
-نیوز ویک 2008میں مجھے دنیا کے تمام لیڈرز میں سب سے اہم اورکامیاب رہنما
قرار دیا گیا ۔
اس کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے مگر مجھے ان اعزازات سے ہرگز کوئی دلچسپی
نہیں۔ میرے لیے یہ بات باعثِ سکون ہے کہ میں نے اپنے ملک کو خوشحالی کے
راستے پر گامزن کردیا۔ یہ سب کچھ میری شخصیت کے گرد ہی نہیں گھوم رہا تھا۔
میرے جانشین مجھ سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں ، وہ کامیابی کے اس سفر کو جاری
رکھیں ہوئے ہیں۔ میں واپس پھر جماعت کو منظم اور متحرک کرنے میں مصروف
ہوگیا ہوں کیونکہ جس قدر عوامی شمولیت زیادہ ہوگی، ملک اس قدر ترقی کرے گا۔
میرے آٹھ سالہ عرصہ اقتدار کی یہ کامیابیاں کسی معجزے سے کم نہیں ۔ اس میں
میرا اور میرے دوستوں ، پارٹی لیڈروں، ورکرز سب کا اخلاص اور جدوجہد شامل
تھی۔ میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی
ہیں ۔ ہر انسان غلطیاں بھی کرتا ہے غلطیوں سے سیکھتا بھی ہے ۔ غلطیاں اگر
بدنیتی سے پاک ہوں تو مہلک نہیں ہوتیں ۔ میں نے ہمیشہ قوم کو سچ بتایا
ہے،جھوٹ نہیں بولا۔ عالمی مسائل میں انصاف پر مبنی موقف اپنائے ۔ فلسطین کو
آزاد ریاست تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ اپنے ملک میں اس کا سفارتخانہ قائم
کیا۔ مشرق ِوسطیٰ کا دورہ کرکے میں نے اپنی حمایت کا یقین دلایا ۔ میں نے
غریب ملکوں کے رہنماﺅں کو ہمیشہ مشورہ دیا ہے کہ ”اپنے کردار کے ذریعے ،
اپنی ایمانداری اور دیانت داری کی مثالیں قائم کریں تاکہ وہ لوگ جو بہت کچھ
دینا چاہتے ہیں مگر انھیں اس بات کا یقین نہیں کہ ان کی رقم وہاں پہنچ پائے
گی ؟جہاں اسے پہنچنا چاہیے ۔ اپنے کردار سے ایسے لاکھوں لوگوںسے یک جہتی کا
اظہار کیجیے ، غریب ملکوں کی تقدیر بدل جائے گی“۔ بات کو مختصر کرتے ہیں ۔
آپ سمجھ رہے ہوں گے یہ کوئی فسانہ ہے مگر ایسا نہیں ، میں بھی ایک حقیقت
ہوں اور میرا ملک بھی ۔ میرے اور میرے ملک کے پس منظر کا کچھ کچھ خاکہ آپ
کے سامنے آچکا ہے ۔
میرا نامLuiz inacio Lula da Silva ہے لیکن میں” لولا ڈی سلوا “کے نام سے
مشہور ہوں اور میرے ملک کا نام برازیل ہے۔ آپ میرے اور میرے ملک کے بارے
میں مزید پڑھنا چاہیں تو چند کتابیں میں بتا دیتا ہوں :
- Lula of Brazil: the story so far
- Brazil under Lula
- Brizil's Lula
- Brazil on the Rise: The story of the Country Transformation
- The New Brazil
اور اس کے علاوہ بہت سی کتابیں میرے اور میرے ملک کے بارے میں جاننے کے لیے
مارکیٹ میں دستیاب ہونگی ۔ سنجیدہ لوگ دوسروں کی کامیابیوں سے سبق حاصل
کرتے ہیں ۔ میں نے بھی یہ سب کچھ کیا ۔ حاصلِ جدوجہد یہ ہے کہ ”سب کچھ ممکن
ہے“ اگر اخلاص موجود ہے ۔مگر کچھ بھی نہیں ہوسکتا اگر آپ اخلاص کے بحران کا
شکار ہیں ۔
مزید کالم پڑھنے کے لئے https://dairay.wordpress.com/ کو وزٹ کیجئے۔۔۔۔۔۔
|