ہر طرف اندھیر نگری ہے ،یار بھی
عیاری کر رہے ہیں ،جس کا رونا ہمیں ناگوار ہے وہ ہمارے لہو کا پیاسا ہے۔حق
وسچ کا علمبردار ، نام ِ اسلام و مدارس کے قتل کارواداربن رہا ہے ۔بے جا
تنقید سے توقیر ِ مدارس وملاّ مقصودہے ۔کسی غیر کی غیر مرئی سازش کا شکار
میر اہی وہ طبقہ جسے اپنے سچ پہ بڑا ناز ہے اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ
صحافت کہ اس کی ابتداء ہی صحیفہ سے ہوتی ہے ۔مشہور نقاد ہابس نے کہا تھا کہ
انسان بنیادی طور پر خود غرض ہے اور اس کے تمام اعمال وافعال خود غرضانہ
ہوتے ہیں ۔ہابس یہ بات بھول گیا کہ یہ انسان بنیادی طور پر تو نیک پیدا
ہوتا ہے یہ خود غرضی اور ریاکاری اس کے اندر کہاں سے طلوع ہوتی ہے وہ اس کو
تلاش کرتا اور اس پہ رائے قائم کرتا ۔ ہابس نے شیفٹسبری کا موقف بھی اس وقت
جان لیا ہوتا تو اپنے موقف سے رجوع کر لیتا اور وہ یہ کہتا کہ اس کے اندر
خود غرضی جو آتی ہے یہ کسی مادی لالچ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اپنے من کو ظاہر
کرتے یہ خوبصورت پیشہ سے متصف حق کو واضع اور اپنے فن ِصحافت کا ادراک کرتے
ہوئے اگر تصویر کے دونوں رخ دکھائیں تو بعید نہیں کہ بہت ساری خرابیاں ختم
ہو جائیں ۔عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ نیک فطرت ،اعلٰی ظرف اور پاک
باطن کسی بھی صلاحیت سے لیس اپنے افکارِ عالیات کی بدولت معاشرے میں اخلاقی
قدروں کو فروغ دینے میں کام یاب ہوتے ہیں ۔ایک اجلے من کا تخلیق کار فطرت
کی آغوش میں پرورش پاتا ہے اور خود کو زندگی کے روز مر ّہ کے منفی تقاضوں
سے آلود نہیں ہونے دیتا ۔یہ زیرک اور دانش ،جو تخلیق کار جانتا ہے کہ فطرت
کو تمدن پر برتری حاصل ہے ،کیوں کہ فطرت خدا کی تخلیق ہے اور تمدن انسان کی
۔سچی بات تو یہ ہے کہ جب کوئی تخلیق کا ر اپنی ذات کی تطہیر کر لیتا ہے ،تو
اس کی تخلیق میں ایسی خوش بو پیدا ہو جاتی ہے ،جو پورے معاشرے کو معطر و
معنبر کرنے کا موجب بنتی ہے ۔ تخلیق میں فطری سچائی کا اظہار عبادت سے کم
نہیں ہے ۔
کراچی جیسے علمی وفکری درسگاہوں کے حامل شہر میں نشئیوں کی علاج گا ہ کو
مدرسہ کہہ کر ایک مرتبہ پھر مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔یہ
کہا نی یا سازش کااصل چہرہ دیکھنے کے لئے ایک ماہ قبل کی گئی اسی علاج
واصلاح گاہ کی ٹی وی چینل کی کوریج کو دیکھنا پڑے گا ،تا کہ اس ساری سازش
کو بے نقاب کرنے میں معاونت مل سکے ،کیوں کہ اس سازش میں ایک کردار میڈیا
میں موجود کالی بھیڑوں کا بھی ہے ۔سازش کے تحت ہی نشے کے عادی افراد کی
علاج گاہ کو مدرسہ ظاہر کیا گیا۔سہراب گوٹھ میں افغان کیمپ سے متصل اصلاحی
مرکز میں نشے کے عادی افراد کو ان کے اہل ِ خانہ خود داخل کرو اکر جاتے تھے
بلکہ ان میں سے بعض کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے خود ہی بیڑیاں بھی لے کر دی
