بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت
صرف آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے یہ الگ بات ہے
کہ موجودہ دور میں اس کی ضرورت و اہمیت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے
کیونکہ دنیا آج جس رخ پر جارہی ہے اور تہذیبوں میں تصادم و ٹکراؤ کی جو فضا
بنتی جارہی ہے اس سے واضح ہورہا ہے کہ اگر تہذیبوں میں ہونے والے اس ٹکراؤ کو
روکنے کی مخلصانہ اور کامیاب کوشش نہیں کی گئی تو پھر دنیا تیسری عالمی جنگ سے
دوچار ہوکر تباہ و برباد ہوجائے گی کیونکہ اگر اس بار عالمی جنگ ہوئی تو وہ
روایتی انداز سے نہیں لڑی جائے گی کہ اس کے اثرات صرف اسی خطہ زمین پر مرتب ہوں
جہاں وہ لڑی جارہی ہے بلکہ اب جو جنگ ہوگی وہ خلائی اور نیوکلیائی ہوگی جس کے
اثرات پوری دنیا میں موجود ہر خطہ زمین پر موجود افراد و اقوام کو بھگتنے ہوں
گے اسی لئے تہذیبوں کو تصادم سے بچانے اور دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے محفوظ
رکھنے کیلئے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے ایک مذہب کو نہیں تمام
مذاہب کے پیروکاروں کو کوشش کرنا ہوگی۔ اسی تناظر میں دن بہ دن اقوام عالم کے
درمیان بگڑتی ہوئی صورتحال اور تہذیبوں میں ہونے والے تصادم کے اثرات کو مدِ
نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے بین المذاہب کانفرنس کی تجویز پیش
کی جس کا دنیا بھرمیں خیر مقدم کیا گیا۔ اس دو روزہ بین المذاہب کانفرنس میں 70
سے زائد ممالک کے سربراہان وزراءخارجہ اور سفیر حضرات نے شرکت کی۔ اقوام متحدہ
کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کو بین المذاہب کے
درمیان مکالمہ امن کے لئے تجاویز اور مختلف مذاہب و عقائد اور ثقافتوں کے لوگوں
کو اکٹھا کرنے پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ
قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ کوئی بھی مذہب بے گناہوں کا خون
بہانے، دہشت گردی اور تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ کانفرنس میں تمام مذاہب و عقائد
سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک، عدم برداشت،
نفرت کے اظہار اور انہیں ہراساں کئے جانے کے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے تمام انسانوں، مختلف مذاہب و عقائد اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے، رواداری،
برداشت اور مفاہمت کی اہمیت پر زور دیاگیا۔ جنرل اسمبلی نے عہد کیا کہ مختلف
مذاہب و عقائد کے درمیان مکالمے، رواداری اور امن کی ترویج کو عام کرنے اور
انسانی حقوق کے احترام کے لئے مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور ممالک کی طرف سے
کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور مکمل حمایت کی جائے گی۔ 21 اکتوبر
2007 کو ایک کیتھولک تنظیم کی جانب سے تین روزہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں
مسلمان، عیسائی، یہودی، بدھ، ہندو اور زرتشت مذاہب کے علماءاور پیشوا شریک ہوئے۔
اجلاس سے خطاب میں پوپ بینڈی کٹ نے کہا کہ ایک ایسی دنیا جو لڑائیوں کا نشانہ
ہے جہاں خدا کا نام تشدد کو جائز قرار دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ
کوئی بھی مذہب کبھی بھی نفرت کا آلہ کار نہیں بن سکتا اور اسے کبھی بھی تشدد کو
جائز قرار دینے کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ مذاہب کو امن پسند انسانیت کی
تشکیل کے لئے اپنی تعلیمات پیش کرنی چائیں کیونکہ وہ انسان کے اطمینان قلب کی
بات کرتے ہیں۔ پوپ نے آخر میں کہا کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مختلف مذاہب
کے درمیان موجود اختلافات کے خاتمے اور امن و باہمی اتفاق کے لئے کام کرنے کی
ضرورت ہے ۔
ایسی کانفرنسیں اور ملاقاتیں متعدد بار ہوچکی ہیں مگر آج تک کو ئی قابل تعریف
نتیجہ نہ نکل سکا اور مذاہب کے درمیان فاصلے اور نفرتیں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں
