آج ملک میںبابری مسجد کی انیسویں
برسی منائی جارہی ہے۔ اس موقع پردہلی سمیت پورے اترپردیش میں ہائی الرٹ کر
نا معمول کی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ ۔ 19برس قبل6 دسمبر 1992کو ہندو انتہا
پسند تنظیموں نے اترپردیش کے فیض آباد ضلع میں ایودھیا کے مقام پر بابری
مسجد کوشہیدکر دیا تھا۔6 دسمبر کو ہندو انتہا پسند تنظیمیں’یوم فخر‘ کے طور
پر مناتی رہی ہیں جبکہ مسلمانوں نے ’یوم غم‘ کے طور پر مناتے ہیں لیکن اس
مرتبہ 6دسمبر کو ہی یوم عاشورہ ہے ۔ گویا دو المناک واقعات آج کے دن مجتمع
ہو گئے ہیں۔لیکن ذرائع ابلاغ میں شائع بلبیر سنگھ کی رپورٹ پڑھ کر ہر انصاف
پسندمعاملے کی حقیقت تک پہنچ جائے گا۔ بلبیر سنگھ کی پیدائش6 دسمبر1970 کو
پانی پت کے ایک گاؤں میں ایک راجپوت گھرانے میں ہوئی تھی ۔ ان کے والد ایک
اچھے کسان ہونے کیساتھ ساتھ ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ بہت
اچھے انسان تھے اور انسانیت دوستی ان کا مذہب تھا۔ وہ کسی پر بھی ظلم کو
برداشت نہیں کرسکتے تھے، وہ ہمیشہ مذہب سے اوپر اٹھ کر سب کی مدد کو تیار
رہتے تھے۔ بلبیر سنگھ نے اپنے گاؤں کے اسکول سے ہائی اسکول پاس کرکے انٹر
میڈیٹ کیلئے پانی پت میں داخلہ لے لیا جہاں اس کی دوستی کچھ شیو سینکوں سے
ہو گئی اور وہ بھی شیوسینا میں شامل ہو گیا۔ بلبیر کے والدکو جب یہ معلوم
ہوا تو انہوں نے اسے بہت سمجھایا، انہوں نے اسے تاریخ کے حوالے سے سمجھانے
کی کوشش کی کہ یہ نفرت سے بھری تاریخ انگریزوں نے ہمیں لڑانے کیلئے گھڑی
گئی ہے۔ شیوسینا نے اس کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت بھردی تھی جس کی وجہ
سے اس کی سمجھ میں اپنے والد کی کوئی بات نہیں آئی۔ 1990 میں ایڈوانی کی
رتھ یاترا میں اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اوراس نے قسم کھائی کہ وہ ایودھیا
میں رام مندر بنا کر رہے گا۔ بلبیر سنگھ خود بتاتے ہیں کہ ’ہم لوگ 4
دسمبر1992کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ، جس میں میرا دوست سونی پت کا یوگندرپال
بھی تھا جس کے والد سونی پت کے ایک بڑے زمیندار ہیں، وہاں ہم نے اومابھارتی
کا بھاشن سناجس نے ہمارے اندر آگ بھردی، جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ
لگایا’ایک دھکا ایک اور دو، بابری مسجد توڑ دو‘ بس میری مرادوں کے پورا
ہونے کا وقت آگیا تھا اور ہم لوگ کدال لے کر بابری مسجد کی چھت پر چڑھ گئے
اور ’جے رام‘ کے نعرے لگانے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد مسمار ہو گئی۔ اس
کے بعد خوش خوشی ہم لوگ واپس پانی پت آگئے ، وہاں ہماری خوب پیٹھ تھپتھپائی
گئی۔ یہ بات جب بلبیر سنگھ کے والد کو معلوم ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوئے۔
انہوں نے بلبیر سے کہا کہ وہ اس کا منھ دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ اس سے کوئی
تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ انہوں نے کہا تم جیسے لوگ دیش کو توڑنا چاہتے ہو۔
بلبیر بھی غصے میں پانی پت واپس آگیا۔
بلبیر سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر اس کے دوست یوگیندر کا ذکر نہ کیا جائے تو اس
کے اسلام قبول کرنے کی کہانی ادھوری رہے گی۔ یہ لوگ جب پانی پت واپس آئے تو
مسجد کی 2 اینٹیں بھی لائے تھے۔ یوگیندر نے نفرت میں ان اینٹوں پر پیشاب
کیا۔ اس واقعہ کے 5,4 روز بعد ہی یوگیندر کا دماغ خراب ہو گیا، پاگل ہو کر
وہ ننگارہنے لگا، کپڑے پہناتے تو انہیں تارتار کر دیتا۔ اس کے والد بہت
پریشان ہو گئے ، وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ انہوں نے اسے بہت سے عاملوں اور
ڈاکٹروں کو دکھایا اور جس نے جہاں کہا وہاں لے کر گئے مگر اس کی حالت بگڑتی
ہی جارہی تھی۔ کسی نے انہیں مولوی محمد کلیم صدیقی کے بارے میں بتایا۔
انہیں پتہ چلا کہ وہ قریبی گاؤں بوانا آنے والے ہیں ۔ وہ لڑکے کو زنجیروں
میں باندھ کر بوانا لے گئے۔ دوپہر کو ظہر سے پہلے مولوی کلیم آئے۔ انہیں
پورا قصہ سنایا اور کہا ہم نے اسے بہت روکا تھا مگر یہ نہیں مانا اور سر
پھروں کے چکر میں آگیا۔ساری کہانی سن کر مولوی صاحب نے کہا کہ ساری دنیا کو
چلانے والا اللہ ہے ،اللہ کے گھر کو گرا کر اس نے بڑا گناہ اور ظلم کیا ہے،
اس میں کچھ گناہ ہم لوگوں کا بھی ہے کہ ہم نے دین کا پیغام غیر مسلم
بھائیوں تک نہیں پہنچایا، اب ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ، بس یہ ہے کہ آپ
بھی اس مالک کے سامنے گڑ گڑا ئیں اور معافی مانگیں اور ہم بھی معافی
مانگیں۔ مولوی صاحب نے مسجد میں بھی سب لوگوں سے دعا کو کہا۔ یوگیندر کے
والد نے مسجد میں گڑ گڑا کر دعا کی ۔ جب سب لوگ فارغ ہو کر مسجد سے باہر
نکلے تو اللہ کا کرم کہ یوگیندر نے اپنے باپ کی پگڑی اتار کر اپنے ننگے جسم
پر لپیٹ لی او رجلد ہی یوگیندر نارمل ہونا شروع ہو گیا۔ یہ سب دیکھ کر
یوگیندر اور اس کے والد نے اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگی
اور سچے دل سے اسلام قبول کر لیا۔
یوگیندر کے والد جن کا نام چوہدری رگھو بیر سنگھ تھا۔ محمد عثمان اور
یوگیندر کا نام محمد عمر رکھا گیا۔ یہ لوگ خوشی خوشی اپنے گاؤں پہنچے، گاؤں
کے بااثر لوگ ان کے دشمن ہو گئے۔ ان لوگوں نے گاؤں چھوڑ دیا اور دہلی میں
آباد ہو گئے اور چند دنوں بعد یوگیندر کی ماں بھی مسلمان ہو گئی۔ محمد عمر
کی شادی دہلی کے ایک اچھے مسلمان گھرانے میں ہو گئی۔ گاؤں کا مکان اور زمین
وغیرہ بیچ کر دہلی میں ایک کارخانہ لگا لیا۔ بلبیر سنگھ کی قبول اسلام کی
کہانی میں یوگیندر کی قبول اسلام کی کہانی کا بڑا ہاتھ ہے۔
9 مارچ1993کو اچانک بلبیر سنگھ کے والد کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا۔ ان
پر بابری مسجد کی شہادت میں بلبیر سنگھ کی شرکت کا بڑاغم تھا، بلبیر سنگھ
کو بھی اپنے والد کی موت کا بڑا افسوس تھا۔ جون1993میں محمد عمر یعنی