تھیں اپنے بچوں کے لئے تاکہ وہ وقتی مصیبت کو برداشت کر کے ابدی مصیبت سے
نجات حاصل کر سکیں ۔ان نشے کے عادی افراد کو فرار سے روکنے کے لئے زنجیروں
سے باندھ کر رکھا جاتا تھا ۔کراچی میں موجود ایسے تمام ادارے یا اسپتال
جہاں پرنشے کے افراد کا علاج کیاجارہا ہے انہیں بھی علاج کے ابتدائی دنوں
میں زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے۔افغان خیمہ بستی سے متصل فرید گوٹھ
میں اس اصلاحی مرکز میں ہونے والے علاج سے علاقے کی انتظامیہ پہلے سے آگاہ
تھی اور یہ اصلاحی علاج گاہ اس پورے علاقے میں مشہور تھی ۔لیکن یہ اس وقت
کہ جب ایک ماہ قبل اس علاج کا ٹی وی چینل نے سروے کیا اور زیرِ علاج مریضوں
سے ملاقات بھی کروائی گئی جنہیں ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جارہی تھی اس
رپورٹ کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے بعد اعلٰی افسران کے کہنے پر چھاپہ مارا گیا ۔اورمیڈیا
جو سچ کا علمبردار بنتا ہے وہ بھی اس سازش کا پوراپورا حصہ دار بن گیا
اوریوں پولیس کے مطابق 18بچوں سمیت 56افراد کو بازیاب کروالیا گیا ۔
اس بازیابی کی خبر نشر ہونے کے بعد گلشن معمار تھانے میں اپنے بچوں کولینے
کے آنے والے والدین کا کہناتھا کہ انہوں نے خود اپنے بچوں کو اصلاحی مرکز
میں داخل کروایا تھا۔مگر پولیس ان کی بات سننے پہ راضی ہی نہیں تھی ۔پولیس
کی منافقانہ کاروائی اور میڈیا کی دورخی پر اہل ِ علاقہ اور وہاں پر موجود
لوگوں میں شدید اشتعال موجود تھا ۔اس مدارس مخالف مہم میں شامل عناصر کی
منافقانہ چال سے نالاں ان بچوں کے والدین کا کہنا تو اب بھی یہی ہے کہ اس
مرکز کو دوبارہ کھولاجائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو دوبارہ یہاں داخل کرواسکیں
۔اس دارے کاقیام تین سال قبل مفتی داﺅد کی نگرانی میں عمل آیا تھا اور اس
کی تعمیر کاسلسلہ ابھی تک جاری تھا ۔یہاں پر پانچ قاری صاحبان قرآن کی
تعلیم دے رہے تھے ۔اس مدرسے میں فرید گوٹھ کے علاوہ افغان بستی اور بہادر
گوٹھ کے 400سے زائد بچے اور200سے زیادہ بچیاں دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔اور
یہ اصلاحی مرکز اسی مدرسے کے احاطے میں ہی الگ سے قائم تھا ۔اور یہاں پر
باقاعدہ ورثاءفیس دیتے تھے نارمل بچوں کے والدین 1350روپے اور نشے سے
چھٹکارے کے لئے داخل کروائے گئے افراد کی 3000ماہانہ فیس تھی ۔
عوام کے جان ومال کے محافظوں کے چھاپے میں بازیاب کروائے جانے والے میں سے
18بچوں کی عمریں 7سے 15سال ہے اور جبکہ 38افراد وہ تھے جو اسی عوام کے جان
و مال کے نام نہاد محافظوں کی موجودگی میں اسٹریٹ کرائم ،چوری ،ڈکیتی،
لڑائی جھگڑے جیسی وارداتوں کے عادی افراد تھے ۔ایسے افراد اگر کو اگر راہ
راست پر لانے کے لئے کوئی فلاحی ادارہ اگر کام کر رہا ہے تو پولیس کو بجائے
خوش ہونے کے کہ اسٹریٹ کرائم میں کمی آئے گی ،لیکن معاملہ اس کے الٹ نظر
