23مارچ1940کو لاہور میں مسلم لیگ
کا سالانہ اجلاس ہوا جسے تاریخ نے قرار داد پاکستان کے حوالے سے اپنے اندر
محفوظ کر لیااور اس قرارداد کو جس شخصیت نے پیش کیا وہ تھے شیر بنگال مولوی
فضل الحق ۔اس سے پہلے 1906میں بنگالی شہر ڈھاکہ میں آل انڈیامسلم لیگ کی
بنیاد رکھی گئی تھی۔ اسی بنگال کے لوگوں نے اپنی گردنیں کٹاکر،اپنا خون بہا
کر قیام پاکستان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی ۔ پھر کیسے کچھ ہی سالوں میں
وہ لوگ پاکستان کے خلاف ہو گئے سیاسی اور انتظامی اختلاف کوئی انہونی یا
انوکھی بات نہیں تھی لیکن اِن اختلاف کو پہلے پیدا کیا گیا اور پھر ہوا دی
گئی یہاں تک کہ اس کے شعلے اس طرح بھڑکا دیئے گئے کہ جس نے آشیاں ہی جلا
دیا ۔
اور 1970-71کے وہ خون آشام سال بھی آئے جب دونوں پاکستانوں کے لوگ ایک
دوسرے کی جانوں کے دشمن بن گئے۔ دراصل بیچ میں ایک ایسا دشمن آ دھمکا تھا
کہ جس کی مکاری کا جواب کوئی بھی نہیں دے سکتا تھا۔بھارت نے مشرقی پاکستان
میں جو مکروہ کردار ادا کیا اس کی کوئی مثال تک نہیں ملتی ۔سالوں اس نے
وہاں کے عوام میں احساس محرومی کا بیج بویا اور اس احساس کو پختہ کیا کہ آپ
کے ساتھ زیاتی ہو رہی ہے جب وہاں کامیابی امکانات سے کم ملی تو وہ کچھ ہوا
جو ہمیشہ سے مسلمانوں کا المیہ ہے یعنی چندلیڈر نما لوگوں کو خرید کر انہیں
لیڈر بنادیا گیا اور دوسری طرف مغربی پاکستان میں بھی ہماری قیادت نے بھی
کچھ دانشمندانہ کردار ادا نہیں کیا اور وہ المیہ سٹیج کیا گیا کہ جو ہماری
تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے ۔دونوں طرف مسلمان ، دونوں طرف پاکستانی فرق صرف
لفظ مشرقی اور مغربی کا، اسی میں بے شمار پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
عورتوں کی بے حرمتی کی گئی بچوں کا قتل عام کیا گیا یعنی یہ صرف سیاسی نہیں
انسانی المیہ بھی تھا اور اس قتل عام کا ذمہ دار بلکہ واحد ذمہ دار بھارت
تھاجس نے اس سارے فساد کو پیدا کیا اور ہوا دی۔ مکتی باہنی نے جس طرح مغربی
پاکستانیوں کو، بہاریوں کو اور پاکستان کے ہمدرد بنگالیوں کو قتل کیا اس
درندگی میں اُسے را جیسے شقی القلب استاد اور مددگار کی مدد حاصل تھی اور
پھر اپنی تاریخی اور روایتی مکاری سے اُسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا
اور افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی باقاعدہ ایک مہم چلائی جسے ابھی تک ہوا
دے دی جاتی ہے اور بنگلہ دیشی عوام کے جذبات کو پاکستان کے خلاف ابھارنے کے
لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس طرح کی سول نافرمانی اور پاکستان مخالف
جنگ کا مشرقی پاکستان میں سامنا کیا گیا یہ کہنا کہ وہاں کوئی بنگالی ،فوج
کی گولی سے نہیں مارا گیا ہوگا غیر حقیقت پسندی ہے کیونکہ پاکستانی فوج اور
مغربی پاکستانی جس طرح وہاں محصور حالت میں مارے گئے تو یقینا انہوں نے اور
فوج نے اپنے دفاع میں گولیاں بھی چلائیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہندوہاسٹلز
سازشوں کی آماجگاہ اور سازشیوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے تھے تو یہ کیسے ممکن
تھا کہ انہیں چیک نہ کیا جاتا اور وہاں گولی نہ چلتی۔ یہاں ہونے والی 167
ہلاکتوں کو پاک فوج نے تسلیم کیا۔ لیکن دیناج پور کے ہزاروں شہدائ جو
بنگالی باغیوں اور مکنی باہنی کا نشانہ بنے، اس کا واویلا نہ تو انسانی
حقوق کی تنظیموں نے کیا نہ بھارت کو اُن سے کوئی ہمدردی تھی کیونکہ یہاں
ضمام کار اُسکے ہاتھ میں تھی اور بندوق اور بندوق چلانے والے دونوں ہی اُس
کے ساختہ و پرداختہ تھے ۔ اسی طرح چٹگانگ بھی پاکستان مخالفوں کی زدمیں
