سماء ٹی وی نے مدرسہ
ذکریاکاندھلوی کے دورے کی اجازت نہ ملنے پرایک ماہ کے بعدانتقامی پلان
پرعمل کرکے ''بریکنگ نیوز''جاری کی،یاظلم وستم کاشکاران ''معصوم''بچوں
کوبازیاب کرانے کے جذبہ صادق سے یہ قدم اٹھایا؟پولیس کوواقعی وہاں سے ''بھاری
مقدار''میں اسلحہ ملا،یاوہاں اسلحہ رکھاگیا؟وہاں نشے کے عادی افرادکوتعلیم
وتربیت فراہم کرکے انہیں معاشرے کاکارآمدشہری بنانے کی کوشش کی جارہی
تھی،یاانہیں خودکش حملوں کی تربیت فراہم کرکے ملک وملت کے لیے ناسورپالے
جارہے تھے؟یہ اوراس جیسے تمام سوالوں کے جواب آج نہیں توکل بہرحال مل جائیں
گے،کہ پولیس نے مدرسہ ذکریاکاندھلوی سیل کرکے تمام ریکارڈاپنے قبضے میں لے
لیاہے،ایک شخص کے علاوہ وہاں کے منتظمین بھی گرفتارہوچکے ہیں اورتحقیقات
شروع کردی گئی ہیں۔
اب تک کی ناتمام تفصیلات کے مطابق اسے مدرسے کانام دیاجائے یاعلاج گاہ
کا،بہرکیف زیرتربیت افرادخود اقرا ر کر چکے ہیں کہ ان کے والدین انہیں وہاں
لائے جس کی باقاعدہ ان سے فیس لی گئی ،یہاں تک کہ ان کوباندھنے کے لیے
زنجیریں اورتالے تک ان کے ورثاء نے مہیاکیے ،دوسری طرف جوورثاء اب تک اپنے
بچوں کولینے کے لیے پولیس اورمیڈیاسے رابطہ کرچکے ہیں وہ اس ادارے کی بندش
پرنالاں ہیں۔
اس مقام پراس حقیقت کوبھی فراموش نہیں کرناچاہیے کہ اب بھی کراچی سمیت دیگر
ملکی شہروں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جنھیں گھروں کے لواحقین نشے یا دیگر
ایسے غیر اخلاقی یا غریبی حالات کی وجہ سے مدرسوں میں چھوڑ دئیے جاتے تھے،
ایسے مدرسوں کو عمومی طور پر'' جیل مدرسہ'' کے طور پر متعارف کرایا جاتا
ہے۔اب بھی ایسے لاتعداد مدارس ایسے ہیں جہاں اولاد کی نافرمانی اور اپنی
غربت کی وجہ سے چھوڑ کر جانے کا رجحان موجود ہے۔اگر حکومت مدارس کی مناسب
اسکروٹنی کرتی تو یقینی طور پر ایسے مدارس کا سدباب ہوسکتا تھا جن کی وجہ
سے اسلامی خدمات دینے والے مدارس کا تشخص اور پاکستان کے امیج کو مجروح
ہوتا ہے۔
دینی مدارس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جانے کیوں ہمیشہ ہی زیرعتاب رہے
ہیں،حالاں کہ ان کی تعلیمی،فلاحی اوررفاہی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
ہیں،یہاں تک کہ پرویزمشرف جیسامدارس ودین دشمن شخص بھی مدارس کوبہت بڑی این
جی اوقراردیتارہاہے۔اس حقیقت کوبھی نہیں جھٹلایاجاسکتاکہ دینی مدارس کے
خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے میں صداقت نام کی کوئی چیزنہیں ہوتی،بلکہ
اکثروہ کسی یورپی ملک یامغرب کے خرچے پرپلنے والی کسی این جی اوکی نمک
حلالی کی غرض سے کیاجاتاہے۔اس دوڑ میں تمام ابن الوقت ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ
کرحصہ لینے کی کوشش کرتے ہیں،تاکہ اپنے بیرونی آقاؤں سے ''حق خدمت ''حاصل
کرسکیں۔انہیں اتنابھی صبروقرارنہیں ہوتاکہ تحقیقات کے نتائج کاہی
انتظارکرلیں،کیوں کہ اکثرجب نتائج سامنے آتے ہیں توان کے جھوٹ کاپول کھل