آتا ہے،اس کا صاف مطلب ہے کہ پولیس نہیں چاہتی کہ ان کا علاج کر کے ان کو
صحیح سمت گامزن کیاجائے اور جو ادارہ اس کارِ خیر کو چلارہاہے اس کی حوصلہ
افزائی کی جائے بلکہ یہاں تو معاملہ چور ڈانٹے کوتوال کو والا تھا ۔
اس واقع کے بعد بے شمار سوالات جنم لے رہے ہیں اگر یہ مدرسہ تھا تو اس میں
وہ بوڑھے کیا کر رہے تھے ؟اگر یہ واقعی دہشت گردی کے لئے تیار کیے جارہے
تھے تو تین سال تک سیکورٹی اداروں کی پہنچ یہاں کیوں نہ ہوئی ؟اور اگر یہاں
ظلم ہو رہا تھا تو سب سے پہلے تھانوں میں آئے ان لوگوں کو گرفتار کیا جاتا
جو وہاں یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے خود یہاں اپنے بچوں کو چھوڑا تھا بلکہ
بیڑیاں بھی خود لے کر دی تھیں اور ماہانہ فیس بھی ادا کرتے تھے ؟اور اگر
یہاں پر صرف بھیڑیاں پہنانے کا جرم تھا تو کراچی میں موجود ایسے دیگر ادارے
جو ایسے افراد کا علاج کرتے ہیںوہ بھی تو ان بیڑیوں کا استعمال کرتے ہیں
؟اور ان کے والدین اور وہ افراد خود بھی اقرار کرتے دیکھائے گئے ہیں کہ ہم
نشہ کرتے ہیں اور کرائم میں ملوث تھے تو ان کے اور ایسے ادارون پر ایسی
نظرِ کرم کیوں نہیں کی گئی ؟
مشرقی روایات میں مغربی رنگ لانے والے جتنا مرضی وویلا کر لیں مدارس مخالف
مہم چلا لیں یا مقامی غیرمقامی کی فضول بحث چھیڑ لیں سوائے اپنے بغض وعناد
کے اظہار کے اور کچھ بھی نہیں کر سکیں گے کیوں کہ بقال شاعر
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھی ہے
اسے جتنا دباﺅ گے یہ اتنا ہی ابھرے گا
مگر ایک بات واضع ہے کہ اگر اب کی بار بھی اہل ِ مدارس نے صرف ان چند
بیانات پر پہلے کی طرح اکتفا کر کے اس سازش کو بے نقاب نہ کیا تو آنے والے
وقت میں اس سے بڑھ کر یہ اسلام دشمن قوت کو خوش کرنے گروہ پھر کسی بڑی سازش
کا سامنا کروا سکتا ہے ۔اور مکّار اپنے مکر سے باز نہیں آتاوہ ہر دفعہ ایک
نئے واروسازش کے ساتھ آتا ہے ۔لہٰذہ
صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط ٓہنگ بھی ہوتا ہے سروش!
پہلے تو اس سازش کا حصہ صرف وہ اسلام ومدارس مخالف مغرب کے ایجنڈے و ایڈ پہ
راضی رہنے والے ہوتے تھے مگر اب کی بار اس لوہے کو ہماری ہی لکڑی (میڈیا)کا
دستہ میسر آگیا ہے ۔اور اب تو مدارس کی انتظامیہ کو اس پر کھل کر سامنے آنے
کی ضرورت ہے کیوں کہ منظور وسان ذولفقار مرزاکا سامناکرسکیں یا نہ بہرحال
مدارس کے بارے انہوں نے بھی ارشادات فرمائے ہیں اور ان کے دوست پیر مظہر
صاحب نے بھی علماءکے بیان پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ
منظور وسان کا بیان ایم کیو ایم کے صوبائی وزیرفیصل سبزواری کے نکتہِ
اعتراض پرکیااسمبلی کے فورم کا بیان ہے ۔یہ ساری چیزیں سامنے رکھتے ہوئے
ایک مرتبہ پھر علماءاس سازش کو ناکام بنانے کی کوشش کریں اور ان سوالات کے
صیحح اور واضح جواب مانگیں جائیں ۔ اور انہیں مدارس اور نشیﺅں کی علاج گاہ
کافرق واضع کیا جائے ۔ |