بچے مستقبل کے معمار ہیں۔ اس
حقیقت کے اعتراف کے طور پر دنیا کی مختلف اقوام مختلف ایام میں یومِ اطفال
مناتی ہیں۔ پہلی بار عالمی یوم اطفال 1953ءکو انٹر نیشنل یونین فار چلڈرن
ویلفیئر کے تحت منایا گیاجسے بعد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اپنا
لیا۔ پہلی بار جنرل اسمبلی کی طرف سے 1954ءکو یہ دن منایا گیا۔یہ دن ہر سال 20
نومبر کا منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بچوں کے لئے
ایسے اقدامات کئے جائیں جو ان کی بہتر نشوونما، اور فلاح بہبود کے لئے ضروری
ہیں اور انہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات بہم پہنچانے کا انتظام کیا
جائے تاکہ وہ مستقبل میں ملک و ملت اور انسانیت کے لئے مو ¿ثر کردار ادا کر
سکیں۔ آج (20 نومبر 2008) 54واں عالمی یوم اطفال تھا۔ یعنی اس بات کا عزم کئے
ہوئے کہ بچوں کی فلاح کے لئے سب مل کر اقدام کریں گے نصف صدی سے زائد کا عرصہ
بیت چکا ہے۔ لیکن نتائج کیا ہیں اس کے لئے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
یاد رہے کہ 20 نومبر بچوں کے حقوق کے لئے اقوام متحدہ کے تحت بننے والی دو اہم
دستاویزات کی سالگرہ کا دن بھی ہے ۔ (۱) ڈیکلیریشن آف دی رائٹس آف چائلڈ1959
(۲) کنونشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ1989۔ اور دنیا کے تقریبا 180 سے زائد ممالک
اس کی توثیق کر چکے ہیں۔اس حوالے سے بچوں کے لئے یہ دن غیر معمولی اہمیت کا
حامل ہے۔
ایک بات جو کہ قابل غور ہے وہ یہ کہ عالمی یوم اطفال کا تصور ہماری روایات کا
حصہ نہیں رہا بلکہ مغرب کی طرف سے درآمد ہوا ہے۔ یہ کہنے سے میری مراد ہر گز یہ
نہیں کہ وہاں سے آنے والی ہر چیز قابل رد ہے لہذا اس کو بھی رد کر دیا جائے۔
بلکہ ۔۔۔ اس تصور کا مغرب کی طرف سے آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اپنے
بچوں کے بارے میں ہم سے زیادہ حساس ہیں۔لیکن اس حوالے سے جملہ معترضہ کے طور پر
یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آخر کیوں انہیں بچوں کی اتنی فکر ہے۔ اس کا ایک جواب
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید اس معاشرے کی بے راہ روی نے بغیر سرپرست کے بچوں کی
تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی قابل غور ہے کہ اس
تمام دستاویزی کاروائی اور عالمی یوم اطفال کے انعقاد کے باوجود ماضی قریب تک
انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ میں سیاہ فام بچوں کے ساتھ ہونے والا
سلوک حقوق اطفال کے حوالے سے مغرب کے اخلاص پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اور یہ
صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں بلکہ افریقہ کے کئی ممالک جہاں ایک عرصہ تک فرانس
کا ناجائز قبضہ رہا ہے بچوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا، فلسطین ، بوسنیا،
جارجیا اور اس طرح کے کئی ایک ممالک جہاں پر امن و اماں کی صورتحال دگر گوں ہے
بچوں کے غیر محارب ہونے کے باوجود ان کے بنیادی حق ”حق زندگی“ تک سے محروم کر
دیا جاتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے بھی کئی شہروں میں جلسے ہوئے ، ریلیاں
نکالی گئیں، سیمینارز کا انعقاد ہوا اور وزیر اعظم، صدر مملکت اور دیگر کئی
سرکردہ افراد کے محبت بھرے پیغامات نشر کئے گئے۔ لیکن جن کے لئے یہ دن خاص کیا
گیا ہے ، جن کے نام پر یہ سارا جشن وقوع پذیر ہو رہا ہے، جن کے نام پر ہزاروں