جاتاہے،جس کاانہیں پہلے سے ادراک ہوتاہے،اس لیے وہ ایساکوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیتے۔
اس واقعے پر بھی یہی صورت حال ہے ۔ایک صاحب جنہوں نے کبھی مدرسے کامنہ بھی
نہیں دیکھا۔جن کی جماعت کاذکر''خیرسپریم کورٹ''نے اپنے فیصلے میں بھی
''بھتہ خوروں''میں کیا۔جن کی جماعت حکومت کی ''واچ لسٹ''پرہے۔ان کاکہناہے
دینی مدارس کے نام نہاد جہاد کرنے اور نام نہاد اسلام پھیلانے کے مکروہ فعل
کی ہم نے ہمیشہ سے مخالفت کی ہے اور گذشتہ کئی برسوں سے کراچی میں مدارس کے
نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی اور ان مدارس میں قائم زیر زمین تہہ خانوں
اور بنکرزکی جانب اشارہ کرتے رہے ہیں، حکومت کراچی سمیت ملک بھر سے انتہا
پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو وہ فوری طور پر ایسے مدارس کے
خلاف کریک ڈاؤن شروع کردے۔ہم نے 4 سال قبل ہی بتادیا تھا کہ نام نہاد انتہا
پسندوں نے مدرسوں کے اندر بنکرز قائم کیے ہوئے ہیں جہاں دہشت گردوں کو تحفظ
اورکمسن بچوں کو تشدد اور برین واش کرکے دہشت گردی کی طرف راغب کیا جاتا
ہے، حکومت کو ایسے مدارس کو واچ میں رکھنا ہوگا جہاں بنکرز قائم کیے ہوئے
ہیں اور یہی دہشت گردی کے اصل ٹھکانے ہیں۔(روزنامہ جنگ بدھ 14دسمبر2011)
ملاحظہ فرمائیے،دین کانام لے کرلوگوں سے چندہ بٹورنے والے ''مذہبی
رہنما''مدارس دینیہ کے بارے میں کیاگل افشانی فرمارہے ہیں؟
شرم تم کومگرنہیں آتی
ہماری جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ وفاق المدارس العربیہ
پاکستان اوردینی مدارس کے خلاف بلاجواز زہراگلنے والے ان ابن الوقتوں کے
خلاف بھی کارروائی کاحکم دیں،جواپنے مذموم مقاصدکی خاطرنفرت انگیزبیان بازی
کرکے عوام میں مذہبی منافرت کاپرچارکرکے نقص امن کاباعث بن رہے ہیں۔
ہم ان سطورکے ذریعے حکومت کی توجہ مزارات اورآستانوں میں پابہ زنجیرقیدیوں
کی طرف بھی دلاناچاہتے ہیں۔جن کامشاہدہ اکثرمزارات اورعاملوں کے آستانوں
پرہوتاہے۔اس قسم کاایک تازہ ترین کیس حال ہی میں ٹنڈوآدم میں بھی پیش
آیاہے،جس میں امام مسجدنے سفلی علم کی بھینٹ کے طورپرایک پانچ سالہ بچے
کوقتل کردیا،مذکورہ شخص گرفتارکیاجاچکاہے۔اس کی ویڈیو''یوٹیوب''پردیکھی
جاسکتی ہے۔بات ویسے بھی چل پڑی ہے۔حکومت اس سلسلے کوآگے بڑھاتے ہوئے شاہ
عقیق، شاہ نورانی،درگاہ سہون،زندہ پیروغیرہ میں بھی ایسے پابند سلال ذہنی
مریضوں کو بازیاب کرانے کی کوشش کرے۔ حکومت کافرض بنتاہے کہ ایسے مریضوں کو
بیت المال سے علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرے۔صوبائی وزیربرائے نسانی حقو
ق محترمہ نادیہ گبول نے اس جانب ایک ہلکاسااشارہ بھی دیاہے اور کہا ہے کہ
مدرسے سے ملنے والے بچوں کو والدین کے حوالے نہیں کیا جائے گا، شہر میں
منشیات کی عادت چھڑانے کے کئی مراکز ہیں، منشیات کے عادی بچوں کو وہاں داخل
کرایاجائے گا۔ |