یوگیندر پال پانی پت میں بلبیر سنگھ کے پاس بھی تعزیت کیلئے آیا او راپنی
پوری کہانی سنائی۔ یہ سن کر بلبیر سنگھ کا دل خوفزدہ ہو گیا۔ وہ ہر وقت
ڈراہوا رہنے لگا کہ کہیں آسمانی آفت نہ گھیر لے۔ بلبیر سنگھ کا کہنا ہے کہ
یوگیندر پال کی کہانی سن کر مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اسلام میں ضرور کوئی
طاقت ہے جس کی وجہ سے اس کے دوست کو سزا بھی ملی اور مسجد میں دعا کرنے پر
وہ صحیح بھی ہو گیا۔ محمد عمر نے اسے بتایا کہ مولوی کلیم صاحب پانی پت آنے
والے ہیں تم بھی ان سے ضرور ملنا بلکہ ہو سکے تو کچھ دن ان کے ساتھ رہ کر
اسلام کے بارے میں معلومات بھی حاصل کرنا۔ بلبیر نے پروگرام بنالیا اور
محمد عمر کے ساتھ وہ مولوی کلیم صاحب سے ملنے پہنچ گیا۔ محمد عمر نے پہلے
ہی اس کے بارے میں مولوی صاحب سے سب کچھ بتا دیا تھا۔ مولوی صاحب اس سے بہت
محبت سے ملے۔ ایک گھنٹہ وہ مولوی صاحب کے ساتھ رہا جس میں انہوں نے اسے بہت
سی باتیں سمجھائیں جس کا بلبیر پر بہت اثر ہوا۔ اس نے کچھ دن مولوی موصوف
کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں وہ جہاں جاتے ان کی تقریریں بلبیر غور
سے سنتا، اب وہ پوری طرح اسلام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ اس نے
محمد عمر سے کہا میں سچے دل سے اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں اور 25 جون1993کو
ظہر کے بعد بلبیر نے اسلام قبول کر لیا۔ مولوی صاحب نے اس کا نام عامر
رکھا۔ اسلام کے مطالعے او رنماز وغیرہ یاد کرنے کے لیے مولوی صاحب نے عامر
( بلبیر سنگھ) کو اپنے ساتھ پھلت ( یوپی) میں رہنے کا مشورہ دیا۔ عامر اپنی
بیوی اور بچے کے ساتھ پھلت آگیا اور اسلام کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔3 ماہ کی
محنت کے بعد اس کی بیوی بھی مسلمان ہو گئی۔ کہانی لکھے جانے تک خبر ملی کہ
اس کی والدہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ محمد عمر اور عامر نے بابری مسجد کو ڈھانے
کی وجہ سے اس گناہ سے تلافی کے لیے یہ پروگرام بنایا کہ دونوں مل کر ویران
مسجد کو آباد کریں گے او رکچھ نئی مسجدیں بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ الحمدﷲ 6
دسمبر2004تک وہ پانی پت، ہریانہ ، پنجاب، دہلی او رمیرٹھ کینٹ کی13 ویران
اور مقبوضہ مسجدیں واگزار کراکے آباد کراچکے ہیں۔ محمد عمر اب تک20 نئی
مسجدیں بنوا چکے ہیں اور21 ویں کی بنیاد رکھی ہے۔محمد عامر یعنی بلبیر سنگھ
آج کل پانی پت کے قصبہ گوہانہ میں ایک جونیئر ہائی اسکول چلا رہے ہیں۔ اس
اسکول میں انگریزی میڈیم کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم کا بھی
انتظام ہے۔ محمد عامر کا کہنا ہے کہ مسلمان اپنے مقصد زندگی کو پہچانیں اور
اسلام کو انسانیت کی امانت سمجھ کر اس کو پہچاننے او راسے دوسرو ں تک
پہچانے کی فکر کریں۔ محمد عامر ہندوستان میں جگہ جگہ کیمپ لگاتے ہیں او ران
کیمپوں کا مقصد ہے کہ غافل مسلمان جاگیں اور انسانیت کے کام آئیں۔ |