جن کی بدولت آج دنیا مثل جہنم کا نمونہ پیش کررہی ہے ‘ دنیا کے ہر خطے میں
استحصال ‘ بد امنی ‘ جنگ و جدل ‘ نفرتیں ‘ رنجشیں ‘ اختلافات ‘لڑائی، بم دھماکے
اور جنگیں ہو رہی ہیں جس میں بلا تخصیص مذہب انسانی خون بہہ رہا ہے اور انسانیت
کی تذلیل ہورہی ہے ۔ حالات کی اس سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سعودی عرب کے شاہ
عبداللہ نے دنیا میں امن کے قیا م کےلئے بارش کا پہلا قطرہ بننا منظور کیا اور
ایک نفرتوں کے خاتمے کے کار خیر کا آغاز کیا۔ اب تمام ممالک کے سربراہان و عوام
اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ اس میں نیک نیتی و
خلوص سے شامل ہوکر دنیا کو بچانے کی راہ نکالیں جبکہ اس حوالے سے سب سے زیادہ
ذمہ داری ان ترقی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہیں دنیا کی قیادت کا شرف حاصل
ہے ۔یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو بد امنی ‘ نفرتوں ‘ جنگ اور تباہی سے
بچانے کےلئے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کےلئے عملی اقدامات کریں اور دنیا کو
ایک نکتے پر متفق کرکے نہ صرف احترام انسانیت کو ممکن بنائیں بلکہ انسانوں کے
ہونے والے قتل عام کو بھی رکوائیں ۔
مگر صد افسوس کے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک‘ ان کے سربراہان اور ترقی یافتہ
ممالک کی عوام دنیا کی جانب بڑھنے والے اس عالمی خطرے سے بے نیاز اپنے اپنے
مفادات کے حصول کےلئے اس خطرے کو مزید مہمیز دینے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ اگر
ان عالمی قوتوں اور قیادتوں نے دنیا کی جانب بڑھنے والے اس خطرے کا ادراک کر کے
اس کے سدِ باب کےلئے اقدامات کئے ہوتے اور اب تک ہونے والی بین المذاہب
کانفرنسوں اور مکالموں کو نتیجہ خیز بنانے کی جانب پیشرفت کی جاتی تو یقینا نہ
تو بھارت میں عیسائیوں کو زندہ نہ جلایا جاتا‘ نہ مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا
‘ نہ دنیا میں شدت پسندی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا نہ ہی دہشت گردی کے
خلاف جنگ کا آغاز کرنے کی نوبت آتی جس نے دنیا کی معیشت کو تباہ حالی سے دوچار
کر کے دنیا کے اربوں انسانوں کو غربت اور بھوک کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ‘ نہ
عراق اور افغانستان پر حملے کی نوبت آتی اور نہ ہی امریکہ کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر
زمین بوس ہوتا ‘ نہ سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھما کے کے ذریعے مسلمانوں کا قتل
عام کرنے کی سازش کی جاتی اور نہ ہی ممبئی دہشت گردی کے تازہ ترین واقعات کی
لپیٹ میں آتا ۔ اگر آج بھی بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے نیک نیتی سے
کام شروع کردیا جائے تو بہت تھوڑے عرصہ میں قتل و غارت گری کو روکا جاسکتا ہے
اور اگر دنیا سے نفرت و حقارت کے جذبات کو ختم کرکے اقوام عالم کو محبت کی مالا
میں پرونے کا کارنامہ انجام دے لیا گیا تو پھر جنگ و جدل پر اٹھنے والے اخراجات
سے نجات پاکر دنیا کو معاشی ترقی و خوشحالی کی حقیقی منازل سے روشناس کرانے میں
آسانی پیدا ہوجائے گی ۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ سے آپس میں پیار و محبت
کے رشتے استوار کرکے پوری دنیا کے لوگوںکو خوف کی فضا میں زندگی گزارنے سے
بچاکر امن و آزادی کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے اور ایک ایسی دنیا جہاں امن ہو
‘ سکون‘ ہو آزادی ہو ‘ ترقی ہو ‘ خوشحالی ہو ‘ ایک دوسرے کا احترام و محبت ہو
اور جہاں خوشیاں ہوں اسے ”جنت “ ہی کہا جاسکتا ہے جبکہ موجودہ دنیا جہنم سے
تعبیر ہے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس دنیا کو جنت بناناچاہتے ہیں یا رب کے
بھٹکے ہوئے انسانوں کی طرح جہنم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا نا چاہتے ہیں ۔ |