ڈالرز اڑائے جا رہے ہیں ان کی حالت کیا ہے؟، اس خاص دن میں وہ کس کیفیت سے گزر
رہے ہیں؟اس حوالے سے نہ تو کسی کو خبر ہے اور نہ ہی فکر۔
اخبارات کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں بچے
انتہائی کسم پرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج بھی تین مائیں اپنے جگر گوشوں کو
ایدھی سینٹر کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں۔ لاہور میں والدین بچوں سمیت خود کشی
کرنے کو تیار ہیں ، ماں اپنے بچوں کو سربازار نیلام کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اور
کہیں باپ اپنے بچوں کو قتل کر کے خودکشی کر چکا ہے اور یہ بات پوری قوم کے لئے
بالعموم اور حکمرانوں کے لئے بالخصوص لمحہ فکریہ ہے کہ ماں جو اپنے بچے کے پاو
¿ں میں کانٹا تو کجا اس پر سورج کی دھوپ تک برداشت نہیں کر سکتی ، اس کی تمام
تر نافرمانیوں اور زیادتیوں کے باوجود اسے اپنی آغوش محبت میں سمیٹنے کے لئے
بیتاب رہتی ہے آج اپنے معصوم جگر گوشوں کو بیچنے پر مجبور ہے۔ آج بھی زیارت کے
زلزلہ علاقے میں تین بچے سردی سے ٹھٹھر کر جہاں فانی چھوڑ گئے۔ لیکن ہماری بے
حسی۔۔۔
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
لو گ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
آج صدر مملکت اور وزیر اعظم کی طرف سے شائع ہونے والے پیغامات میں کہا گیا کہ
حکومت بچوں کے حقوق کے تحفظ اور انہیں سہولیات پہنچانے کے حوالے سے اپنی ذمہ
داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ اور حکومت بچوں کے حقوق کےلئے وسیع پیمانے پراصلاحات
کے ایجنڈے پر تسلسل سے کام کر رہی ہے۔ وہی رسمی باتیں ۔۔۔ کاش اس نازک موقع پر
کسی ماں کے سر پر دست شفقت رکھا ہوتا، کسی مجبور بچے کو سردی سے بچنے کے لیے
چند کپڑے دے دیئے ہوتے، کسی غریب کی تعلیم کی ذمہ داری لے لی ہوتی۔ کاش صدر
مملکت نے اپنے ذاتی خرچے سے چند یتیم بچوں کی کفالت کا اعلان کیا ہوتا ۔ اور
میں اپنی ناقص سمجھ کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ یقینا اس کا ثواب کئی عمروں سے
زیادہ ہوتا۔اور آج بچوں کے نام پر جو سیمینارز، جلوس، ریلیاں اور دیگر پرگرامات
ہوئے ہیں اگر ان میں صرف ہونے والی دولت کا صرف پانچ فیصد بھی بچوں کی حقیقی
فلاح کے لئے صرف ہوتا تو کئی بچون کا مستقبل سنور سکتا تھا۔
یہ تو عمومی صورتحال ہے اگر ایک ایک پہلو پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ
شاید بچے معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ ہیں۔ بطور خاص تعلیم کے حوالے سے سہولیات
نہ ہونے کے برابر ہیں ۔دیہی علاقوں میں جہاں پاکستانی آبادی کا بڑا حصہ رہتا ہے
تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ شہروں میں بھی تعلیم کا دہرا معیار اس
قدر رواج پا چکا ہے کہ امیر اور غریب کے درمیاں خلیج ہر آنے والے دن کے ساتھ
وسیع ہوتی جا رہی ہے۔
اس یوم اطفال پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ بچوں کو نہ صرف ان کے بنیادی حقوق دیں
گے بلکہ ان کی بہتریں نشوو نما کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں
گے اور ان تمام اسباب کا قلع قمع کریں گے جس کی وجہ سے بچے کی خود داری تباہ
ہوتی ہے اور وہ اعتماد کی دولت سے محروم ہو جا تا ہے۔ کیوں کہ بچے قوم کے معمار
ہوا کرتے ہیں اور ۔۔۔۔
جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند
اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو |