20 ویں صدی کے ابتدائی برسوں کی
بات ہے جب دہلی شہر کی حدود پرانی دہلی یا شاہجہاں آباد تک ہی سمٹی ہوئی
تھیں اور چاندنی چوک اس شہر کی جان ہوا کرتا تھا۔سول لائنس ، کشمیری گیٹ
اور دریاگج میں شہر کے امراءرہا کرتے تھے جبکہ پرانی دہلی کے چاروں طرف
گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔پرانی دہلی سے کئی کوس دور اراولی کی پہاڑیوں کے
درمیان ایک گاؤں بسا تھا جسے رائے سینا کہا جاتا ہے۔ چاروں طرف کے گھنے
جنگلوں میں بھیڑئے ، چیتے گھومتے تھے اور ساون کے مہینے میں مور بولتے
تھے۔اسی رائے سینا پہاڑی کی زمین پر برطانوی حکمرانوں نے سو سال پہلے ملک
کے دارالحکومت کو کولکاتہ سے لا کر یہاں بسانے کا فیصلہ کیا۔ رائے سینا کی
پہاڑیوں پر چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے جن میں مالچا ، رائے سینا ، ٹوڈاپور،
علی گج ، پل لنجی ، جے سنگھ پورا ، کشک اہم سمجھے جاتے تھے۔ یہ وہی گاؤں
ہیں جہاں آج لٹینس اور ہربرٹ بیکرس کی نئی دہلی بسی ہوئی ہے۔
ان دیہاتوں میں اس وقت جاٹ ، گججر ، مسلم ، برہمن اور عیسائی برادری کے لوگ
رہتے تھے۔ یہ لوگ کھیتی باڑی‘مویشیشوں کی پرورش یا پھر شاہجہان آباد
یاپرانی دہلی کے بازاروں میں کام کرکے روزی روٹی کماتے تھے۔اسی پہاڑی اور
جنگلات کے علاقے میں قائم بستی حضرت نظام الدینؒ آباد تھی جس میں آج کی
بنگلہ والی مسجد بھی شامل ہے۔ متعددتاریخی مساجد کے علا وہ قدیم ہنومان
مندر ، کچھ جین مندر اور گرودوارا بنگلہ صاحب تھے جہاں پرانے شہر سے لوگ
اکثر آتے تھے۔مشہور مورخ اور کالم نویس آر وی اسمتھ کے مطابق دارالحکومت
بنانا تھا تو پہاڑیوں کو کاٹنے ، جنگلوں کو ہٹانے اور گاوں کی زمین کا
معاوضہ یا جبری طور پر حاصل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
بالآخر رائے سینا کی پہاڑیوں پر وائسرائے ہاؤس جسے آج کا صدارتی محل یا
راشٹر پتی بھون کہا جاتا ہے ، سیکرٹریٹ اور کونسل ہاؤس ‘ جسے اب پارلیمنٹ
ہاؤس کہا جاتا ہے‘ ان عمارتوں کو نئی دہلی کی علامت کے طور پر تشکیل دیا
گیا۔ اس شہر کو نئی دہلی کیوں کہا گیا ، اس پر شہر کے پرانے باشندوں کا
کہنا ہے کہ یہ ایک اتفاق صرف تھا۔کسی نے شاہجہان آباد کی طرز پر برطانیہ کے
بادشاہ کے نام پر اس کا نام ’جارج آباد‘ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت
جارج پنچم برطانیہ کے بادشاہ تھے۔نئی دہلی کے افتتاح کے بعد اپنا کاروبار
سمیٹ کر پرانی دہلی سے کناٹ پلیس میں آ کر بسنے والے تاجروں کے پہلے قافلے
کے رکن اور 84 سالہ زیور بیچنے سلطان سنگھ باکلی والا نے گزشتہ دنوں ایک
انٹرویو میں کہا تھا کہ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ نئے شہر کا کبھی
کوئی نام نہیں دیا گیا۔لوگوں کی زبان سے یہ لفظ اپنے آپ جاری ہوگیا اور
اجمیری گیٹ کی حدود سے باہر کے علاقے کو ’نئی دہلی‘ کہا جانے لگا۔ اس کے
بعد دہلی کو’پرانی دہلی‘ اور انگریزوں کی بسائے گئے نئے علاقہ کو’نئی
دہلی‘کہاجانے لگا۔
’دہلی میٹروپولیٹن : دی میکنگ آف این انلائکلی سٹی‘ کی مصنف رجنا سےن گپتا
نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آج کی جنوبی اور مشرقی دہلی آم کے باغات اور
قبرستانوں سے اٹی پڑی تھی۔کوٹلہ فیروز شاہ کے پیچھے والی سڑک سے آئی ٹی او
پل کی طرف جانے کیلئے موڑ سے گذریں تو آج بھی ایک گڑھا مستقل مرمت کا منتظر
نظر آتا ہے جبکہ نہ جانے کتنی مرتبہ اسے بھرا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں جب
جامع مسجد کے رہنے والے سابقہ گزیٹڈ افسرحاجی یونس سے پوچھا گیا تو انھوں
نے بتایا کہ جہاں آج کا یہ ’دہلی سچی والیہ ‘واقع ہے‘ یہاں تک دہلی گیٹ کا
قبرستان پھیلا ہوا تھا۔ ممکن ہے اس جگہ کوئی نیک بندہ آرام فرما ہو جس کی
بے حرمتی اللہ کو پسند نہ ہو لہذا سڑک کی مرمت کی ہر کوشش ناکام ہوجاتی
ہو۔جمنا ندی کے پار مشرقی دہلی میں شاہدرہ کھیتوں کے درمیان بسی ہوئی ایک
چھوٹی سی بستی تھی جہاں چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے۔ ایسے میں نئی دہلی کا
علاقہ دور دور تک ویران پڑا ہواتھا۔ |