آگیا تھا یہاں دس ہزار کی سول آبادی مکنی باہنی کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی
اور کاٹ کر رکھ دی گئی اِن شہیدوں کا سوگ بھی سوائے پاکستان کے کسی نے نہ
منایا ،نہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اور نہ ہی بھارت نے ۔ بھارت نے اس کا
جشن ضرور منایا ہوگا کیونکہ اُن کی پروردہ مکنی با ہنی قتل عام میں خاصی
کامیاب رہی تھی۔ اسی طرح میمن سنگھ میں دو ہزار پاکستانی خاندانوں پر مشتمل
ایک بستی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تھا ۔ یہ سارے واقعات بہر حال
تاریخ میں محفوظ ہیںاور کچھ تو کیمروں کی آنکھوں نے بھی محفوظ کیے ہوئے ہیں۔
جہاں تک پاک فوج پر یہ قابل شرم اور گھنائونا الزام لگا یا گیا کہ اُس نے
لاکھوں عورتوں کی عصمت دری کی، تو اکادکا واقعات تو خارج ازامکان قرار نہیں
دئیے جا سکتے ﴿جسے حمودالرحمان کمیشن نے بھی تسلیم کیا﴾کیونکہ جب اِن
فوجیوں کی آنکھوں کے سامنے اِن کی زندہ مائوں بہنوں اور بیٹیوں اور یہاں تک
کہ اُن کی لاشوں تک کی بے حرمتی کی گئی تو دکھ اور کرب میں کچھ نے حوصلہ
ہار بھی دیا ہوگا لیکن بحیثیت مسلمان کوئی ایسی حرکت کے بارے میں سوچ بھی
نہیں سکتا اور کسی مسلمان فوج کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی کا کوئی مقام ہو
ہی نہیں سکتا اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج اور میڈیا نے پاکستان کے خلاف
جو سب سے گھنا و نا الزام لگایا وہ یہی تھا لیکن تاریخ یہ نہیں کہتی بلکہ
یہ سب بنگلہ دیش کے جواز کے طور پر بنگلہ دیش اور بھارت کی طرف سے اچھا لا
گیا اور ایسے ہونے والے واقعات کو بھی جو معمول کے مطابق ہو رہے تھے پاک
فوج کے کھا تے میں ڈا ل دیا گیا اور اس تعداد کو غیر معقول حد تک بتایا گیا
یعنی دو لاکھ ۔ لیکن سرمیلا باس کی کتاب Dead Reckoning کے مطابق یہ تعداد
ہر گز ہرگز اتنی نہیں تھی، یاد رہے کہ سرمیلا باس خود ایک بنگالی محققہ ہیں
جس نے اپنی کتاب میں عینی شاہدین کے بیانات شامل ہیں اور ان واقعات کی مکمل
تحقیق کے بعد اسے شائع کیا گیا ہے۔ اگر ایک بنگالی ہندو محققہ نے اس راز سے
پردہ اٹھایا ہی لیاہے تو ہمارے اپنے میڈیا اور محققین کو بھی اس الزام کو
پاک فوج کے دامن سے دھونے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں مکنی باہنی
اور بھارت کا کردار خود اتنا مکروہ اور وحشیانہ تھا کہ اُسے چھپانے کے لیے
انہیں بہت سارے حربے آزمانے پڑے۔
بنگلہ دیش مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھا اور تین طرف
سے بھارت سے گھرا ہوا ،جس نے اُس کا کام آسان کر دیا تھا پھر اُسے مشرقی
پاکستان کی ہندو آبادی کا بھی مکمل تعاون حاصل تھا اور یہ متعصب ہندو مسلسل
بھارت نوازبنگلہ دیش قوم پرستوں کی مدد کرتے رہے۔
بھارت جو بھی بیہودہ الزامات لگائے وہ اپنے ماتھے پر لگے درندگی اور دوسرے
ملکوں کے معاملات میں بے جامداخلت کے بدنما داغ کو نہیں دھوسکتا۔ یہ اور
بات ہے کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے پاکستان کے خلاف اس جنگ کے بارے میں بے
سروپا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ امن کی آشا اور امن کی فاختا ئیں اڑاتا اور
اپنے ایک گھنٹے کے دوران دس بار نشر ہونے والے ہر بلٹن میں بھارتی فلموں
اور ادا کاروں اور اداکارائوں کی خبر دیتا ہمارا میڈیا آج بھارت کے اِن
گھناونے الزامات کی تحقیقات کرکے ان کی حقیقت منظر عام پر لائے اور بھارت
کی مدد سے عوامی لیگ اور مکنی با ہنی کے مکروہ کردار کو بھی دنیا کے سامنے
لائے تاکہ اس ملک اور مٹی کا بھی کچھ حق ادا ہو اور آئندہ کے لیے
خدانخواستہ کسی بھی ایسی سازش کا مقابلہ آسانی، مہارت اور کامیابی سے کیا
جا سکے۔ |